گزشتہ جمعہ کو، اپنی میعاد کے آخری دن، سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچڈ نے وکلاء تنظیموں کی طرف سے منعقدہ الوداعی تقریب میں درست ہی کہا کہ شاید وہ ملک میں سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ ’ٹرول کیے جانے والے‘ سی جے آئی ہوں گے۔
EPAPER
Updated: November 18, 2024, 4:41 PM IST | NK Singh | Mumbai
گزشتہ جمعہ کو، اپنی میعاد کے آخری دن، سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچڈ نے وکلاء تنظیموں کی طرف سے منعقدہ الوداعی تقریب میں درست ہی کہا کہ شاید وہ ملک میں سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ ’ٹرول کیے جانے والے‘ سی جے آئی ہوں گے۔
گزشتہ جمعہ کو، اپنی میعاد کے آخری دن، سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچڈ نے وکلاء تنظیموں کی طرف سے منعقدہ الوداعی تقریب میں درست ہی کہا کہ شاید وہ ملک میں سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ ’ٹرول کیے جانے والے‘ سی جے آئی ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ اس صورت حال کی وجہ کیا ہے؟ اگر آپ میڈیا کے قریب رہنا چاہیں گے، اگر آپ اپنے عہدے سے جڑے کچھ روایتی اور پابندی والے طریقوں کو توڑیں گے اور اپنے آپ کو ایک ’عوامی جج‘ کہلانے کی کوشش کریں گے (جیسا کہ انہوں نے اسی تقریب میں اپنے تعلق سے بیان کیا)، تو آزاد میڈیا آپ کے فیصلوں، آپ کی شخصیت اور آپ کے طرز عمل کا بے لاگ تجزیہ یقینی طور پرکرے گا۔
اگر اپنی سبکدوشی سے دو ہفتے پہلے، ایک عوامی اجلاس میں آپ بتائیں گے کہ آزاد ہندوستان کے سب سے متنازع اور اہم ایودھیا میں واقع بابری مسجد، رام مندرکیس کا فیصلہ سنانے سے پہلے آپ نے کس طرح ’بھگوان‘ سے مددلی تھی، تو آپ کی عدالتی دانشمندی کے معیار پریقیناً سوالات اٹھائے جائیں گے۔ اسی طرح، اگر آپ عوامی طور پر کہتے ہیں کہ آپ کو اس بات کی فکر ہے کہ تاریخ آپ کو کس نظر سے دیکھے گی، تو کوئی بھی عقلی تجزیہ نگار اس بات کو کیسے نظر انداز کر سکتا ہے کہ آپ کے فیصلوں میں ’توازن کا عمل‘ موجود ہے۔ کیا۷۵؍ برسوں میں کسی اور سابق چیف جسٹس آف انڈیا نے یہ سب کہا تھا؟
کیا یہ ساری باتیں اس عہدے کے وقارکیلئے موزوں تھے؟ کیا کوئی جج یہ سوچ کر فیصلے کرتا ہے کہ تاریخ اسے کس نظر سے دیکھے گی؟ کیا تاریخ کا خوف اسے فیصلے سنانے کے دوران ایک ’متوازن عمل‘ کرنے پر مجبور کرتا ہے؟ ایک جج کو دنیا کی مثبت یا منفی تنقید سے اوپر اٹھ کر اپنے عدالتی طرز عمل کے دائرے میں رہتے ہوئے فیصلے دینے ہوتے ہیں، پھر یہ تشویش کیوں ؟
اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ فیصلہ سنانے سے پہلے ذہنی الجھن کی کیفیت پیدا ہو جائے لیکن اس کیلئے واحد رہنما آئین ہے۔ اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران، جج کا بھگوان آئین ہے نہ کہ کوئی مذہب پر مبنی پوشیدہ اپنا بھگوان۔ اور اگر وہ ہو بھی تو، اسے عوامی طور پر کہنے کا مطلب یہ ہوگا کہ ججوں کے فیصلے منطق، سائنسی سوچ یا آئینی پیمانےکے اندر نہیں ہوتے بلکہ ذاتی اعتقاد پر مبنی ہوتے ہیں۔ کیا ہندوستان کے آئین نے ججوں کو یہ سہولت اور اختیار دیا ہے؟ سی جے آئی کے اس بیان کا مطلب یہ بھی ہے کہ اگر کوئی جج ناستک ہے تو وہ پیچیدہ مقدمات کا فیصلہ نہیں کر سکتا۔ بھگوان کو ماننا یا نہ ماننا خالصتاً ذاتی انتخاب ہے۔ اس کا کھلے عام اظہار کرنا اور یہ بتانا کہ ملک کی عصری تاریخ کے سب سے اہم مقدمے کا فیصلہ کسی نادیدہ طاقت کے زیر اثر لیا گیا، پوری عدلیہ کی فکری صلاحیت اور فیصلوں کے معیار پر سوال اٹھاتا ہے۔ ریٹائرمنٹ سے ٹھیک پہلے سی جے آئی نے خود اپنے لئے ایک متنازع صورتحال پیدا کر لی ہے۔
