Inquilab Logo

غالبؔ کو بھلا کر ہم پوری ایک صدی کے اُردو اَدب کا تصو ّر نہیں کرسکتے

Updated: December 19, 2021, 4:52 PM IST | Faraq Gorakhpuri

اردو کے کسی اور شاعر کے ہاں اظہار و بیان کی رگیں اتنی حساس نہیں ہیں جتنی اسداللہ خاں غالبؔ کے اشعارمیں نظر آتی ہیں۔

Asadullah Khan Ghalib alias Mirza Nowshah.Picture:INN
اسد اللہ خاں غالب عرف مرزا نوشہ ۔ تصویر: آئی این این

اگر ہم صرف ہندوستان تک  اپنی کمند خیال کو محدود کردیں، تو بھی کچھ ایسے نام بے ساختہ طور پر ہمارے ذہن میں آئیں گے جن کی اہمیت کسی طرح غالبؔ سے کم نہیں ہے۔ مثلاً کالی داس، تلسی داس، خسرو ، کبیر اور میر تقی میر… یہ فہرست اور بھی لمبی ہوسکتی ہے، لیکن ابھی ہندوستان کے کئی عالمگیر شہرت والے شاعروں کو مَرے  ہوئے  یا تو سو برس نہیں ہوئے ہیں یا ان کی تاریخ وفات کا ٹھیک ٹھیک علم ہمیں نہیں ہے، یا پھر کوئی ایسی وجہ ہے کہ ہم نہ جانے کیوں کئی ناموں میں ایک کو منتخب کرلیتے ہیں۔
 غالبؔ نے خود عرفیؔ، مرزابیدلؔ اور میرتقی میرؔ کو خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔ غالبؔ کے نام کا چراغ بھی دوسرے ناموں کے چراغ سے روشن ہوا۔ پھر بھی ہم غور کریں تو کچھ وجوہ ضرور اس عالمگیر خراجِ عقیدت کی ہماری سمجھ میں آجائیں گی۔ غالبؔ کی زبان و بیان آج ہندوستان کا سب سے جاندار اور زندہ زبان و بیان ہے۔ یوں تو غالبؔ کی زبان بنیادی طور پر وہی ہے جو آج کے ہر اردو اور ہندی شاعر کی زبان ہے۔ یہ آج سے سو برس پہلے سے وہی ہے لیکن اس زبان کی سب سے جیتی جاگتی مثال غالبؔ اور صرف غالبؔ کی زبان رہی ہے۔ غالبؔ  نے ہماری بولی اور ہماری زبان کو زندہ سے زندہ شکل میں برتا ہے۔ غالبؔ کا اردو دیوان ڈیڑھ جزو کا  دیوان ہے لیکن اس ڈیڑھ جزو کے کے مجموعۂ کلام کے جتنے اشعار آج لاکھوں آدمیوں کی زبان پر ہیں ، اتنے اشعار کسی اور ایسے شاعر کے خواص و عام کی زبان پر نہیں ہیں، جن کے دیوان، دیوانِ غالبؔ سے کئی گنا زیادہ ضخیم ہیں۔ کسی اور شاعر کا کلام اور انداز بیان اس مرکزیت کی مثالیں نہیں پیش کرسکا جو ہمیں غالبؔ کی زبان میں ملتی ہے۔ غالبؔ نے ہماری بول چال کی سب سے زیادہ حسّاس رگ کو چھو لیا تھا۔ مثال کے طور پر غالبؔ کے چند مصرعوں یا اشعار کو اپنے سامنے رکھئے اور پھر سوچئے یا یاد کیجئے کہ غالبؔ کے علاوہ کسی اور شاعر کے اشعار حقیقی معنوں میں ہماری بولی کی مثالیں پیش کرسکے ہیں:
l کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے
lہاتھ آئیں تو انہیں ہاتھ لگائے نہ بنے
lکہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے
 کچھ اور مثالیں ملاحظہ ہوں:
وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
lروئیں گے ہم ہزار بار، کوئی ہمیں ستائے کیوں
lیہ فتنہ آدمی کی خانہ بربادی کو کیا کم ہے
lہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
بے نیازی حد سے گزری، بندہ پرور کب تلک؟
ہمیں کہیں گے حالِ دل اور آپ فرمائیں گےکیا
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
lکون  جیتا ہے تری  زلف کے سر ہونے تک
lبہت نکلے مرے ارمان، لیکن پھر بھی کم نکلے
lہم اُس کے ہیں ہمارا پوچھنا کیا
