اُس وقت با ہر کمانے والی بڑی تعداد عید کے موقع پر اپنے گائوں لوٹتی تھی۔ انتہائی مجبوری کی حالت ہی میں کوئی شخص اپنے گائوں سے دور شہر میں عید مناتا تھا۔
EPAPER
Updated: March 30, 2025, 12:59 PM IST | Ahsanul Haque | Mumbai
اُس وقت با ہر کمانے والی بڑی تعداد عید کے موقع پر اپنے گائوں لوٹتی تھی۔ انتہائی مجبوری کی حالت ہی میں کوئی شخص اپنے گائوں سے دور شہر میں عید مناتا تھا۔
رمضان المبارک کے آخری عشرے کے آغاز ہی سے گائوں کے اُن لوگوں کاانتظار ہونے لگتا تھا جو روزگار کے سلسلہ میں دوسری ریاستوں میں مقیم تھے۔ گائوں کے باہر پُلیا پر بچے صبح ہی سے جمع ہو جاتے۔ دور سے جب کوئی آتا ہوا نظر آتا یا کوئی یکہ تانگا دکھائی دیتا تو سبھی بچے ایک ساتھ دوڑ لگا دیتے اور شور مچاتے کہ ’’پہلے مَیں نے دیکھا۔ ‘‘ بچے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے۔ قریب پہنچنے پر گائوں آنے والا پردیسی سب سے بڑی اپنائیت سے ملتا اور سب کے ہاتھوں پر کچھ نہ کچھ ضرور رکھتا۔ اب تو موبائل کا زمانہ ہے پردیسی پہلے ہی فون پر اپنے اہل خانہ کو مطلع کردیتا ہے۔ گھر کا کوئی فرد انہیں قریبی اسٹیشن یا بس اسٹینڈ سے لے کر سیدھا گھر پہنچ جاتا ہے۔ پہلے ایسا نہیں تھا، باہر سے آنے والے پردیسی کی مقررہ تاریخ اُس کے گھر والوں کو بھی نہیں معلوم ہوتی تھی۔ اُس وقت با ہر کمانے والی بڑی تعداد عید کے موقع پر اپنے گائوں لوٹتی تھی۔ انتہائی مجبوری کی حالت ہی میں کوئی شخص اپنے گائوں سے دور شہر میں عید مناتا تھا۔
سترکھ قصبہ (بارہ بنکی) سے تعلق رکھنے والے چودھری امیر الدین عثمانی بتاتے ہیں کہ بچپن کہ وہ عیدیں آج بھی یاد ہیں جب عید کی خوشیاں بچوں اور بڑوں میں یکساں نظر آتی تھیں۔ گلیوں میں بچوں کی بھاگ دوڑ ہوتی تھی۔ نئے جوتے کپڑے آنے پر بچے ایک دوسرے کو دکھاتے پھرتے۔ دن میں دو تین بار انہیں پہنتے اور اکثر بچے جوتے کا ڈبہ سرہانے رکھ کر سو جاتے تھے۔
ایسا بھی ہوتا تھا کہ بچے عید کا نیا کپڑا جمعۃ الوداع میں پہنتے اور اُسے تہہ کرکے رکھ دیتے، پھر وہی کپڑا عید میں بھی پہنتے تھے۔ بچوں کی چاند رات بستر پر کروٹ بدلتے ہی گزرتی تھی۔ عید کے پیسوں سے کون کون سے کھلونے خریدنے ہیں، اُن کی پوری رات اسی ادھیڑ بُن میں گزر جاتی تھی۔ عید گاہ کے پاس بہت بڑا میلہ لگتا تھا جس کا بچے سال بھر انتظار کرتے تھے۔ یہ میلے اب بھی لگتے ہیں لیکن اب ان میں پہلے جیسی رونق کہاں۔ یہاں حلوہ پراٹھے اور طرح طرح کی مٹھائیاں ملتی تھیں مگر گڑکی جلیبی کی بات ہی الگ تھی۔ برادران وطن کی بڑی تعداد میلے میں جمع ہوتی تھی۔ لوگ ایک دوسرے سے گلے ملتے اور ساتھ میں سوئیاں کھانے گھر جاتے تھے۔ عید کی نماز کے بعد جب گھر کے بڑے لوٹتے تو بچوں کو عیدی ملنے کا سلسلہ شروع ہو جاتا تھا۔ بچے اپنے گھر میں عیدی وصول کرنے کے بعد گائوں اور دوسرے رشتہ داروں کے ہاں بھی عیدی لینے نکل پڑتے تھے۔ اس طرح جب پندرہ بیس روپیہ جمع ہوجاتا تھا تو مارے خوشی کے بچہ پھولے نہیں سماتا تھا اور پھر وہ میلے کی طرف اس طرح رُخ کرتا، گویا آج وہ پورا میلہ خرید لے گا۔ عیدی ملنے کا سلسلہ اب بھی ہے لیکن پہلے جیسا جوش و خروش کم نظر آتا ہے۔ حالانکہ اب پہلے کے مقابلے عیدی کی رقم کئی گنا بڑھ گئی ہے۔
اُس وقت ریڈی میڈ کپڑوں کا چلن کم تھا۔ لوگ کپڑے خرید کر سلوایا کرتے تھے۔ ممبئی اور دہلی جیسے شہروں میں کمانے والے لوگ اپنے اہل خانہ کیلئے وہیں سے کپڑے کا پورا تھان بھیجتے تھے۔ پھر گھر کے سارے بچوں کو جمع کرکے کپڑے کے تھان کے ساتھ ٹیلر ماسٹر کے یہاں لے جایا جاتا اور وہ ایک ایک کا ناپ لیتا۔
اکثر ایسا ہوتا کہ ناپ کے بعد کپڑا کم پڑ جاتا تھا۔ اُس وقت گائوں اور قصبات میں ٹیلر ماسٹر کی تعداد بھی بہت کم تھی چنانچہ بعض تو رمضان شروع ہونے کے ساتھ ہی ہائوس فُل کا بورڈ لگا دیتے تھے۔ ٹیلر ماسٹر کی ہمیشہ یہی خواہش رہتی تھی کہ ۳۰؍ کا چاند ہو اور ایک دن کا موقع اور مل جائے۔ پہلے سوئیاں بھی بازار سے نہیں خریدی جاتی تھیں۔ خواتین گھر ہی میں میدے سے سوئیاں تیار کرتی تھیں۔ اُس وقت رمضان میں بیشتر گھرو ں کے باہر چارپائی میں سوئیاں بندھی ہوتی تھیں، یوں لگتا کہ جیسے چارپائی ہی سوئیاں بنانے کی مشین ہو۔ عید آتے آتے سوئیاں تیار ہوجاتی تھیں جو عید کے بعد بھی کئی مہینے تک چلتی تھیں۔ سیوئیاں اور دیگر کاموں سے جب خواتین فارغ ہو جاتیں تو پھر ہاتھوں میں مہندی لگانے کے ساتھ ہی اُن کی عید کی تیاری ختم ہو تی۔
عید کی نماز سے تقریباً ہفتہ بھر پہلے عید گاہ کی صفائی ستھرائی کا کام شروع ہو جاتا تھا۔ گائوں کے بچے اس کام میں پیش پیش رہتے تھے۔ عید گاہ کے بڑےسے صحن میں جھاڑو لگاتے اور وضو کرنے کیلئے پانی کا انتظام کیا جاتا تھا۔ صفائی ستھرائی کا کام تو اب بھی ہوتا ہے لیکن اب مزدور کرتے ہیں۔ اُس وقت فقراء عید کے گیٹ کے باہر کھڑے ہوتے، مصلیان کے جوتے چپلوں کی رکھوالی کرتے تھے۔ عید کی نماز کے بعد لوگ ان کے ہاتھ پر روپیہ دو روپیہ رکھ دیتے اور وہ خوش ہو جاتے تھے۔ اپنی بات مکمل کرتے ہوئے چودھری امیرالدین عثمانی صاحب نے بتایا کہ اس دور میں غربت زیادہ تھی، سہولیات کا فقدان تھا لیکن پیار، محبت اور بھائی چارہ زیادہ تھا۔ لوگ چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو بھی بڑے ناز سے مناتے تھے لیکن آج کے دور میں وہ پرانی باتیں کہاں اور نہ وہ پرانی عیدیں کیونکہ اب ہر کوئی اپنے آپ تک محدود ہوچکا ہے۔