جسٹس چندر چڈ کا تنقیدی تجزیہ اس بات پر بھی ہوگا کہ ایودھیا فیصلے کے آغاز میں پانچ ججوں کی بنچ نے متفقہ طور پر لیکن دستخط کئے بغیر یہ کہا تھا کہ جائیداد کے تنازع پر فیصلے کی بنیاد مذہبی عقیدہ نہیں ہے۔ یہ ممکن ہے کہ تاریخی غلطیوں کو موجودہ یا مستقبل کو اذیت دینے کیلئے ہتھیار کے طور پر استعمال نہ کیا جا سکے، لیکن فیصلہ ہندوؤں کے حق میں دیا گیا۔ پھر کیا یہ معاملہ بھی عدالت میں زیر غور تھا کہ مندر کیسے بنے گا؟ کون بنائے گا؟ اور مسجد کہاں بنے گی؟ آخر اس فیصلے میں یہ بتانے کی کیا ضرورت تھی کہ مرکزی حکومت (ریاستی حکومت یا کوئی غیر سرکاری مذہبی تنظیم نہیں ) ایک کمیٹی بنا کر مندر بنائے گی۔ جب دو ججوں کے انکار کے بعد دوبارہ بنچ تشکیل دیا گیا تو چار ہندو اور ایک مسلمان جج کیوں رکھے گئے؟ کیا جسٹس نریمن (پارسی) اور جسٹس جوزف (عیسائی) دستیاب نہیں تھے؟
چلتے پھرتے گنیش پوجا کے دوران تمام کیمروں کے درمیان وزیر اعظم نریندر مودی کا ان کے گھر جانا اور ان کے اور ان کے خاندان کے ساتھ گنیش وندنا (جے دیو جے دیو) کرنا عدالتی طرز عمل کے مطابق نہیں تھا۔
وزیر اعظم کے دورے کی سیکوریٹی کلیئرنس دو گھنٹے پہلے کر دی جاتی ہے، اسلئے سی جے آئی انہیں منع کرسکتے تھے، کچھ گھنٹوں کی مہلت لے سکتے تھےاور اس دوران اپنی ’جج برادری‘کو بھی مدعو کر سکتے تھے یا متبادل طور پر قائد حزب اختلاف کو بلا سکتے تھے۔ پھر اس طرح سے وہ ایک ’سماجی تقریب‘ میں تبدیل ہوجاتا اور وہ تنازع کا موضوع بننے سے بچ جاتے، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔
اس تعلق سے ایک انگریزی اخبار کو دیئے گئے انٹرویو میں جسٹس چندر چڈ نے متضاد بیانات دیئے۔ انہوں نے کہا کہ جج صاحبان مختلف رسمی مواقع پر وزیر اعظم سے ملاقات کرتے رہتے ہیں۔ ان کا یہ دعویٰ فریب دہی کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ ایسے رسمی مواقع پر پورا سرکاری عملہ ساتھ ہوتا ہے۔ شادی بیاہ جیسی تقاریب میں جانا یا ’مرنا جینا‘ جیسی تقاریب میں پہنچنا اسی زمرے میں آتا ہے۔ لیکن اس ملاقات کو کیا نام دیں گے جس میں کوئی تیسرا شخص نہیں جانتا کہ گھر میں ہونے والی اس ’میٹنگ‘کے دوران کیا ہوا؟ سی جے آئی نے رسمی اورسماجی مواقع کی مثال دی جبکہ اسی انٹرویو میں انہوں نے اس ملاقات کو’نجی‘ بھی قرار دیا۔
پارلیمانی قانون کی طرف سے لگائی گئی پابندی کے باوجود گیان واپی کے معاملے کو زندہ کرنے میں ان کا کردار یقیناً تنقید کا موضوع رہے گا۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ جب مسلم فریق نے کہا کہ قانون کسی بھی مذہبی مقام کی آثار قدیمہ کی تحقیقات سے منع کرتا ہے تو انہیں کہا گیا کہ ’’یہ دوسرے فریق کے عقیدے کا معاملہ ہے۔ ‘‘
الوداعی تقریب میں یہ کہہ کر کہ ’’سورج کی روشنی سب سے بڑی جراثیم کش دوا ہے‘‘ جسٹس چندرچڈ نے بھلے ہی اپنی میڈیا سے محبت کا جواز پیش کیا ہو لیکن اس طرح انہوں نے ناقدین اور مستقبل کی تاریخ کو طویل مدتی خوراک بھی فراہم کر دی۔