دھان کاٹنے کیلئےپہلے درانتی (درانتی میں چھوٹے چھوٹے دانت ہوتے ہیں)اور ہنسیا کا استعمال ہوتا تھا ۔ کاٹنے کے بعد لائن سے سارے پودے کھیت میں سوکھنے کیلئے پھیلادیئے جاتے تھے۔
EPAPER
Updated: November 11, 2024, 10:13 AM IST | Ahsanul Haque | Mumbai
دھان کاٹنے کیلئےپہلے درانتی (درانتی میں چھوٹے چھوٹے دانت ہوتے ہیں)اور ہنسیا کا استعمال ہوتا تھا ۔ کاٹنے کے بعد لائن سے سارے پودے کھیت میں سوکھنے کیلئے پھیلادیئے جاتے تھے۔
دھان کاٹنے کیلئےپہلے درانتی (درانتی میں چھوٹے چھوٹے دانت ہوتے ہیں)اور ہنسیا کا استعمال ہوتا تھا ۔ کاٹنے کے بعد لائن سے سارے پودے کھیت میں سوکھنے کیلئے پھیلادیئے جاتے تھے۔ سوکھنے کےبعد انہیں چھوٹے چھوٹے گٹھر میں باندھ کر بڑا گٹھر بنایا جاتا تھا اور پھر اسے کھلیان میں لایا جاتا تھا۔ اب تو مشینوں کا دور ہے ، درانتی اور ہنسیا کون استعمال کرتا ہے ، دھان کھلیان لے جانے کی جھنجھٹ بھی ختم ہوئی۔ چند گھنٹوں میں سارا کام کھیتوں ہی میں نمٹ جاتا ہے۔ پہلے جب سروں پر دھان کا بوجھ رکھ کر کھلیان لایا جاتا تھا تو بچے زمین پر گری بالیاں چنتے تھے ، کچھ شرارتی بچے بالیاں چوری بھی کر لیتے تھے ۔ اسے بیچ کر پیسے جمع کرتے تھے ، دیوالی کے موقع پر لگنے والے میلے میں پٹاخے خریدتے یا میلے سےاپنی پسند کاکچھ اور لے آتے تھے۔
یہ بھی پڑھئےؒ کھیت سے چڑیوں کو بھگانے کیلئے بچوں کی سخت ڈیوٹی لگائی جاتی ہے
کھلیان میں ساری فصل آنے کے بعد تخت رکھ کر اس پر دھان کو پیٹ پیٹ کر دانے الگ کئے جاتے تھے۔ دو لوگ ایک چادرپکڑ کر ہوا کرتے تھے جبکہ ایک دوسرا آدمی اس کے سامنے کھڑے ہوکر پلڑے میں دھان لے کر دھیرے دھیرے زمین پر گراتا تھا۔ چادر کی ہوا کی مدد سے دھان کے دانوں سے کچرا الگ ہو جاتا تھا۔اس طرح چادر سے ہوا کرنے کو ’پروتا‘ کہتے ہیں اور دھان صاف کرنے کے اس عمل کو ’اوسانا ‘ کہتے ہیں ۔ اسی طرح ’اوسا‘ کر دوسرے اناج کی بھی صفائی ہوتی ہے ۔ کسی زمانے میں گائوں کے پردھانی کے الیکشن میں ’اناج اوستا ہوا کسان‘ امیدواروں کا انتخابی نشان بھی ہوا کرتا تھا۔ چادر سے ہوا کرنے کے کام (پروتا )میں محنت زیادہ لگتی تھی اور ہواکم مل پاتی تھی ۔ اس کام میں دو لوگ لگتے تھے اور وہ بہت جلدی تھک بھی جاتے تھے ۔ رفتہ رفتہ زرعی مشینری میں ترقی ہوئی اور ایک بڑا سا پنکھا تیار ہوا۔ گائوں کےبڑے کاشتکار وں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا اور اس طرح ایک بڑا کام آسان ہو گیا ۔ اب دو لوگوں کی جگہ ایک آدمی پنکھے کے پیچھےکرسی لگا کر بیٹھتا اور اس میںلگے ہتھے کو چلاتا اور پھرپنکھے سےتیز ہوا نکلتی اور اس طرح ’اوسانے‘ کے کام میں آسانی پیدا ہو گئی ۔ گائوں میں کسی ایک کاشتکار کے پاس وہ پنکھا ہوتا تو پورے گائوں کا اس سے کام چلتا تھا ۔ دوسرے کسان ضرورت پڑنے پر پنکھا مانگنے آتے تھے۔ ان کے ہاتھ میں ایک بڑی سی لاٹھی ہوتی تھی، اس میں پنکھے کو پھنساتے تھے اور ایک دوسرے کے کندھےپر لاٹھی رکھ کر پنکھا ایسے لےجاتے تھے جیسے کوئی کہار دُلہن کو ڈولی میں بیٹھا کر لےجارہا ہو۔
پہلے گائوں کےلوگوں کے پاس کمائی کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں تھا ۔یہی اناج ان کی جمع پونجی ہواکرتا تھا۔ اسی کو بیچ کر ہولی دیوالی اور عید بقرعید ہوا کرتی تھی ۔ کبھی کبھی دھان کٹنے کے بعد کھیت سے گٹھر کے گٹھر غائب ہو جاتے تھے یا کھلیان سے اناج چوری ہو جایا کرتا تھا ۔ ایسا ہی چوری کا ایک قصہ دلچسپ ہے آپ بھی سنئے ...گائوں کے ادریس چچا ایک روز کٹے ہوئے دھان کی رکھوالی کرنے نہیں گئے ۔ گھر کے دوسرےکاموں سے اتنے تھکے تھے کہ بستر پر پڑتے ہی سو گئے۔ صبح اٹھے تو دیکھا کھیت سے کٹا ہوا دھان غائب ہے ۔وہیں کھیت کے میڑ پر سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ آس پاس کے کھیت والے اُنہیں تسلی دینے لگے ...قمرو بولے چلئے فال نکلواتے ہیں...اتنے میں دوڑے دوڑے جمن پہنچے، کہنے لگے ہمارے ساتھ چلئے انڈا کٹواتے ہیں جو ’چوری کری ہوئی یہیں لاکر رکھ جائی‘... اتنے میں گبر پہنچے کہنے لگے کچھ نہیں پولیس میں رپٹ لکھوائے دواور موقع پر پولیس بُلوا لو ۔ دوسرے لوگوں سے کہنے لگے بھیا آپ لوگ بھی کھیت میں رکھے کٹے ہوئے دھان کی رکھوالی کرو...میلہ ٹھیلہ کا ٹائم ہے گائوں کے لڑکے موقع ملنے پر چھوڑیں گے نہیں ہاتھ صاف کر لیںگے ۔ پھر رپٹ لکھواتے رہیو کچھ ہوئی نا ۔
دھان کی ساری فصل گھر میں رکھنے سے پہلے گھر کی سبھی لڑکیوں کو ایک ایک بورا دھان دیا جاتا تھا، ابھی بھی بہت سے گائوں میں یہ پرانا دستور قائم ہے ۔ اس کو کھلیہانی کہتے تھے۔ یہ لڑکیوں کیلئے سالانہ انکم کا ذریعہ تھا۔ اسے فروخت کرکے لڑکیاں کپڑے یا کئی سال سے پیسے جمع کرکے زیور بنواتی تھیں۔ اسی طرح بڑھئی ، نائی دھوبی، پنواری و دیگر جسے گائوں میں’پرجا‘کہتے ہیں، ان میں حصہ تقسیم کیا جاتا تھا۔دھان کا ایک حصہ آس پاس کے مدارس کیلئےرکھا جاتا تھا یہ سلسلہ اب بھی قائم ہے ۔ اس کے علاوہ ایک بوراسائلوں کیلئے رکھ دیا جاتا ہے۔سال بھر اُسی بورے سے سائلوں کو بھیک دی جاتی ہے ۔
دھان کٹنے اور اسے صاف کرکے بورے میں بھرنے کے بعد ایک مرحلہ آتا ہے اس کی ’درائی‘ یعنی چاول بنانے کا۔ اس کیلئے رائس مِل لے جایا جاتا ہے۔ وہاں بڑی لمبی قطاریں ہوتی ہیں ، کئی کئی دن بعد نمبر آتا ہے۔ وہاں دھان رکھنے سے چوری کا بھی خطرہ رہتا ہے۔ اس کی رات رات بھر رکھوالی کرنی پڑتی ہے۔ کچھ لوگ گائوں میں ہی دھن کُٹّی پر دھان کُٹوا لیتے ہیں ، لیکن اس میں دھان ٹوٹتا بہت ہے ۔ ٹریکٹر والے دھن کٹی لئے گائوں گائوں پھرا کرتے ہیں ۔ لوگ رائس مِل کے چکر سے پریشان ہوتے ہیں، چنانچہ اُن ٹریکٹر والوں سے دھان کٹوا لیتے ہیں ، رائس مِل کے مقابلے میں اس میں صفائی بھلےہی کم ہوتی ہے لیکن وہ لمبی لمبی قطا ر سے بچ جاتے ہیں۔