طلبہ کو موبائل سے دُوررکھنے کی مہم، پاتروڑ ضلع پریشد اسکول بیڑ کے معلم شیخ طیب کی ترغیب پر طلبہ نے گھروں میں لائبریریاں بنائیں۔
EPAPER
Updated: April 28, 2025, 12:56 PM IST | Saadat Khan | Mumbai
طلبہ کو موبائل سے دُوررکھنے کی مہم، پاتروڑ ضلع پریشد اسکول بیڑ کے معلم شیخ طیب کی ترغیب پر طلبہ نے گھروں میں لائبریریاں بنائیں۔
سوشل میڈیا اور برقی آلات کے بڑھتے استعمال نے جہاں دنیا کو ایک بٹن کی دوری پر لاکھڑا کیا ہے وہیں اس کی وجہ سے بچوں کا مطالعے کا شوق رفتہ رفتہ ماند پڑنے لگا ہے۔ سوشل میڈیا اور برقی آلات کے بے تحاشہ استعمال نے بچوں کے ذہنوں پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں، نتیجہ یہ نکلا ہے کہ علم و معلومات سے دلچسپی کم ہوتی جارہی ہے اور بے سر پیر کی تفریح سے رغبت بڑھتی جارہی ہے۔ انہی بدلتے حالات میں خطۂ مراٹھواڑہ کے ضلع بیڑمیں واقع تعلقہ پاتروڑ کے ماجل گاؤں کی ضلع پریشد اردو اسکول نے ایک شاندار پہل کی ہے۔ یہاں کے فعال معلم شیخ طیب نے ’’ہر گھر لائبریری، گھر گھر لائبریری‘‘ جیسی انوکھی تحریک کی بنیاد رکھ کر علم و ادب سے بچوں کا رشتہ دوبارہ جوڑنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔
چند سال قبل تک یہ گاؤں بھی انہی مسائل سے دوچار تھا جو آج ہر دوسرے مقام پر دیکھنے میں آتے ہیں۔ بچے پورا پورا دن موبائل میں مصروف، ویڈیو گیمز اور سوشل میڈیا کے جال میں پھنسے ہوئے تھے اور کتابیں دھیرے دھیرے ان کی زندگیوں سے باہر ہوتی جا رہی تھیں۔ گھروں میں تعلیمی ماحول کا فقدان تھا جبکہ مطالعے کی نہایت قیمتی روایت دھیرےدھیرے معدوم ہوتی جارہی تھی۔ یہی تشویشناک صورتحال دیکھ کر اسکول کے معلم شیخ طیب نے عزم کیا کہ کچھ ایسا کیا جائے جس سے نہ صرف بچوں کا کتابوں سے رشتہ بحال ہو بلکہ مطالعے اور کتابوں کو ان کی زندگی کا حصہ بنادیا جائے۔ اس پر کافی غور و خوض کے بعد انہوں نے ’’ہر گھر لائبریری، گھر گھر لائبریری‘‘ مہم کا خاکہ تیار کیا۔
اس مہم کا پہلا مرحلہ بچوں میں کتابوں کے تعلق سے شعور بیدار کرنے کا تھا۔ اس کے لئے شیخ طیب کی جانب سے طلبہ کو سمجھایا گیا کہ کتابیں محض امتحان پاس کرنے کا ذریعہ نہیں ہیں بلکہ سوچنے، سمجھنے اور بہتر انسان بننے کا راستہ فراہم کرتی ہیں۔ طلبہ کو ترغیب دی گئی کہ اپنے گھروں میں موجود نصابی، غیر نصابی اور مذہبی کتابوں کو ایک جگہ جمع کریں، ان کے لئے اپنے گھر میں ہی ایک مخصوص گوشہ ترتیب دیں، کتابوں کی فہرست بنائیں اور اسے خوبصورتی سے ’’میری لائبریری ‘‘کا نام دیں۔ کتابوں کی فہرست اور کس موضوع پر کتنی کتابوں کا ذخیرہ موجود ہے ان سبھی کی تفصیلات بھی طلبہ کو تیار کرنے کو کہا گیا۔ طلبہ کو یہ بھی ہدایت دی گئی کہ گھر میں موجود چھوٹی الماری، طاق یا کسی خالی گوشے کو استعمال کرتے ہوئے کتابیں سلیقے سے ترتیب دیں اور ساتھ ہی لائبریری کی تصاویر اسکول کے وہاٹس ایپ گروپ میں ارسال کریں تاکہ سب ایک دوسرے کی کاوشوں سے حوصلہ پائیں اور بہتر سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کریں۔ ابتدائی دو سال میں پانچویں تا ساتویں جماعت کے ۲۵۸ ؍طلبہ میں سے ۷۸؍طلبہ نے گھروں میں اپنی ذاتی لائبریریاں قائم کر لیں۔ یہ نہ صرف بچوں کے لئے خوشی کا باعث بنا بلکہ والدین بھی اس عمل میں بھرپور طریقے سے شریک ہوئے بلکہ انہوں نے بچوں کا ہر قدم پر تعاون کیا۔ گھروں میں کتابوں کا ماحول پیدا ہوا اور اب والدین بھی اپنے بچوں کے ساتھ مطالعہ میں دلچسپی لینے لگے ہیں۔
