رام کلی اپنے بکرے کا سوچ کربڑی فکر مند رہتی ہیں۔ زندگی کے اس پڑائو پراس کا ایک ہی سہارا ہے اس کا بکرا جو ’میں میں ‘ کرتا ہے تو اس میں اُسے ماں پکارنے کی آواز سنائی دیتی ہے۔
EPAPER
Updated: December 29, 2024, 2:58 PM IST | Ahsanul Haque | Mumbai
رام کلی اپنے بکرے کا سوچ کربڑی فکر مند رہتی ہیں۔ زندگی کے اس پڑائو پراس کا ایک ہی سہارا ہے اس کا بکرا جو ’میں میں ‘ کرتا ہے تو اس میں اُسے ماں پکارنے کی آواز سنائی دیتی ہے۔
اکیس دسمبر کو سال کا سب سے چھوٹا دن اور سب سے لمبی رات تھی۔ لکھنؤ کے پاس واقع ملیح آبادعلاقہ کےکٹولی اور کاکوری کےرحمان کھیڑا سمیت متعددمواضعات کیلئے یہ رات خوفناک تھی کیونکہ جنگل سے بھاگے ایک شیر نے جب سے اس علاقے کا رُخ کیاہے یہاں کے لوگوں کی نیندیں حرام کرکے رکھ دی ہیں۔ محکمہ جنگلات کی طرف سے شیر کو پکڑنے کیلئے تمام طرح کے حربے اختیار کئے گئے ہیں لیکن ابھی تک شیر اُن کی گرفت سے دور ہے۔ کیمرےمیں تو کئی بار نظر آیا لیکن شکاریوں کی نظروں سے اوجھل ہے۔ رات کی تاریکی میں کہیں شیر حملہ نہ کر دے اس ڈر سے لوگ تاریک رات میں سورج کی روشنی کے منتظر رہتے ہیں کہ دھوپ نکلے اُجالا ہواور سرمئی اندھیرے میں انجانے خوف سے نجات ملے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ یہاں محکمہ جنگلات کی ٹیم بھی خوف میں مبتلا ہے۔ ہوا یوں کہ ایک شام شیر محکمہ جنگلات کے مچان کے قریب آیا۔ افسران کے سامنے اس نے پنجرے کے قریب بندھے ہوئے بھینس کے بچے (پڑوا) کا شکار کیا، لیکن مچان پر بیٹھے اہلکار کچھ نہ کر سکے۔ محکمہ جنگلات کے ملازمین پر خوف اس قدر طاری تھا کہ وہ ٹرانکوئلائزرگن بھی نہیں اٹھا سکے۔ شیر دہاڑتا ہوا واپس جنگل میں چلا گیا۔ شیر کے چلے جانے کے بعد افسران صرف شور مچاتے رہے۔ اس وقت۲۰؍ مواضعات کے لوگ شیر کے خوف سے گھروں میں محصور ہیں۔
کاکوری کی رہنے والی خاتون کیلاشا نے بتایا کہ بیٹے مزدوری کیلئے باہر جاتے ہیں۔ جب تک وہ گھر واپس نہیں آجاتے طبیعت بے چین رہتی ہے۔ رات کو کسی کام کے لئے باہر نہ جانا پڑےاسلئے دن رہتے ہی سب کام نمٹا لیا جاتا ہے۔ گائوں کے بزرگ بدھا نے بتایا کہ جب سے شیر نظر آیا ہے، خوف کے سائے میں جی رہے ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ جانوروں کے چارے کیلئے جنگل اورکھیت میں جانے کی ہمت نہیں ہوتی۔ بچے جب تک گھر کےباہر رہتے ہیں ڈر لگا رہتا ہے۔ اسی طرح مارچ ۲۰۱۲ء میں بھی کاکوری کے رحمان کھیڑامیں شیرآگیاتھا۔ اس وقت بھی اس کی مہینوں دہشت تھی۔
شیر کا خوف ایسا ہے کہ ہر آدمی کو شام ہونے سے پہلے محفوظ ٹھکانے پر پہنچنے کی جلدی ہے۔ گڑریئے اور ان کی بھیڑوں کے ریوڑ ڈھلتے سورج کی سرخ گلابی دم توڑتی شعاعوں میں نرم زمین کی خاک اڑاتے تیز رفتاری سے اپنے ٹھکانوں کا رُخ کررہے ہیں۔ مویشی کا چارا سر پر رکھے کسان کھیت کے اوبڑ کھابڑ مینڈ پر تیز قدموں سے گرتے بچتے ہوئے گھر کی طرف بڑھے جارہے ہیں ۔ جنگل کے درمیان سائیں سائیں کی آواز اور پرندوں کی چہچہاہٹ پر بار بار پیچھے مُڑ کر دیکھ رہے ہیں کہ آیا شیر کہیں پیچھا تو نہیں کررہا ہے۔ کسان بیجو بتاتے ہیں کہ خوف کی وجہ سے میرے دل کی دھڑکنیں تیز ہو جاتی ہیں۔ ڈرائونے خیال اس قدر دماغ میں آنے لگتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ شاید اب میں گھر نہ پہنچ پائوں گا اور شیر میرا یہیں شکار کرلےگا۔ خوف کا عالم یہ ہوتا ہے کہ کان میں سنائی دینی والی ہر آواز شیر کی دہاڑ معلوم ہوتی ہے۔ ابھی اُس روز دیر رات گئےایک بچے کو تیز بخار آگیا۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ ڈاکٹر کے گھر تک کیسے پہنچا جائے۔ فون کرکے پڑوسیوں کو اطلاع دی گئی۔ باہر نکلنے میں سب ڈر رہے تھے۔ اتنے میں ایک نوجوان کو ترکیب سوجھی وہ مشعل کی طرح لکڑی جلائے چلنے کو تیار ہوا وہ آگے آگے اور باقی لوگ پیچھے پیچھے ٹارچ جلائے ہوئے ڈاکٹر کے گھر پہنچے۔
دسمبر کی سرد راتیں لحاف کے اندر گزرر ہی ہیں۔ برآمدے میں الائو جلانے کی کسی کو ہمت نہیں ہے۔ رات کے وقت شیر کے نکلنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ چنانچہ گائوں میں دور تک سنّاٹا چھایا رہتا ہے۔ رات کی تاریکی میں آنے والی ہر آہٹ ڈراتی ہے۔ رام کلی اپنے بکرے کا سوچ کربڑی فکر مند رہتی ہیں۔ زندگی کے اس پڑائو پراس کا ایک ہی سہارا ہے اس کا بکرا جو ’میں میں ‘ کرتا ہے تو اس میں اُسے ماں پکارنے کی آواز سنائی دیتی ہے۔ اسے وہ اپنا بیٹا مانتی اور اس کا خوب خیال رکھتی۔ دن بھر بازار میں پھل فروخت کرکے تھک ہار کر جب وہ گھر لوٹتی ہے تو بکرے کی گردن میں بندھے گھنگھرو کی آواز سن کر اس کا دل کھل اٹھتا۔ وہ دوڑ کر بکرے کی گردن سے لپٹ جاتی۔ بڑھیا خود بھوکی رہ جاتی ہے مگر بکرے کو دانا دینا نہیں بھولتی۔ صبح صبح پاس کے باغیچے سے آم کی پتیاں توڑ کر بکرے کے سامنے رکھتی اور ایک بالٹی میں پانی بھر کر بکرے کے قریب کر دیتی تبھی وہ بازار کیلئے نکلتی ہے۔ اب جب علاقہ میں شیر کی آمدہوئی ہے اسے ہروقت خوف ستاتا رہتا ہے کہ میرے غائبانے میں کہیں شیر اس پر حملہ نہ کر دے۔ اُس روز بازار جاتے ہوئے اپنی پڑوسن سے کہہ رہی تھیں کہ بہن میرے بکرے کا خیال رکھنا کہیں میری غیر موجودگی میں شیر اُس کاشکارنہ کر لے، اُس کی جدائی میرےلئے نا قابل برداشت ہے کیونکہ اُس کےگھنگھروکی آوازسُن سُن کرتومیں زندہ ہوں۔