کسان ہمیشہ اپنے جانوروں اور مویشیوں سے پیار کرتا رہا ہے۔ چنانچہ اپنے بچوں کی طرح ان کے بھی نام رکھتا ہے۔
EPAPER
Updated: December 17, 2024, 4:52 PM IST | Ahsanul Haque | Mumbai
کسان ہمیشہ اپنے جانوروں اور مویشیوں سے پیار کرتا رہا ہے۔ چنانچہ اپنے بچوں کی طرح ان کے بھی نام رکھتا ہے۔
کھیتوں کی جُتائی کے کام میں ٹریکٹر پر تو گفتگو ہوئی لیکن بیلوں کی خدمات کو ہم بھول گئے۔ برسوں قبل وہ موٹے تازے اور گٹھیلے بیل ہمارے بزرگوں کے کتنے کام آتے تھے۔ اُنہیں سے جُتائی کا کام لیا جاتا تھا اور گیہوں پر انہیں چلا کر جسے (دَنوَری ) کہتے ہیں گیہوں کے دانے الگ کرتے تھے اور ڈنٹھل بھوسہ بن جایا کرتا تھا۔ گویا یہی بیل بہ یک وقت ٹریکٹر اور تھریسردونوں کا کام کرتے تھے۔ ایک نسل کھیت جوت کر جوان ہوا کرتی تھی۔ بڑے بوڑھے بستہ لئے اسکول جانے والے بچوں سے کہتے تھے، ’جب تک پڑھبا اب ت اور ی تب جُتبا کھیت تین بیگھہ‘ یعنی جب تک اب ت اور ی پڑھو گے تب تک تین بیگھہ کھیت کی جُتائی ہو جائے گی۔ اب مشینی دور میں ہل پکڑنے کی کس کے پاس فرصت ہے۔
کسان ہمیشہ اپنے جانوروں اور مویشیوں سے پیار کرتا رہا ہے۔ چنانچہ اپنے بچوں کی طرح ان کے بھی نام رکھتا ہے۔ جس بیل میں جیسی خوبی ہوتی تھیں، اسی مناسبت سے اس کا نام رکھا جاتا تھا۔ ہمارے نانیہال میں ایک بیل کا نام ’بٹاٹیا‘ تھا، وہ بہت طاقتور تھا۔ ا س سے جُتائی کا کام لینا ہر کسی کے بس کی بات نہ تھی۔ ہاں یہ ضرور تھا کہ بیگھہ دو بیگھہ کی جُتائی میں کبھی وہ تھک کر کھیت میں نہیں بیٹھا۔ اُس وقت علی الصباح کھیتوں میں جُتائی کے دوران بیلوں کے گلے میں بندھی گھنٹی کی ٹن ٹن کی آواز سے بچے جاگ جاتے تھے۔ وہ کتنی خوبصورت صبحیں تھیں جب دور کھیت سے ٹن ٹن کی آواز اور مرغ کی بانگ ایک ساتھ سنائی دیتی تھی۔ اب تو بس ٹریکٹر کی کان پھوڑ دینی والی آوازیں ہیں ۔ کھیتوں میں ہل اور بیل کا استعمال برائے نام رہ گیا ہے۔
آج پھر ہمارے ساتھ گفتگو میں شامل ہیں مولانا ایوب ندوی صاحب۔ آپ کو دیہی زندگی اور گائوں کے موضوعات میں بڑی دلچسپی ہے۔ آپ کا تعلق یوپی امیٹھی ضلع سے ہے۔ پہلے ممبئی میں درس و تدریس کی خدمات سے وابستہ تھے، اب اندور مدھیہ پردیش میں مقیم ہیں۔ گائوں کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’سردیوں کے دن تھے گیہوں کی بونی(بوائی) چل رہی تھی۔ صبح سویرے ہی ابا یونس چچا اور فرید دادا اپنے بیلوں کو لے کر کھیت میں چلے گئے تھے۔ کئی گوئیاں (بیلوں کی جوڑیاں جو ایک ساتھ چلتی ہیں ) چل رہی تھیں۔ دھوپ چڑھتے ہی گھر کی خواتین ان کیلئے باسی(رات کا بچا ہوا) کھانا لے کر آگئیں۔ مٹر کی دال اور لال مرچ کی چٹنی اور مٹی کے برتن میں مٹھا (چھاچھ) اور لوٹے میں کنویں کا پانی۔ وہیں جُتے ہوئے کھیت میں سب کھانے کیلئے بیٹھ جاتے تھے۔ واقعی کتنے قریب تھے زندگی کےوہ دن۔ ‘‘
ہمارے گائوں میں بجلی کے تار تو تھے لیکن اُس وقت اُن میں کرنٹ نہیں آتا تھا، پھر بھی لوگوں کی زندگیاں آپسی محبت وبھائی چارہ سے روشن تھیں۔ ہر دل محبت سے معمور ہوا کرتا تھا جو دل میں ہوتا تھا وہی زبان پر۔ آج ہر گھر بجلی سے چمک دمک رہا ہے۔ گائوں کے گائوں برقی قمقموں سے سجے ہوئے ہیں۔ بیک سپورٹ کیلئے انورٹر بھی موجود ہیں۔ یوں کہہ لیں اب دیہات وہ دیہات نہیں رہے۔ آج کے گائوں ہر اُس خواب کی تعبیر بن چکے ہیں جو ترقی کے نام پر برسوں پہلے دیکھے گئے تھے۔ لوگوں نے محنت کرکے سب کچھ حاصل کرلیا لیکن کتنا کچھ کھوچکے ہیں اس کے احساس سے عاری ہیں۔ یہاں دلوں کی دنیا بالکل تاریک ہوچکی ہے جب آپ سالوں بعد شہر سے گائوں جائیں تو ایسا لگتا ہے وہ گرم جوشی وہ اپناپن کہیں کھوگیا ہے۔ اختلافات پہلے بھی تھے زمین وجائیداد کے جھگڑے کوئی نئے نہیں ہیں لیکن آج اور گزرے ہوئے کل میں فرق یہ ہے کہ ہمارے بڑوں کے دل صاف تھے غلطی سمجھ میں آتے ہی ایک دوسرے سے معافی تلافی کرکے دل کے غبار دور کرلیتے تھے۔
اس وقت ضرورتیں محدود تھیں لیکن لوگ ایک دوسرے کی ضرورت تھے۔ آج لامحدود ضرورتوں کے باوجود ہم ایک دوسرے سے بے ضرر ہوگئے۔ ایسی بے اعتنائی اور بے رخی کہ اللہ کی پناہ۔ کوئی کسی کو خاطر میں نہیں لاتا نہ بڑوں کا احترام باقی رہا نہ چھوٹوں کی کوتاہیوں پر درگزر کرنے کا حوصلہ۔ وسائل زندگی کو قریب لانے کیلئے ہوتے ہیں لیکن گاؤں دیہات میں یہ دوریاں پیدا کرگئے جہاں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ جیتے تھے وہیں آج دوسرے سے جیتنے کیلئے جینے لگے ہیں۔
گائوں کی موجودہ صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا ایوب ندوی نے کہا کہ طوفان کے ساتھ آنے والی بارش اپنے پیچھے تباہی وبربادی چھوڑ جاتی ہے۔ اسی طرح جہالت کے ساتھ آنے والی دولت آپسی تعلقات کو پس پشت ڈال دیتی ہے۔ آج دولت کی ریل پیل میں رشتہ اور رشتہ داریاں بہت پیچھے چھوٹ گئی ہیں کیونکہ انسان دولت کے نشہ میں یہ لگ بھگ بھول چکا ہے کہ اس سے رشتہ وتعلقات کے بارے میں بھی پوچھ تاچھ کی جائے گی۔ رشتہ دار دسیوں کلو میٹر دور سے پیدل سفر کرکے آتے تھے اور کئی کئی دن مہمان ہوتے تھے اب دنوں کا سفر گھنٹوں میں طے کیا جارہا ہے پھر بھی وقت کے نہ ہونے کا رونا ہے۔ یاد رکھیں دنیا بھر کی دولت جمع کرکے آپ سب سے مالدار تو بن سکتے ہیں لیکن بڑے کبھی بھی نہیں۔ بڑا انسان وہ ہوتا ہے جو یکساں طور پر حقوق اللہ اور حقوق العباد کی پاسداری کرتا ہے۔