• Sun, 05 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

عبدالحئی سے ساحرلدھیانوی تک

Updated: March 07, 2023, 12:49 PM IST | Ibrahim Jalis | Mumbai

دو روز بعد ساحرلدھیانوی کا یومِ ولادت ہے۔ اسی مناسبت سے یہ مضمون بطور خاص شائع کیا جارہا ہے

photo;INN
تصویر :آئی این این


 انگریزی ادب میں اولیور گولڈ اسمتھ کے ’وکارآف ویک فیلڈ‘ کو جتنی شہرت ملی ہے اس سے کہیں زیادہ شہرت اردو ادب میں ’ویک فیلڈ گنج‘ لدھیانہ کے نوجوان شاعر کو حاصل ہے۔ 
 اب سے کوئی بیس بائیس برس پہلے کی ایک رات ہے (یہ ۱۹۶۱ء میں لکھا گیا تھا ) ۔ لدھیانہ ریلوے اسٹیشن سے قریب ایک ویرانے میں چند نوجوان بیٹھے ہیں۔ ایک دبلا پتلا سا لمبا نو جوان ، جس کی آنکھیں خوبصورت اور خوابناک ہیں، اپنے کالج کی ایک محبوب ساتھی طالبہ کی یاد میں بڑی رومانی آواز میں اپنے تازہ اشعار سنا رہا ہے:
 چند کلیاں نشاط کی چن کر/مدتوں محو یاس رہتا ہوں
تیرا ملنا خوشی کی بات سہی/تجھ سے مل کر اداس رہتا ہوں
دوست پھڑک اٹھتے ہیں اور بیک زبان کہتے ہیں ’’واہ واہ واہ وا۔ تم شاعر نہیں ساحر ہو۔“
 شاید ساحرلدھیانوی، عبدالحئی سے ساحر  اسی  طرح بنا ہو یا پھر عبدالحئی کے قالب میں ’شاعر اور ساحر‘ دونوں توام بچوں کی طرح ایک ہی ساتھ پیدا ہوئے ہیں۔دوستوں کا مشورہ ہے کہ ’’اب پبلک مشاعروں میں اپنا کلام سنایا کرو، ہمارا دعویٰ ہے کہ تمہارے سامنے بڑے سے بڑا شاعر بھی نہیں ٹھہر سکے گا۔‘‘
 گورنمنٹ کالج لدھیانہ میں بہت بڑے پیمانے پر کل ہند مشاعرہ ہے۔ ہندوستان کے طول و عرض سے بڑے بڑے جغادری شعراء ڈائس پر بیٹھے ہیں اور مائیکروفون کے سامنے کالج کا طالب علم عبدالحئی ساحر اپنی تازہ نظم سنا رہا ہے:
میں زندگی کے حقائق سے بھاگ آیا تھا
کہ مجھ کو خود میں چھپالے تری فسوں زائی
ہر ایک ہاتھ میں لے کر ہزار آئینے
حیات بند دریچوں سے بھی گزر آئی
کہاں تلک کوئی زندہ حقیقتوں سے بچے
کہاں تلک کرے چھپ چھپ کے نغمہ پیرائی
وہ دیکھ سامنے اک پرشکوہ ایواں سے
کسی کرائے کی لڑکی کی چیخ ٹکرائی
تو محفل مشاعرہ میں موجود ہندوستان کے سارے جغادری شاعر دم بخود ساحر لدھیانوی کو دیکھنے لگے ہیں اور سامعین میں واہ واہ کا وہ شور برپا ہے جیسے زلزلہ آگیا ہو۔ اور جب وہ اپنی نظم ’تاج محل‘ پڑھتا ہے تو یوں لگتا ہے جیسے دنیا کے سات عجائبات میں سب سے زیادہ خوبصورت عجوبہ ’تاج محل‘ اور آگرہ ڈھے گیا ہو۔یا پھر لدھیانے کے اس باغی نوجوان نے شہنشاہ ہندوستان شاہجہاں کی محبت کی سب سے قیمتی یادگار روضہ تاج محل کوتہ و بالا کردیا ہو۔
 اسی رات سے ہندوستان کی فضاؤں میں ایک اور تاج محل بلند ہوا:شاہ جہاں کا تاج محل اور  ساحر لدھیانوی کا تاج محل۔
 شاہجہاں کا تاج محل دریائے جمنا کے آئینے ہی میں اپنا منہ دیکھتا رہ گیا اور ساحرلدھیانوی کے تاج محل کی پرچھائیاں دیک فیلڈ گنج لدھیانہ سے درۂ خیبر ، جھیل ڈل کے بحیروں، سلہٹ کے چائے کے باغات، مالابار کی پہاڑیوں اور راس کماری تک  پھیل گئیں۔ گورنمنٹ کالج لاہور کا کل ہند مشاعرہ، حیدرآباد دکن کی کل ہند ترقی پسند مصنفین کانفرنس، ممبئی کے باغی جہازیوں کا جلسہ، بنگال کے قحط زدہ مردوں ، عورتوں اور بچوں کا اجتماع،سارا ہندوستان چیخ رہا تھا: ساحر لدھیانوی۔ ساحر لدھیانوی۔ اور یہ آواز مالابار سے ہمالیہ تک سارے پہاڑوں سے ٹکرا کر ہندوستان میں گونجنے لگی۔
  ساحر لدھیانوی نے عوام کی آواز پر رخت سفر باندھا اور اپنے نام اور اپنی شہرت کے پیچھے پیچھے ممبئی پہنچ گیا۔ ممبئی میں کرشن چندر، عصمت چغتائی، ملک راج آنند، خواجہ احمد عباس، سجاد ظہیر اور سبط حسن نے ’علم‘ کے لئے اور فلم ساز کلونت رائے نے ’فلم‘ کے لئے ساحرلدھیانوی کو روک لیا۔
 ساحر سے میری ’نصف ملاقات‘ اس وقت ہوئی تھی جب وہ لدھیانہ سے لاہور چلا گیا تھا اور اس عہد کے مشہور ادبی جریدے ’ادب لطیف‘ کو مرتب کرتا تھا۔ پھر اس سے میری ’کل ملاقات‘ انجمن ترقی پسند کی کل ہند کانفرنس ۱۹۴۵ء حیدرآباد دکن میں ہوئی تھی۔ کانفرنس کے بعد میری خواہش پر ساحر ایک مہینے کے لئے میرا مہمان بن گیا۔ اس ملاقات سے پہلے پتہ نہیں کیوں ہم دونوں نے ایک دوسرے کو بڑے دھوکے میں رکھا تھا لیکن اس ملاقات نے ہم دونوں کے درمیان سے جھوٹ کے سارے پردے ہٹا دیئے تھے اور میرے سامنے جو اصلی ساحر لدھیانوی تھا وہ لدھیانہ کے ایک مشہور جاگیردار کا اکلوتا لخت جگر تھا۔
  ساحر کے قریبی رشتہ دار یہ کہتے ہیں کہ ساحر کے والد نے ساحر کا نام عبدالحئی اس لئے رکھا تھا کہ اس کے پڑوس میں اس نام کے ایک بڑے آدمی رہتے تھے جو متحدہ پنجاب میں وزیرتعلیم بھی رہ چکے تھے۔ ان سے ساحر کے والد کی ناچاقی تھی اور ساحر کے زندہ دل والد نے اپنے گھر کے سامنے بیٹھ کر ’عبدالحئی‘ کو گالیاں دے کر اپنے بچاؤ کا بڑا دلچسپ طریق نکال لیا تھا۔ وہ بڑے فخر سے کہتے تھے: ’’اوے۔میں عبدالحئی دا پیوآں۔‘‘ یہ جملہ اظہار تضحیک بھی تھا اور اظہار حقیقت بھی۔
 عبدالحئی نام کے باوجود وہ ساحر لدھیانوی ہوگیا  تھا۔ ساحرلدھیانوی بچپن ہی سے اس عبدالحئی کا سخت دشمن تھا جو ایک جاگیردار باپ کا بیٹا تھا اور میرا خیال ہے کہ بہت بچپن ہی سے ساحر کے قالب میں کبھی ’جاگیردار عبدالحئی‘ اور ’عوامی ساحر‘ میں بڑی سخت لڑائی ہوئی تھی اور ساحر نے عبدالحئی کو ٹھکانے لگا دیا تھا۔
 ممبئی میں ابتداء میں ساحر کی زندگی لدھیانہ کی زندگی کے بالکل برعکس تھی۔ کہاں لدھیانے کی عافیت گاہ اور کہاں ممبئی کی فلم کمپنی کے دفتر کا ایک چھوٹا سا کمرہ جس میں ساحر کے بچپن کا دوست حمید اختر اور میں رہتے تھے۔ ساحر چونکہ اپنے والدین کا اکلوتا لڑکا ہے اس لئے وہ فطرتاً ایک لمحے کے لئے بھی اکیلا نہیں رہ سکتا۔ اس لئے اس نے حمید اختر کو لدھیانے سے اور مجھے حیدرآباد سے بلوالیا تھا۔ اس کا ایک نصب العین تھا۔ وہ فلموں میں اوٹ پٹانگ تک بند شاعری کے خلاف جہاد کرنا چاہتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ فلمی شاعری بھی ادبی شاعری کی طرح وقیع ہوجائے۔
 ان دنوں ڈی این مدھوک جیسے تک بند فلمی شاعروں نے ہر اچھے شاعر پر فلمی دنیا کے دروازے بندکررکھے تھے اور ساحر کے نصب العین کے راستے میں بڑی رکاوٹیں تھیں۔ ساحر کے ساتھ جب ہم ممبئی کی سڑکوں پر سے گزرتے تھے اور بوٹ پالش والے لونڈے لہک لہک کر سستے اور بے تکے فلمی گیت گاتے تھے:جب تم ہی چلے پردیس لگا کر ٹھیس اوپیتم پیارا/دنیا میں کون ہمارا… تو ساحر لدھیانوی کا خون کھول اٹھتا تھا۔
 وہ  دور ہم تینوں کی شدید مفلسی کا دور تھا مگر چونکہ سارے ہندوستان میں ساحر کا نام گونجنے لگا تھا اس لئے فلمساز ساحر کو اپنی فلموں کی دعوت دیتے تھے اور پیشگی ہزار دوہزار رپے دینے پر بھی آمادہ ہوجاتے تھے مگر ساحر کی پہلی شرط یہ ہوتی تھی کہ وہ سستے اور بے تکے فلمی گیت نہیں لکھے گا اور سرمایہ دار فلمسازوں کو ساحر کی یہ شرط منظور نہیں تھی ۔ چنانچہ پیشگی ہزار دو ہزار روپیہ میز پر رکھے کا رکھا رہ جاتا اور ساحر  خالی جیب ہی اٹھ کر واپس آجاتا تھا۔ اسے بھوکا رہنا اور پیدل چلنا منظور تھا لیکن ’’میرا بلبل سو رہا ہے شور و غل نہ مچا‘‘ قسم کے گیت لکھنا ہرگز منظور نہ تھا۔وہ زمانے کے ساتھ بدلنے کے لئے تیار نہ تھا بلکہ زمانے کو بدل دینا چاہتاتھا۔
(مضمون کا دوسرا حصہ آئندہ ہفتے)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK