• Sun, 23 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

کھیتوں میں کسان عارضی چھپر ڈال لیتے ہیں، جنہیں وہ ’پاہی‘ کہتے ہیں

Updated: February 23, 2025, 2:23 PM IST | Ahsanul Haque | Mumbai

جیسے شہر کے لوگ صبح صبح اپنے دفاتر کا رُخ کرتے ہیں ویسے ہی گائوں کے لوگ دن نکلتے ہی کھیتوں کی طرف بھاگتے ہیں۔

Temporary huts built between fields, where people live and look after the fields. Photo: INN.
کھیتوں کے درمیان بنائی گئی عارضی جھوپڑیاں، یہاں رہ کر کھیتوں کی رکھوالی کی جاتی ہے۔ تصویر: آئی این این۔

فروری کا مہینہ ختم ہونے کو ہے، باغوں سے کھیتوں تک ہرطرف ہریالی ہی ہریالی نظر آرہی ہے۔ دوپہر کو اب گرمی کا احساس ہونے لگا ہے۔ جاڑے کے بستر سمیٹے جارہے ہیں۔ موٹے لحاف تہہ کرکے بڑے سے پرانے صندوق میں اپنی جگہ لے رہے ہیں۔ بچپن میں بستر تہہ کروانے میں گھر کےبچے پیش پیش رہتے تھے۔ جب بستر کو جھاڑا جاتا تو اکثر اس میں سے قلم، پنسل اور سکے مل جاتے تھے۔ سکہ کھنکنے کی آواز آتی تو بچے اُس پر ٹوٹ پڑتے جیسے مال غنیمت ہاتھ لگ گیا ہو۔ 
اس مہینے کا الگ ہی تجربہ تھا۔ ایک طرف بستر تہہ کئے جاتےتھے تو دوسری طرف کتابیں سمیٹی جاتی تھیں۔ جی ہاں ... اسکولوں میں پڑھنے والے طلبہ کا تعلیمی سال مکمل ہونے کا وقت ہوتا تھا۔ کلاسیز اختتام کی طرف ہوتی تھیں۔ گائوں کے چھوٹے چھوٹےپرائمری اسکولوں میں بچوں کی پانچویں جماعت تک کی تعلیم پائے تکمیل تک پہنچنے کو ہوتی تھی۔ یہاں پرائمری اسکولوں میں اُس وقت تو الوداعی تقریب نہیں ہوتی تھی، ہاں یہ ضرور ہے کہ سال آخر کے طلبہ اپنے اساتذہ کیلئے گھر سے طرح طرح کے پکوان لاتے تھے۔ 
بات ہرے بھرے کھیتوں سے شروع ہوئی تھی تو آئیے پھر اسی موضوع پر آتے ہیں۔ جیسے شہر کے لوگ صبح صبح اپنے دفاتر کا رُخ کرتے ہیں ویسے ہی گائوں کے لوگ دن نکلتے ہی کھیتوں کی طرف بھاگتے ہیں۔ شہر میں دفتری امور سے وابستہ افراد جب اپنے کام سے تھک جاتے ہیں تو کافی ہائوس یا کسی ریستوران کا رُخ کرتے ہیں جبکہ گائوں کا کسان کھیتی کے کام سے تھک کر چُور ہو نے کے بعد درختوں کے سائے میں بیٹھ کر ٹھنڈی ہوائوں سے تازہ دم ہو جاتا ہے۔ کھیتی کا کام جب زیادہ بڑھ جاتا ہے تو کسان یہاں ایک عارضی چھپرڈال لیتے ہیں اسے یہاں کی زبان میں ’پاہی‘ کہتے ہیں۔ آج ایسی ہی ایک ’پاہی‘ کا رُخ کرتے ہیں۔ 
یہاں کچی دیوار پر چھپر ڈال دیا گیا ہے جس میں ایک پمپنگ سیٹ ہے، یہیں پر مویشیوں کے کھانے کیلئے بھوسا رکھا گیا ہے۔ ایک طرف کھٹیا (چارپائی) پڑی ہے۔ اس چھپر میں جانوروں کو ہانکنے کی لاٹھی رکھی ہے۔ ایک طرف درانتی، کدال اور پھاوڑا ہے۔ یہاں بانس کی کینی (بانس کی پتلی لکڑی) میں اخبارات اوررسائل بھی پھنسا کر رکھے گئے ہیں۔ سامنے دور تک کھیت ہی کھیت نظر آرہے ہیں، آس پاس کے جنگلوں سے جنگلی جانوروں کی آوازیں آرہی ہیں، جو اِس وقت تو نہیں لیکن راتوں کو ڈراتی ہیں۔ آوارہ مویشی کھیتوں کو چرتے ہیں، بڑی نہر کا پانی خاموشی سے بہہ رہا ہے۔ ابھی میں آگے ہی بڑھنے والا تھا کہ کسی کے قدموں کی آہٹ ہوئی اور پیچھے مُڑ کر دیکھا تو عابدچچا تھے۔ بہت دنوں بعد گائوں آئے تھے۔ بڑی گرمجوشی سے ملے، کہنے لگے کہ اتنے دنوں بعد آیا ہوں تو سوچتا ہوں کہ ایک ایک کھیت دیکھ لوں۔ ان کے ساتھ آنے والےبچے کھیتوں اور باغات کو دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہے تھے اوراظہارمسرت کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ یہاں تو گارڈن ہی گارڈن ہے۔ 
واقعی اب تو گائوں میں بہت کچھ بدل گیا ہے ورنہ شام کو بچے یہیں کھیتوں کی رکھوالی کرتے مل جاتے۔ ’پاہی ‘کا وہ چھپر ان کی لائبریری ہوا کرتا تھا۔ یہاں شام کو لالٹین کی روشنی میں پڑھائی کرتے، دادا کیلئے گھر سے کھانا لاتے، کبھی کبھی وہ رات اِتنی ڈرائونی ہو جاتی جب دور کہیں جنگل سے بھیڑیئے کی آواز آتی، بچے خوفزدہ ہو کر بھاگتے، اندھیرے میں ٹھوکر لگتی توہاتھ میں اُٹھائے کھانے کی بڑی سی پرات کے ساتھ زمین پر ڈھیر ہو جاتے۔ ایک دو بار ایسا واقعہ ہونے کے بعد سے بچوں کے اندر سے ڈر نکل جاتا تھا۔ دادا بچوں کا ہوم ورک چیک کرتے۔ کلمہ سنتے، دعائیں یاد کراتے۔ جو بچہ بغیر اَٹکے روانی کے ساتھ دعائیں سنادیتا اس کو بطور انعام کھیت سے توڑے گئے تازے ٹماٹر اور کھیرےوغیرہ دیتے۔ یہیں گرمیوں کی راتیں، سردیوں کی دوپہریں اور بارش کی شامیں گزرتیں۔ یہیں جیٹھ کی تپتی لٗو میں دن گزرتا تھا اوربھادوں کی کڑکتی بجلی ڈراتی۔ بارش میں ٹپکتے چھپر کے پانی سے لاکھ جتن کے بعد بھی بستر بھیگ ہی جاتا تھا۔ جاڑے کی برفیلی ہوائوں کے درمیان اسی چھپر میں راتیں گزرتی تھیں۔ 
وہ جنوری کے مہینے میں ننگے پائوں گیہوں کے کھیتوں کی سینچائی کا بڑا سخت مرحلہ تھا۔ ماں کے ہاتھ کا بُنا وہ ہاف سویٹر کبھی سردی کا احساس نہیں ہونے دیتا تھا۔ یہاں کھیت میں بنے مچان سے پرندوں کو اڑتے اور فصلوں پر چونچیں مارتے دیکھنا کتنا خوش کن تھا۔ سردیوں کی دوپہر میں گائوں کے بچے پمپنگ سیٹ پر جمع ہوکر نہاتے تھے۔ کچھ بچے جو سردیوں میں نہانے سے کتراتے تھے ان کی مائیں ان کو یہاں لا کر مار مار کر نہلاتی تھیں۔ اُس وقت کھیتوں کی سینچائی کے دوران گائوں کی عورتیں پمپنگ سیٹ پر جمع ہو جاتیں اور ہفتوں کے جمع کپڑے دھُل لیا کرتی تھیں۔ اب پمپنگ سیٹ میں پائپ لگا دی جاتی ہے اور پانی سیدھے کھیت میں جاتا ہے۔ چنانچہ گائوں کا یہ عارضی ’گھاٹ‘ اب تقریباً ختم ہو گیا۔ ہمارے علاقے میں سسرال، ننہال یا کہیں سے بطور تحفہ ملنے والے گھر کو بھی ’پاہی‘کہتے ہیں۔ اصل گھر کو ’گھرُہی‘اور تحفے میں ملنے والی املاک ’پاہی‘ کہلاتی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK