• Thu, 14 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

’’آبادیاتی فائدہ‘‘ سے آبادیاتی نقصان تک

Updated: September 14, 2023, 9:45 AM IST | new Delhi

خبر تھی کہ نیشنل ریکروٹمنٹ ایجنسی (این آر اے) آئندہ سال سے مرکزی حکومت کے دفاتر میں بی اور سی گروپ کی اسامیوں کی بھرتی کیلئے کامن اِلی جبلیٹی ٹیسٹ (سی ای ٹی) کا اہتمام کرسکتی ہے۔

More than 1000 examination centers will be held in 117 districts across the country.
ملک بھر کے ۱۱۷؍ اضلاع میں ایک ہزار سے زائد امتحان گاہوںپر منعقد کیا جائیگا۔

خبر تھی کہ نیشنل ریکروٹمنٹ ایجنسی (این آر اے) آئندہ سال سے مرکزی حکومت کے دفاتر میں بی اور سی گروپ کی اسامیوں کی بھرتی کیلئے کامن اِلی جبلیٹی ٹیسٹ (سی ای ٹی) کا اہتمام کرسکتی ہے۔ اس کی ابتداء گریجویٹ لیول سی ای ٹی سے ہوگی جو ملک بھر کے ۱۱۷؍ اضلاع میں ایک ہزار سے زائد امتحان گاہوںپر منعقد کیا جائیگا۔اس خبر کا ٹویٹر پر آنا تھا کہ صارفین کے تاثرات، آراء، سوالات اور تنقیدی مراسلات کا ایسا سیلاب آیا کہ جن لوگوں نے ہر قسم کا ردعمل پڑھنے کی کوشش کی ہوگی وہ اپنی کوشش میں کامیاب نہیں ہوسکے ہوں گے۔ کسی نے لکھا کہ ’’اُف یہ اَن پڑھ، پڑھے لکھوں کو اُلجھا کر رکھ دیتے ہیں‘‘ تو کسی نے دریافت کیا کہ ’’ویکنسی نکالنے کا بھی کوئی ارادہ ہے؟‘‘، کسی نے یہ کہتے ہوئے طنز کیا کہ ’’کب تک سی ای ٹی، پی ای ٹی اور ٹی ای ٹی کھیلتے رہو گے؟‘‘ تو کسی نے بھرتی کیلئے ہونے والے امتحانات کے تئیں اپنی اُکتاہٹ کا یہ کہتے ہوئے اظہار کیا کہ ’’کیا یہ بے روزگاروں سے بغیر اسامیوں کے پیسہ وصولنے کا طریقہ نہیں ہے؟‘‘
 ایسے بے شمار تاثرات اور کمنٹ ہمیں دیکھنے کو ملے۔ ہماری نظر میں یہ تاثرات یا کمنٹ نہیں، تعلیم یافتہ اور باصلاحیت نوجوانوں میں بے روزگاری سے پیدا شدہ اضطراب کا آئینہ ہے۔ عوام کی حقیقی فکر کرنے والا کوئی نیتا، وزیر یا سیاستداں ان تاثرات کو پڑھ لے تو پانی پانی ہوجائے، مگر، حقیقی فکر ہے کہاں؟ وہ تو ڈھونڈے سے بھی دکھائی نہیں دیتی۔ اگر ہوتی تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی کہ آج ملک کا نوجوان امتحان دیتے دیتے، نتائج کا انتظار کرتے کرتے اور مکتوب ِ تقرری کی راہ تکتے تکتے اس حد تک اُکتا چکا ہے اور اس قدر انتشارِ ذہنی میں مبتلا ہے کہ اپنی حکومت پر سے اس کا بھروسہ اُٹھتا جارہا ہے۔ حکمراں جماعت نے ۲۰۱۴ء کے لوک سبھا انتخابات کے وقت ۲؍ کروڑ روزگار کا اعلان کیا تھا۔اس وعدہ کو سو فیصد نہیں پچاس فیصد بھی پورا کیا گیا ہوتا تو یہ صورت حال نہ پیدا ہوتی۔اتفاق سے حکمراں جماعت کو حکمراں بنانے والے رائے دہندگان میں اکثریت اُنہی نوجوانوں کی ہے جو لبھاؤنے وعدوں پر یقین کربیٹھے۔ کون نہیں جانتا کہ روزگار کے نئے مواقع تو پیدا نہیں ہوئے، جو پرانے مواقع تھے وہ بھی ہاتھ سے جاتے رہے۔ مارچ ۲۳ء کی ایک رپورٹ کے مطابق مرکزی حکومت کے ماتحت اداروں اور محکموں میں ۱۰؍ لاکھ سے زائد اسامیاں خالی ہیں۔ فرض کرلیا جائے کہ اتنی ہی پوسٹ خالی ہیں اور اس سے زیادہ نہیں ہیں تب بھی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انہیں پُر کیوں نہیں کیا جاتا؟ کب کیا جائیگا؟ کیا یہ حق تلفی نہیں ہے؟
 اب یہ بات بھی کسی سے مخفی نہیں رہ گئی ہے کہ سرکاری ملازمتیں تو کم یا ختم ہوئی ہی ہیں، غیر سرکاری یعنی پرائیویٹ جابس بھی کم بلکہ بہت کم ہوگئے ہیں۔اس کی وجہ سے جو ’’آبادیاتی منافع‘‘ (ڈیموگرافیکل ڈِویڈنڈ) ملک کو ملنا چاہئے تھا وہ کہاں مل رہا ہے؟ اس کے باوجود اگر حکومت کہتی ہے کہ ملک معاشی طور پر ترقی کررہا ہے تو ایسی ترقی ’’جاب لیس گروتھ‘‘ کہلاتی ہے۔ یہ اُس چراغ کی مانند ہے جو پوری قوت سے جل رہا ہو مگر روشنی دینے میں ناکام ہو۔ مختلف ملکوں نے اب سے چند برس پہلے تک ہم پر رشک کیا تھا محض اس لئے کہ ’’آبادیاتی منافع‘‘ کا موقع کسی اور ملک میں نہیں تھا۔ یہ صرف ہمیں میسر تھا اور ہم اس موقع کو گنواتے جارہے ہیں۔n

EXAM Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK