گاؤں کے باہر باغ کے ایک کونے میں بنے اُس ’بھار‘(بھاڑ) کی بات کرتے ہیں جہاں کبھی شام کے وقت گائوں کے بچے چنا، مٹر، مکئی اور مختلف اناج بُھنوانے کیلئے جمع ہوتے تھے۔
EPAPER
Updated: December 01, 2024, 3:38 PM IST | Ahsanul Haque | Mumbai
گاؤں کے باہر باغ کے ایک کونے میں بنے اُس ’بھار‘(بھاڑ) کی بات کرتے ہیں جہاں کبھی شام کے وقت گائوں کے بچے چنا، مٹر، مکئی اور مختلف اناج بُھنوانے کیلئے جمع ہوتے تھے۔
گاؤں کے باہر باغ کے ایک کونے میں بنے اُس ’بھار‘(بھاڑ) کی بات کرتے ہیں جہاں کبھی شام کے وقت گائوں کے بچے چنا، مٹر، مکئی اور مختلف اناج بُھنوانے کیلئے جمع ہوتے تھے۔ آج بھی بہت سے گائوں میں مہرِن یا بُھجئن کہی جانے والی وہ ’کاکی‘ شام کو ’بھار‘ جلاتی ہیں اور گائوں کے لوگ دانہ بھنواتے ہیں ۔ چنا، مٹر یا مکئی بُھنوا نے کے بعد بچے گھر پہنچتے ہیں اور لہسن مرچ کی چٹنی کے ساتھ مزے لے کر کھاتے ہیں ۔ پہلے یہ ’بھار‘ ہرگاؤں میں نظر آتے تھے لیکن اب ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتےکیونکہ بُھجئن کاکی کے دنیا سے رخصت ہونےکے ساتھ ہی ان کا ’بھار‘ بھی چل بسا جہاں دیر شام تک دانے بھونے جاتے تھے۔
’دیوتا دین‘ کاکا جب تک زندہ تھے ہمارے گائوں میں پابندی سے ’بھار‘ جلاتے اور دانے بھونتے تھے۔ گائوں کے بچے اسکول سے آنےکے بعدجھولےمیں اناج بھرکر سیدھے اُن کے پاس پہنچتے اور ان کے سر پر سوار ہو جاتے۔ جلدی بھونئے، ہمیں گھر جاکر اسکول کا کام کرنا ہے۔ دیوتا دین کاکا بولتے بچہ، ہمیں خوب معلوم ہے کتنا اسکول کا کام کرنا ہے، یہیں رکھ دو اور جائو کھیلو، واپسی پر لئے جانا ہم بھون کر رکھ دیں گے۔
گائوں کی بہت سی عورتوں اور لڑکیوں کو انتظار رہتا کہ کب شام ہو اور ’بھار‘ جلے اور ایک دوسرے کے ساتھ گپ شپ کا موقع ملے۔ لڑکیاں مہرِن کاکی کے کام میں ہاتھ بھی بٹاتی تھیں ۔ لکڑیاں کم پڑنے پر آس پاس کے سوکھے درختوں سے توڑ کر لاتیں اور باغوں میں پڑی ڈھیر ساری سوکھی پتیاں بھی لاکر جمع کر دیتیں، اس طرح ان کا کام آسان ہو جاتا تھا۔ عورتیں گروپ بنا کر بیٹھ جاتیں اور پھر’آئو بہن باتیں کرتے ہیں ‘کا سلسلہ شروع ہو جاتا۔ مہرِن، بھُجئن کاکی دانہ بھون کر اس میں سے ایک حصہ بطور اُجرت لے کر رکھ لیتی تھیں۔
بارش کے دوران آج بھی لوگ بھنے ہوئے چنے اور لئیا وغیرہ چبا کر موسم سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اسی طرح سردیوں میں صبح کے وقت دھوپ سینکتے ہوئے بھی لوگ بھنے ہوئے د انے لے کر بیٹھتے ہیں۔ مسلسل بارش ہو رہی ہو تو بھُجئن کاکی کے پاس ’بھار‘ جلانے کیلئے ایندھن نہیں بچتا تھا یا لکڑیاں گیلی ہو جاتی تھیں ۔ چنانچہ اس روز وہ’ چھٹی‘ کرلیتی تھیں۔ ایسی صورت میں مجھے یاد آتاہے کہ بچوں کی فرمائش پر دادی چولہے پر کھپری چڑھا کر گھر پر ہی دانے بھون دیا کرتی تھیں۔ یہ کام سب کو نہیں آتا تھا کیونکہ اناج اور ریت کے گرم ہونے کا ایک خاص درجہ حرارت ہوتا ہے تبھی اناج پھوٹ کر اچھے سے بھنتا ہے، چنانچہ کھپری چڑھا کر گھر کے وہی لوگ دانہ بھون سکتے ہیں جو اس فن میں مہارت رکھتے ہیں۔
یہاں اُس ’چوڑے‘ کی بھی بات ہو جائے جو موسم سرما میں گُڑ کے ساتھ مزے لے کر کھایا جاتا ہے یا اپنے گائوں کی زبان میں کہیں تو چبایا جاتا ہے (اس طرح کی اشیاء کو چبینا بھی کہتے ہیں )۔ ہمارے یہاں یہ چوڑا کافی مشہور ہے ۔ جب دھان پوری طرح پکا نہیں ہوتا یعنی ادھ کچا ہوتا ہے تبھی اسے کھیتوں سےکاٹ کر یا اس کی بالیوں سے دھان کو نکا ل لیا جاتا ہے، یعنی ’سُرک‘ لیا جاتا ہے۔ پھر اس سے دھان کا چوڑا تیار کیا جاتا ہے۔ اس چوڑے میں مٹھاس ہوتی ہے اور یہ خوش ذائقہ بھی ہوتا ہے۔ یہ یوپی اوربہار کے دیہی علاقوں میں کافی مشہور ہے، سوکھے دھان کاچوڑا تھوڑا سخت ہوتا ہے لیکن اس میں بھی مٹھاس ہوتی ہے۔ مشین سے تیار کیا گیا چوڑابہت پتلا ہوتاہے اور پانی میں جاتے ہی گھلنا شروع ہو جاتا ہے۔
گائوں کے کھانے اور پکوان کا اپنا الگ ہی ذائقہ ہے، یہاں بہت سی ایسی اشیائے خورد ونوش ہیں جو یہاں کےپکوانوں کو خاص بناتی ہیں لیکن وہ چیزیں بازار میں نہیں ملتی ہیں ۔ دھان ’سُرک ‘ کر تیار کیا جانے والا چوڑا بھی اسی میں شامل ہے۔ کسان اسے صرف اپنے استعمال کیلئے تیار کرتے ہیں ۔ کسان کھیت سے کچا دھان نہیں کاٹتا کیونکہ وہ اپنی فصل سے بچوں کی طرح پیار کرتا ہے۔ دھان کی بالیوں سے دھان ’سُرک‘ کر جو چوڑا تیار کیا جاتا ہے وہ صرف اپنے استعمال کیلئے یاپھر اپنے بہت قریبی عزیز اوررشتہ داروں کو بطور تحفہ پیش کرتا ہے ۔ یہ چوڑا اکتوبر کے وسط میں تیار کیا جاتا ہے۔ دہی کے ساتھ کھانے سے اس کی لذت اور بڑھ جاتی ہے۔ اگر آپ کے گھر میں کچھ نہیں ہے اور بھوک لگی ہے تو آپ اسے گُڑ کے ساتھ کھا سکتے ہیں ۔ یہ چوڑا سفید کی جگہ سبزمائل ہوتا ہے، جس سے اس بات کی تصدیق ہو جاتی ہے کہ یہ دھان سُرک کریعنی بالیوں سے دھان نکال کر تیار کیا گیا ہے۔
بہار سے تعلق رکھنے والےہمارےایک دوست لکھنؤ میں رہتے ہیں ۔ بقرعید کے موقع پر ایک بار مجھے گھربلاتے ہوئے کہا کہ آئیے آپ کو چوڑا گوشت کھلاتا ہوں ۔ میں شش و پنج میں پڑ گیا کہ چوڑا گوشت... ابھی تک توگوشت کو روٹی چاول، نان اورشیر مال وغیرہ سے کھایا تھا ۔ چوڑا گڑ اور دہی چوڑا بھی استعمال کیا تھا، اب اس کا سالن سے کیا جوڑ ہے؟ لیکن جب کھایا تو مزہ ہی آگیا۔ بالکل ایک نیا لطف ملا۔ آپ بھی آزماسکتے ہیں۔