گزشتہ دنوں عید کی نماز کے بعد جب ہم گائوں کے نوجوانوں اور کچھ بزرگوں کے ساتھ مہوا کے پیڑ کے نیچے سے گزرے تو ایک بزرگ کو کچھ یاد آنے لگا۔
EPAPER
Updated: April 06, 2025, 1:07 PM IST | Ahsanul Haque | Mumbai
گزشتہ دنوں عید کی نماز کے بعد جب ہم گائوں کے نوجوانوں اور کچھ بزرگوں کے ساتھ مہوا کے پیڑ کے نیچے سے گزرے تو ایک بزرگ کو کچھ یاد آنے لگا۔
رمضان گزر چکا۔ عید کی میٹھی میٹھی سیوئیاں ختم ہوئیں، لیکن اب باغوں میں سفید موتیوں کی طرح زمین پربچھی مہوے کی مہک فضا میں مٹھاس گھول رہی ہے۔ چائو مین برگر کھانے والی نئی نسل کو اس کا ذائقہ کیا معلوم ورنہ ایک وقت تھا جب ہمارے بزرگ سال بھر اس کا انتظار کرتے اور مہوا کے موسم میں اس سے کتنےسارے پکوان بنتے، جو وہ خود بھی کھاتے اور اپنے پڑوسیوں کے گھر بھی بھیجتے تھے۔ بچے مہوا چننے میں بڑوں کی مدد کرتے تھے۔ جس دن مہوا کے درخت کے نیچے جمع پتیاں جلائی جاتیں وہ دن بچوں کیلئے تفریح سے بھرا ہوتا تھا۔ اس کام کیلئے گائوں بھر کے بچے جمع ہوتے، ایک پتی کے ڈھیر سے دوسرے میں آگ لگاتے۔ بڑے بزرگ کھیوں کے کنارے کھڑے ہوتے تھے تاکہ تیار فصل میں آگ نہ لگ جائے۔ اکثر یہ کام سورج ڈھلنے کے بعد کیا جاتا تھا کیونکہ اُس وقت ہوا کا زور کم ہو جاتا تھا جس سے آگ پھیلنے کا خطرہ نہیں ہوتا تھا۔ کئی بار ایسا ہوتا تھا کہ لاپروائی میں مہوا کی پتیاں جلانے کے دوران گیہوں کی فصلوں میں آگ لگ جاتی تھی۔
گزشتہ دنوں عید کی نماز کے بعد جب ہم گائوں کے نوجوانوں اور کچھ بزرگوں کے ساتھ مہوا کے پیڑ کے نیچے سے گزرے تو ایک بزرگ کو کچھ یاد آنے لگا۔ وہ کہنے لگے کہ’’آج اِس پرانے مہوا کے درخت کے نیچے پہنچ کر بچپن کی یادیں تازہ ہو گئیں۔ وہ دن بھی کیا خوب تھے جب صبح چار بجے ہی سے دوستوں کے گھر جاکر انہیں اُٹھاتے اور ساتھ میں مہوا چننے جاتے تھے۔ اپنے پیڑ کے نیچے تو کوئی نہیں جاتا لیکن صبح صبح دوسرے کے پیڑ کا مہوا ہم لوگ پہلے چنتے تھے۔ کبھی کبھی پکڑے جاتے تو مہوا چھین لیا جاتا تھا اور گھر پر پٹائی الگ ہوتی تھی، کئی بار معافی مانگ کر بچ جاتے تھے۔ ‘‘مہوا میں پھول لگنے سے پہلے مارچ کے آخر تک اس کی پتیاں جھڑ جاتی ہیں۔ پتیوں کے جھڑنے پر اس کی ڈالیوں کے سروں پر کلیوں کے گچھے نکلنے لگتے ہیں، اِسے مہوے کا ’کوچنا‘ کہا جاتا تھا۔ کلیاں بڑھتی جاتی ہیں اور ان کے کھِلنے پر سفید پھول نکلتا ہے، جو دونوں طرف کھلا ہوتا ہے، اس کے اندر زیرے ہوتے ہیں۔ یہی پھول مہواکہلاتا ہے۔ مہوے کا پھول شاخوں میں ایسا گچھا ہوتا ہے جیسے کسی دوشیزہ کی چوٹی میں موتیاں جڑی ہوں۔ یہ تقریباً تین ہفتے تک رات کے آخری پہر سے سورج نکلنے کے بعد تک درخت سے زمین پر ٹپکتا ہے۔ یہ کھانے میں میٹھا ہوتا ہے۔ اسے چرند، پرند اور انسان سب پسند کرتے ہیں۔ سوکھے مہوے کا پراٹھا بنتا ہے جسے ہمارے یہاں ’ٹھکوا ‘ کہا جاتا ہے۔ اس کا رَس نچوڑ کر آٹے میں ملاکر کھیر بنائی جاتی ہے جو ’لپٹا‘ اور ’لپسی‘ کہلاتا ہے۔ سوکھے مہوے کو بھون کر اُس میں تلی، السی اور پوستہ کا دانا ملا کر کوٹتے ہیں، اسے ’لاٹا‘ کہا جاتا ہے۔ ایک وقت تھا جب گھر کے بزرگ صبح’لاٹا‘ کھاکر کھیتوں میں کام کیلئے نکلتے تھے۔ مہوے کا ’ٹھکوا‘ آم کے اچار کے ساتھ پسند کیا جاتا ہے۔ گائوں کے اکثر گھروں میں بارش کے دنوں میں یہ بنایا جاتا تھا۔
مہوے کا پیڑ جلدی سوکھتا نہیں ہے، اسے پانی کی ضرورت بھی نہیں پڑتی ہے۔ گائوں کے بزرگ بتاتے ہیں کہ اِس وقت باغوں میں جو مہوے کے درخت باقی رہ گئے ہیں، وہ دو سو سے ڈھائی سوسال تک پرانے ہیں۔ مہوا کے تعلق سے ایک بہت پرانی کہاوت ہے جو بچپن میں اکثر سننے کو ملتی تھی، اب بھی گائوں کے بزرگ اپنی محفل میں سانپ اور مہوا کے درمیان کی گفتگوکو بیان کرتے ہیں ...آپ بھی سنئے ...سانپ مہوا سے بولتا ہے ...’’ٹیپ سے ٹپاک سے کپار کاہیں پھوڑے رے؟‘‘اب مہوا جواب دیتا ہے۔ ’’ اینگرے سے مینگرے سے رات کاہیں ڈولے رے؟‘‘ مطلب سار ی رات ٹپ ٹپ ٹپکنے والا مہوا جب سانپ کے سر پر گرجاتا ہے تو سانپ ناراض ہو کر کہتا ہے کہ’’ٹیپ سے ٹپاک سے کپار (سر کو کہتے ہیں )کاہیں پھوڑدیا؟ تب مہوا بھی اِترا کر جواب دیتا ہے ’’کپار (سر)پھوٹا میری بلا سے، اتنی رات کو اِدھر اُدھر کیوں پھرتے ہو؟‘‘
گائوں کے بزرگ بتاتے ہیں کہ جب ہم لوگ چھوٹےتھے تو مہوے کے بڑے بڑے باغ ہوا کرتے تھے، جسے ’مہواری‘ کہا جاتا تھا۔ مہواری کے نام سے باغ آج بھی ہیں لیکن اس میں اب مہوے کے چند درخت ہی باقی رہ گئے ہیں۔ ایک وقت تھا جب چھوٹے بچوں سمیت پوراگھردن بھر مہواری میں مہوا چنتا تھا۔ یہ کام کافی محنت طلب ہوتا تھا۔ زمین سے مہوا چننے میں گھنٹوں لگتےتھے اور اس کی اپنی مشکلیں تھیں۔ دن بھر کام کرنے کے بعد اکثر رات کو ہاتھ، پیر، گھٹنوں اور کمر کے درد کا سامنا کرنا پڑتھا۔ صبح سے دوپہر تک مہوا اِکٹھا کیا جاتا تھا اور پھر دھوپ میں سوکھنے کیلئے ڈال دیا جاتا تھا۔ اُس وقت کسانوں کیلئے یہ کسی خزانے سے کم نہیں تھا، مہوا بیچ کر کسان بڑی رقم جمع کر لیتے تھے۔ جب لوگوں کو دہاڑی مزدوری کا کام نہیں ملتا، تو یہی پھول مشکل وقت میں ان کے کام آتا تھا۔ اب نہ پہلے جیسے مہوے کے باغ ہیں ، نہ ہی وہ محنت کش لوگ ہیں جو دن بھر بھوکے پیاسے دھوپ میں مہوا چناکرتے تھے۔