اس مہم کو جاری رکھنے، مزید بار آور بنائے رکھنے اور بچوں میں مطالعے کا ذوق برقرار رکھنے کیلئے اسکول نے اپنے یہاں ہر بدھ اور سنیچر کو ۲۰؍منٹ کی ’’ڈراپ ایوری تھنگ اینڈ ریڈ ایکٹی وٹی ‘‘ (Drop Everything And Read) سرگرمی متعارف کرائی۔ ان اوقات میں بچے محض کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں اور بعد میں اپنے پڑھے گئے موادپر مختصر تبصرہ یا خلاصہ پیش کرتے ہیں۔ ان سے کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی لائبریری کی جن کتابوں کامطالعہ کیاہے، اس کے تعارف یا کتاب کے اہم اسباق پر اپنے جملوں میں تبصرہ کریں، یاکسی کتاب کی کہانی یا مضمون کاخلاصہ بیان کریں یا کسی تصویر کو دیکھاہو تو اس پر اپنے خیالات کا اظہار کریں۔ یہ عمل نہ صرف ان کے مطالعے کی رفتار کو بڑھاتا ہے بلکہ ان کی زبان و بیان کی مہارت کو بھی جلا بخشتا ہے۔ بچوں کو یہ بھی ترغیب دی گئی کہ سالانہ اردو کتاب میلوں سے نئی کتابیں خریدیں، اور مختلف ماہانہ رسائل جیسے ’’بچوں کی دنیا‘‘، ’’امنگ‘‘ اور ’’اچھا ساتھی‘‘ کا مطالعہ کریں۔ اب تک تقریباً اسکول اور اطراف کے ایک ہزار سے زائد بچوں کو ’’بچوں کی دنیا‘‘ کے شمارے پہنچائے جا چکے ہیں۔
اس کامیاب اور انقلابی تحریک کو مزید دلچسپ بنانے کے لئے ’’بہترین گھریلو لائبریری‘‘ کا مقابلہ بھی منعقد کیا جاتا ہے۔ بچے اپنی لائبریریوں کی تصاویر وہاٹس ایپ گروپ پر شیئر کرتے ہیں اور کتابوں کی ترتیب اوران کے معیار پر طلبہ کو اوّل، دوم اور سوم انعامات دئیے جاتے ہیں۔ حال ہی میں ہونے والے مقابلے میں تین بچوں کی لائبریریوں کو انعامات سے نوازا گیا جس سے دیگر طلبہ میں بھی مزید جوش اور ولولہ پیدا ہوا ہے۔
چھٹی جماعت کے طالب علم شیخ نشید کے والد رفیق احمد نے بتایا کہ ’’تقریباً نو ماہ قبل جب میری بیٹی نے گھر میں لائبریری قائم کی تو اس وقت اس کے پاس صرف چند کتابیں تھیں۔ آج ہمارے گھر میں نصابی، غیر نصابی اور دینی کتب کا ایک معقول ذخیرہ موجود ہے۔ اس مہم کی بدولت نہ صرف بچوں میں مطالعے کا شوق پیدا ہوا ہے بلکہ ہم والدین بھی اس سہولت سے مستفید ہو رہے ہیں۔ ‘‘اسی طرح فرمان بیگ کے والد یاسین بیگ نے کہا کہ ’’ہمارے گھر کی لائبریری میں ڈھائی سو سے زیادہ کتابیں موجود ہیں۔ میرا بیٹا نہ صرف نصابی کتابیں پڑھتا ہے بلکہ جنرل نالج، سوانح اور تاریخی کہانیاں بھی بڑے ذوق و شوق سے پڑھتاہے۔ ‘‘
’’ہر گھر لائبریری، گھر گھر لائبریری‘‘ جیسی تحریک دراصل اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر نیت نیک ہو، محنت سچی ہو اور مقصد اعلیٰ ہو تو وسائل کی کمی کبھی رکاوٹ نہیں بنتی۔ شیخ طیب، ان کے رفقائے کار اور اسکول کےطلبہ نے یہ ثابت کر دیا کہ علم کا چراغ ایک چھوٹے سے گاؤں سے بھی روشن ہو سکتا ہے اور اس کی روشنی دور دور تک پھیل سکتی ہے۔ یہ تحریک نہ صرف پاتروڑ تعلقہ بلکہ پوری ریاست اور پورے ملک کے تعلیمی حلقوں کیلئے مشعل راہ ہے کہ کیسے ذرا سی توجہ اور اخلاص سے بچوں کے مستقبل کو سنوارا جا سکتا ہے اور انہیں مطالعہ جیسی قیمتی عادت کی جانب راغب کیا جاسکتا ہے۔