 غالبؔ کے مختصر دیوان سے میں نے صرف چند ایسی مثالیں پیش کی ہیں جن کا نعم البدل ہمیں کسی اور شاعر کے ان دواوین میں بھی نہیں ملتا جو دیوانِ غالبؔسے کئی گنا ضخیم ہیں۔ غالبؔکی ہوشمندی ہماری زبان کے دوسرے شاعروں کے لئے ایک سبق ہے۔ صرف ایک اور شعر پر غور کیجئے۔ یہ ڈرامائی کیفیت ہم کو داغؔ ایسے چونچلے باز شاعر کے پورے کلام میں کہاں ملے گی؟ کہیں نہیں۔
جور سے باز آئے، پر باز آئیں کیا
کہتے ہیں ’’ہم تجھ کو منہ دکھلائیں کیا؟‘‘
 لوگ غالبؔ  کی مضمون آفرینی کی تعریف کرتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ غالبؔ مضمون آفرین اتنا نہیں ہے جتنا متلاشی ٔ مضامین ہے۔ وہ ایسے مضامین کو ڈھونڈ نکالتا ہے جس کا تعلق آئے دن کی واردات و حادثات سے ہے ، اور ان مضامین کو وہ ایک ایسی باتعلقی اور بے تعلقی سے پیش کرتا ہے جس کی مثال غنائی شاعری میں ہمیں بہت کم ملتی ہے۔ غالبؔ و میرؔ کی باہمی فوقیت پر اچھی خاصی بحث رہی ہے لیکن اس حقیقت پر پرستارانِ غالبؔ یا پرستارانِ میرؔ  نے بہت کم روشنی ڈالی ہے کہ میرؔ اپنی تمام  ناقابل انکار عظمتوں کے باوجود خود اپنی شخصیت اور بہت بلند شخصیت کے قیدی ہیں، غالبؔ اپنی انتہائی انفرادیت کے باوجود ایک ایسی آزاد شخصیت کا ثبوت دیتا ہے، جو آپ اپنے سے بے نیاز ہے ۔ سماج خود پرست بلند ترین ہستیوں سے اپنے آپ کو اتنا قریب نہیں کرپاتا جتنا خودی سے آزاد اور بے تعلق شخصیتوں سے ، لیکن مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی دریغ نہیں ہے کہ میرؔ نے اپنے آپ کو اپنی شخصیت، اپنی انفرادیت اور اپنی خصوصیت یا اپنی میریت کا شکار رہ کر ایسے اشعار کہہ دیئے ہیں جن پر غالبؔ اور کلامِ غالبؔ کو رشک آسکتا ہے، لیکن وہ شاعرانہ بے خودغرضی جس کی مثالیں ہمیں کلامِ غالبؔ  میں ملتی ہیں، ایک ایسی اپیل رکھتی ہے جو میرؔ  کے شخصی ارتقاء میں ہمیں نہیں ملتی۔ لوگ غالبؔ کی خودپرستی کا ذکر تو کرتے ہیں، لیکن غالبؔ  کی خودپرستی نہیں بلکہ ناخودپرستی اور ہمہ شیوگی کی طرف توجہ  نہیں کرتے۔ میرؔ بہت بڑے میرؔ تھے لیکن غالبؔ  بہت بڑا ’’ہم  آپ‘‘ ہے۔ میرؔ کا ’’میں‘‘ او رغالب کا ’’ہم‘‘ تنقید کا ایک نہایت دلچسپ موضوع ہے۔ غالبؔ کی باہمہ گی اور بے ہمہ گی، باتعلقی اور بے تعلقی، شرکت اور بے شرکتی اس کی ہمہ گیر اپیل کا راز ہے:
بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
  لیکن پھر بھی میں غالبؔ پرست ہوتے ہوئے بھی میرؔ کی طرف جھک جاتا ہوں؟ یہ اس لئے کہ میرؔ اپنی شخصیت پرستی اور خودپرستی کے باوجود اپنی خودپرستی سے اور اپنی انفرادیت سے بہت بلند ہے ۔ اور یہی وجہ تھی کہ غالبؔ نے اپنے خلوص دل سے یہ کہا:
ریختہ کے تم ہی استاد نہیں ہو غالبؔ
سنتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا
 غالبؔ  کی غزلوں میں روایتی اور قدیم موضوعات کا ایک نیا جیتاجاگتا شعور ملتا ہے۔ اسے ہم نئے ہندوستان کا شعور کہہ سکتے ہیں۔ غالبؔ  کے بعد اردو ادب کی بہترین مثالیں اُن چراغوں کی حیثیت رکھتی ہیں جنہیں اس چراغ سے روشن کیا گیا ہو جس کا نام کلامِ غالبؔ  ہے۔ غالبؔ  نے تاریخی ہندوستان کے مٹتے ہوئے دَور کی تصویر اس قطعہ میں کھینچی ہے جس کا ایک مشہور شعر یوں ہے:
