الاؤ پر ایک دوسری کہانی شروع ہوئی۔ یہ بھی اتفاق سے ایک ٹیکسی ڈرائیور ہی کی تھی۔ اس کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ انگریزی کے ماہر تھے۔ ملک کے باہر سے آنے والے پیسنجرکو بمبئی کی سیر کراتے تھے۔ ایک غیر ملکی ان کے پاس آیا ورلی سی فیس بول کر بیٹھ گیا۔
EPAPER
Updated: February 16, 2025, 2:31 PM IST | Ahsanul Haque | Mumbai
الاؤ پر ایک دوسری کہانی شروع ہوئی۔ یہ بھی اتفاق سے ایک ٹیکسی ڈرائیور ہی کی تھی۔ اس کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ انگریزی کے ماہر تھے۔ ملک کے باہر سے آنے والے پیسنجرکو بمبئی کی سیر کراتے تھے۔ ایک غیر ملکی ان کے پاس آیا ورلی سی فیس بول کر بیٹھ گیا۔
سورج غروب ہو چکا تھا۔ شام کا اندھیرا اَب تاریکی میں بدل رہا تھا۔ گائوں کے نوجوان اور کچھ عمر دراز افراد، کھیتوں کا رُخ کررہے تھے۔ ٹھنڈی ہوا ئیں چلنے سے سردی بھی بڑھ رہی تھی۔ گائوں سے کھیتوں کی طرف نکلنے والا یہ گروپ باغ کے ایک کونے پر جمع ہوا۔ یہاں سے کھیتوں پر آسانی سے نظر رکھی جا سکتی تھی۔ زیادہ تر کھیتوں میں گیہوں بوئی گئی تھی، کچھ کھیتوں میں سرسوں کی فصل بھی لہلہا رہی تھی۔ آوارہ مویشی اور نیل گائے گیہوں کو زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں کیونکہ گیہوں اُن کا پسندیدہ چارہ ہے۔ سرسوں کو وہ منھ بھی نہیں لگاتے۔ چنانچہ مویشیوں کے بڑھتے ہوئے حملوں سے اب گائوں کے بہت سے کاشتکار سرسوں کی کھیتی کرنے لگے ہیں۔ گیہوں اُتنا ہی بوتے ہیں جتنے سے ان کا سال بھر کا راشن پورا ہو جائے۔ کھیتوں کی رکھوالی کرنے والے جب ایک جگہ جمع ہوئے تو باغ سے سوکھی لکڑی اور پتیاں اکٹھا کی گئیں اور پھر الائو جلا دیا گیا۔ اب سبھی لوگ الائو کے گرد جمع ہو گئے تھے اور قصہ کہانیوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔
ایک صاحب جو اَبھی ہفتہ بھر پہلے بمبئی سے آئے تھے، انہوں نے وہاں کے ایک صاحب کا پرانا قصہ چھیڑ دیا جو نئے نئے ٹیکسی ڈرائیور بنے تھے۔ بتانے لگےکہ وہ قلابہ کے پاس ٹیکسی لگائے تھے۔ ایک مسافر آیا اور بولا ...تار گھر(بمبئی میں ایک جگہ کا نام)، ان کو سنائی دیا ..تَہار گھر (تمہارا گھر)...بڑے خوش ہوئے۔ انہوں نے اپنے گائوں کا نام بتایا۔ اس نے دوبارہ کہا ...تار گھر۔ اب وہ اپنے گائوں کے ساتھ آس پاس کے گاؤں کے بھی نام گنانے لگے ...مسافر غصہ ہوتے ہوئے قدرے تیز آوازمیں بولا کہ...تار گھر۔ وہیں پاس میں کھڑا ایک دوسرا ڈرائیور یہ سب سُن رہا تھا۔ وہ اپنی ٹیکسی کو اس کے قریب لایا اورپسنجر کو بٹھا کر چل پڑا۔
الاؤ پر ایک دوسری کہانی شروع ہوئی۔ یہ بھی اتفاق سے ایک ٹیکسی ڈرائیور ہی کی تھی۔ اس کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ انگریزی کے ماہر تھے۔ ملک کے باہر سے آنے والے پیسنجرکو بمبئی کی سیر کراتے تھے۔ ایک غیر ملکی ان کے پاس آیا ورلی سی فیس بول کر بیٹھ گیا۔ وہ تار دیو سے آگے بڑھے اور حاجی علی کے پاس سے گزررہے تھے کہ پیسنجر نے ان سے انگریزی میں کچھ سوال کیا جس کاانہوں نے اپنے انداز میں جواب دیا...’دِس دَریا دَیٹ سمندر ‘ یہ سنتے ہی پیسنجر اچھل پڑا اور اسٹاپ بول کر ٹیکسی سے اُترا اور فُٹ پاتھ پر تیزی سے پیدل ہی چل پڑا۔
الائو کے پاس بیٹھے لوگوں میں ایک نوجوان کو جانوروں کی آواز نکالنے میں مہارت تھی۔ وہ سِیار اور لومڑی کی آواز نکالتا تو کھیتوں کی طرف آنے والے آوارہ مویشی وہاں سے بھاگ کھڑے ہوتے۔ آواز نکالنے پر یاد آیا کہ یو پی پولیس نے سنبھل کے ایک انکائونٹر کے دوران گولی نہ چلنے پر منھ سےٹھائیں ٹھائیں کی آوازیں نکال دی تھیں۔ اسی طرح یہاں گائوں کے لوگ فصلوں کو مویشیوں سے بچانے کیلئے جنگلی جانوروں کی آواز نکالتے ہیں۔ گائوں میں آوارہ مویشیوں کی تعداد اس قدر بڑھ گئی ہے کہ اگرکھیتوں کہ رکھوالی نہ کی جائے تو وہ رات بھر میں پوری فصل چٹ کر جائیں۔ گائوں کے لوگ اِس وقت باری باری کھیتوں کی رکھوالی کرتے ہیں۔ گائوں میں آوارہ مویشیوں کی تعداداس وجہ سے بڑھ گئی ہے کہ ایک رات نا معلوم ٹرک سے بڑی تعداد میں یہاں جانور چھوڑ دیئے گئے۔
گائوں سے تعلق رکھنے والے اپنی مٹی سے بڑی محبت کرتے ہیں۔ وہ مجبوری ہی میں پردیس کمانے جاتے ہیں۔ ہمارے علاقے کے ایک صاحب ممبئی کے ’بی ای ایس ٹی‘ میں ڈرائیور تھے۔ ایک روز بس میں بیٹھے مسافروں کو ’سی ایس ٹی‘ لاکر چھوڑے اور بس کو وہیں ڈپو میں کھڑی کرکے سی ایس ٹی ریلوے اسٹیشن کے پاس چائے پینے لگے۔ اتنے میں مہا نگری ٹرین نے ہارن دیا... اچانک انہیں گاؤں کی یا د آئی تو وہ کچھ سوچے سمجھے بغیر چائے کا کپ وہیں پھینکتے ہوئے دیوانہ وار اسٹیشن کی طرف دوڑ پڑے اور ٹرین کے پلیٹ فارم سے چھوٹنے سے پہلے ہی اُس پر سوار ہو گئے ... اور وہ اپنے گائوں کو روانہ ہو گئے۔ اس صورت میں ان کو نوکری سے ہاتھ دھونا پڑگیا تھا۔ ان کی یہ کہانی گاؤں میں موضوع بحث بن گئی تھی۔ لوگ ان سے کہتے تھے کہ گائوں آنا ہی تھا تو چھٹی لے کر آتے، ایسی بھی کیا جلدی تھی کہ آن ڈیوٹی آپ ٹرین پر سوار ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ ریل کی سیٹی میں کچھ ایسی کشش تھی کہ میں نہ چاہتے ہوئے بھی اسٹیشن کی طرف کھنچتا چلا گیا اور ٹرین میں سوار ہوگیا۔
الائو کی آگ بجھ رہی تھی اور قصہ سننے والے بھی اونگھنے لگے تھے۔ ہوا چلنے کے ساتھ ہی سردی بھی بڑھ رہی تھی۔ اتنے میں ایک بزرگ بیڑی جلاتے ہوئے اُٹھے اور کھیتوں کا معائنہ کرنے چل پڑے۔ سردی لگی تو وہاں بیٹھےلوگ اس آگ کو کریدنے لگے۔ گائوں کی طرف سے کتوں کے بھونکنے کی آواز آرہی تھی۔ اچانک سے آنے والی تیز آواز سے وہاں بیٹھے لوگوں کو اندازہ ہو گیا کہ اب رکھوالی کیلئے دوسرا گروپ چل پڑا ہے۔ گھنٹوں سے جانورہانکتے ہانکتے اب وہ تھک چکے تھے، اسلئے انہیں بستر میں جانے کی جلدی تھی۔ اتنے میں درختوں کے سایوں کے درمیان سے تازہ دم کمک پہنچی اور تھکے ہارے نوجوان اپنے گھروں کی طرف روانہ ہو گئے۔