اِس وقت وہ کسان چین کی بنسی بجا رہے ہیں جن کی فصل کٹ گئی ہے اور اناج گھروں میں محفوظ کر لئے گئے ہیں۔
EPAPER
Updated: April 20, 2025, 2:11 PM IST | Ahsanul Haque | Mumbai
اِس وقت وہ کسان چین کی بنسی بجا رہے ہیں جن کی فصل کٹ گئی ہے اور اناج گھروں میں محفوظ کر لئے گئے ہیں۔
گائوں میں یہ کھیتی کسانی کے دن ہیں۔ کسان جلدی جلدی فصلیں کاٹ رہے ہیں۔ یوپی کے متعدد اضلاع میں گزشتہ دنوں آنے والی آندھی بارش سے سب فکر مند ہیں۔ اِس وقت وہ کسان چین کی بنسی بجا رہے ہیں جن کی فصل کٹ گئی ہے اور اناج گھروں میں محفوظ کر لئے گئے ہیں۔ اُس روز جب گائوں سے لکھنؤ کیلئےنکلا تو ریلوے اسٹیشن پہنچنے تک سڑک کی دونوں جانب کسان کھیتوں میں مصروف نظر آئے۔ راستے میں ایک جگہ سے گزر رہے تھے تو دیکھا ایک چچا میاں کھیت کے پاس بنے ’مڑئی‘ کے باہر منھ میں بیڑی لگائے چار پائی پر سو رہے ہیں ۔ اُن پر سڑک سے گزرنے والی گاڑیوں کے شور کا کوئی اثر نہیں تھا۔ چچا میاں کو اس طرح بے فکری کی نیند میں دیکھا تو اچانک وہاں رُک کر ان کی تصویر اپنے موبائل کے کیمرے میں قید کرنے لگا۔ قریب سے فوٹو لینے کے چکر میں ہمارا پیر اُن کی چار پائی سے ٹکرا گیا اور وہ چونک کر اُٹھ بیٹھے۔ اِس سے پہلے کی وہ ڈانٹ لگاتے میں نے کہا...’’معاف کیجئے گا چچا ...آپ کی اس بے فکری کی نیند کو میں اپنے کیمرے میں اس لئےمحفوظ کر رہا تھاکہ ہمارے گائوں میں لوگ تھکن بچھا کر ٹوٹی پھوٹی چار پائی پر سو جاتے ہیں اور شہروں میں لوگوں کو اپنے نرم نازک بستر پر بھی اللہ کی اس نعمت کیلئے گولیاں کھانی پڑتی ہے۔ اس سے اندازہ ہوا کہ گائوں کےلوگ کھیتوں میں فصل اُگانے کیلئے محنت کرتے ہیں تو اللہ اُن کو اس کے عوض اناج کے ساتھ ساتھ چین کی نیند بھی دیتا ہے۔ ‘‘مذکورہ باتوں سے چچا میاں کا غصہ جاتا رہا اور وہ بیڑی جلاتے ہوئے گویا ہوئے ...’’بیٹا کھیتی کا کام تقریباً ۹۰؍ فیصد مکمل ہو گیا ہے ...اس لئے اب دن میں بھی سو رہا ہوں ورنہ راتوں کی نیند غائب تھی۔ اِدھر ہفتے بھر سے موسم خراب تھا آندھی اور بارش نے ہم کسانوں کو انجانے خوف میں مبتلا کر رکھا تھا۔ اُس وقت صورتحال یہ تھی کہ رات میں کہیں پٹاخے کی آواز آتی تو ایسا معلوم ہوتا کہ آسمان گرج رہا ہے چونکہ اس وقت شادی بیاہ کا موسم ہے تو اکثر رات کو بارات آنے پر پٹاخے پھوڑے جاتے ہیں اور اُس کی آواز دور تک سنائی دیتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بیوپاری کو اپنا گھوڑا بیچنے کے بعد، باپ کوگھر میں بیٹھی جوان بیٹی کے ہاتھ پیلے کرنے کے بعد اور کسان کو اپنی فصل کاٹ کر اناج گھر میں رکھنے کے بعد جو سکون کی نیند آتی ہے وہ شاید ہی کسی اور کو آتی ہو۔
رواں سال تو کسانوں کو آندھی بارش سے فصلوں کو خطرہ ہے لیکن پانچ سال قبل جب ’کورونا‘ کے دوران لاک ڈائون لگا تھا تو گویا تیار فصل پر اولے پڑ گئے۔ لاک ڈائون کے ابتدائی ایام میں جو مشکلیں پیش آئی تھیں، اس کو کسان آج بھی بھولے نہیں ہیں۔ پولیس کے ڈر سے مزدور نہیں مل رہے تھے۔ اپریل کے مہینے میں جب کسان ’ہنسیا ‘ اور ’درانتی‘ لے کر گیہوں کاٹنے کھیتوں میں ڈٹے رہتے ہیں تو اس وقت پولیس والے ڈنڈے لے کر سوشل ڈسٹنسنگ پر عمل کرانے کی ہدایت دے رہے تھے۔ اس دوران ان کے ڈنڈے کی زد میں جو بھی آ تا، بیچارا ڈر کے مارے ہفتوں گھر سے باہر نہ نکلتا۔ اُس وقت پولیس کی سختی سے بڑی تعداد میں لوگوں کی فصلیں برباد ہوئی تھیں۔ وقت پر نہ کٹنے کے سبب کتنی ہی گیہوں کی بالیاں کھیتوں میں ٹوٹ کر گر گئی تھیں۔ شہر اور قصبات کے آس پاس کی فصلیں زیادہ تباہ ہوئی تھیں کیونکہ یہاں پولیس کا پہرہ زیادہ تھا۔ ضلع ہیڈ کوارٹرز سے دور گائوں کی فصلوں کو کم نقصان ہوا تھا، یہاں پولیس کا آنا جانا کم ہوتا تھا۔ صورتحال کچھ ایسی تھی کہ کسانوں کو اپنی ہی فصل چھپ کر کاٹنا پڑ رہی تھی۔ کسان کھیتوں میں ایسے کام کرنے کیلئے نکل رہے تھے جیسے وہ چوری کرنے جارہے ہوں۔ لاک ڈائون کے تیسرے چوتھے ہفتے میں کسان لیڈروں نے جب یہ کہنا شروع کیا کہ کھیتی کسانی سے جڑی پریشانیوں کو وقت رہتے نہیں سلجھایا گیا تو بیماری سے زیادہ لوگ بھوک سے مر جائیں گےتو اس وارننگ کے بعد انتظامیہ نے کھیتی کسانی کے کاموں کیلئے اپنا رویہ نرم کیا۔
اب ہم سئی ندی کے جس پُل پر کھڑے تھے کبھی وہاں پیپے کا پُل ہوا کرتا تھا۔ گائوں سے پرتاپ گڑھ شہر جانے کیلئے جب جیپ پُل کے پاس پہنچتی تو ساری سواریاں اُتار دی جاتیں۔ جیپ کودھیمی رفتار سے پُل پار کرایا جاتا، دائیں بائیں دو افراد جیپ کے ساتھ ساتھ چلتے۔ سواریاں پیپے کے پُل سے گزر کر ندی کے اُس پار کھڑی جیپ پردوبارہ اپنی نشستیں سنبھالتیں۔ بارش کے ایام میں ندی میں باڑھ آجاتی اور پیپے کا پُل ڈوب جاتا۔ چنانچہ مہینوں گائوں والوں کاشہر سے رابطہ منقطع ہو جاتا ہے۔ ضروری کام ہونے پر لوگ کئی کلو میٹر پر گھوم کر پُل والے راستے سے شہر پہنچتے تھے۔ اُس وقت ندی کے پاس آباد گائوں میں لوگ رشتہ کرنے سے کتراتے تھے، ایک تو سیلاب کا خطرہ دوسرا راستے کا مسئلہ ہوتا تھا۔ اب شاید ہی سئی ندی کا کوئی گھاٹ ایسا ہو جہاں پُل نہ بن گیا ہو۔ چنانچہ اب نئی نسل دن میں کئی کئی بارشہر کا چکر لگاتی ہے۔ ایک وقت وہ بھی تھاجب ہمارے بزرگ شہر جانے کیلئے ’پلاننگ‘ کرتے تھے۔