داغِ فراقِ صحبت ِ شب کی جلی ہوئی
اک شمع رہ گئی ہے، سو وہ بھی خموش ہے
 ہندوستان کی جس نئی صبح کی پویں پھوٹتے ہوئے غالبؔ  نے دیکھی تھیں، اس جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا:
شمع کشش و بخورشیدِ نشان دادند
یہ خورشید نئے ہندوستان کا خورشید تھا جس کو طلوع ہوتے ہوئے غالبؔ نے دیکھ لیا تھا۔ غالبؔ  نے جس نئے ہندوستان کا خیرمقدم کیا وہ فرقہ پرستوں کا ہندوستان نہیں تھا اور اسی متحدہ ہندوستان کے نمائندہ تھے حکیم اجمل خاں، شبلی، مولانا مدنی، مہاتماگاندھی، مولانا آزاد، پنڈت جواہرلال نہرو  اور ان کے کروڑوں ہمنوا۔
 یوں تو ہندوستان کی تقریباً ساٹھ کروڑ آبادی میں براہِ راست طور پر غالبؔ کے افکار سے بہت تھوڑے لوگ واقفیت و آگاہی رکھتے ہیں لیکن حقیقت اپنے آپ کو نادانستہ طور پر پورے سماج سے منوالیتی ہے۔ غالبؔ  کی مستقبل شناسی اور تاریخِ ہند کی نباضی کا غیرشعوری احساس عینی طور پر تمام پڑھے لکھے یا ہوشمند اہلِ ہند کو ہوچکا تھا۔ غالبؔ  کی حیثیت ایک ایسی پیش گوئی کی حیثیت ہے جسے زمانہ سچا ثابت کرنے والا تھا۔ غالبؔ  نے کلکتہ جا کر نئی تہذیب کی نشاندہی دیکھ لی تھی۔ سائنسی اور مشینی دور جس ہندوستان کی تعمیر و تخلیق کرنے والا تھا اسے غالبؔ  نے بھانپ لیا تھا۔ انہوں نے اپنے کئی فارسی اشعار میں مشینی دور کے معجزوں اور حیرت انگیز کارناموں کی طرف اشارے کئے ہیں۔
 غالبؔ  کی غزلوں میں اسلوبِ بیان کی جو ناگزیریت ہے ، جو لازمی تقاضے ہیں ، جو مرکزیت ہے اور حرفِ آخر کا جو حکم یہ غزلیں رکھتی ہیں، ان سب کی زندہ مثالیں ملتی ہیں، غالبؔ  کی ہر بات اُس تیر کی طرح ہے جو ٹھیک ٹھیک نشانے پر بیٹھ جائے۔ غالبؔ  کی بندشوں کی چستی اسی سبب سے پیدا ہوئی۔ اردو کے کسی اور شاعر کے ہاں اظہار و بیان کی رگیں اتنی حساس نہیں ہیں جتنی غالبؔ  کے اشعارمیں نظر آتی ہیں۔ کئی لحاظ سے غالبؔ  کا زمانہ دکھ درد، مایوسی اور انتشار کا زمانہ تھا۔ غالبؔ  یوں تو بے بسی اور بے اختیاری کا شکار تھے لیکن انہوں نے اپنی حیثیت کو ایک بے نیاز ناظر کی حیثیت دے رکھی تھی۔ غالبؔ  کی اس بے ہمہ گی اور باہمہ گی ، باتعلقی اور بے تعلقی نے اس کا موقع دیا کہ وہ انتشار کے گردوغبار کے پیچھے ایک شہسوار کو دیکھ لیں، اور وہ شہسوار تھا نیا ہندوستان ۔ صرف دو شعر اس سلسلے میں پیش کروں گا:
مثال  یہ مری کوشش کی ہے کہ مرغِ اسیر
کرے قفس میں فراہم خس آشیاں کے لئے
وہ زندہ ہم ہیں کہ ہیں روشناسِ خلق اے خضر
نہ تم کہ چور بنے عمر ِ جاوداں کے لئے
 اور یہ شعر بھی کیوں نہ پیش کروں؟
سفینہ جب کہ کنارے پہ آلگا غالبؔ 
خدا سے کیا ستم و جورِ ناخدا کہئے
 کتنے نامساعد تھے غالبؔ  کے ذاتی حالات پھر بھی امید کے چراغ کو غالبؔ  نے گل نہیں ہونے دیا۔ 
 غالبؔ دنیا بھرکے اور ہر زبان کے مراسلہ نگاروں سے بہت بڑا مراسلہ نگار ہے۔ خطوطِ غالب خط و کتابت کے ادب کی دنیا میں بہترین مثال ہے، اردو نثر کتنی بے تکلف ہوسکتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ کتنی جادو بھری چیز ہوسکتی ہے، اس کی مثال غالبؔ  کے خطوط میں ہمیں ملتی ہے۔ غالبؔ  کو بھلا کر ہم پوری ایک صدی کے اردو ادب کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK