• Tue, 17 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

گاؤں کی باتیں: سرسوں اور اَرہر کے پھول ایک دوسرے سے باتیں کررہے تھے

Updated: March 17, 2024, 11:59 AM IST | Hamza Fazal Islahi | Mumbai

دس فروری کی دوپہر سہ پہر میں بدل رہی تھی۔ سہ پہر میں چند ثانیے باقی تھے۔ گاؤں کے باہر کے کھیتوں میں کوئی نہیں تھا۔

When the flowers bloom in the mustard plants, not only the fields but also the entire region becomes colorful. Photo: INN
سرسوں کے پودوں میں جب پھول کھلتے ہیں تو صرف کھیت ہی نہیں پورے خطے کو خوش رنگ بنا دیتے ہیں۔ تصویر : آئی این این

دس فروری کی دوپہر سہ پہر میں  بدل رہی تھی۔ سہ پہر میں چند ثانیے باقی تھے۔ گاؤں کے باہر کے کھیتوں میں کوئی نہیں تھا۔ دھوپ سینکنے والے بھی نہیں تھے، کیونکہ دس فروری آتے آتے سردی اپنا بوریا بستر سمیٹ رہی تھی، بس اس کا ہلکا ہلکا اثر باقی تھا۔ کتے جا بجا درخت کے نیچے زمین کھود کر بیٹھے ہوئے تھے۔ اپنی محفل جمائے ہوئے تھے، کچھ گہری نیند میں بھی تھے، کچھ اپنے جسم میں گردن چھپا کرا ونگھ رہے تھے، دھوپ بھی سینک رہے تھے۔ 
  چوپالوں، کلہاڑوں اور کھلیانوں میں رات کے الاؤ کی راکھ بھی جابجاپڑی ہوئی تھی۔ الاؤ کا قصہ یہ ہے کہ سردیاں رخصت ہوتے ہوتے جلتے رہتے ہیں۔ الا ؤ تو ایک بہانہ ہوتا ہے، اصل تو محفل جما نا ہوتا ہے۔ سردیوں کی الاؤ کی محفل جمانے کی عادت جاتے جاتے جاتی ہے۔ گرمی کی آمد کے ساتھ ہی الا ؤ بجھ جاتے ہیں لیکن یہ محفلیں اجڑتی نہیں ہیں، آباد رہتی ہیں، بس اس محفل میں اندھیرا ہو جاتا ہے، موبائل کی لائٹ ہی سے اس میں اجا لا ہوتا ہے اوریہ کسی پلیا کے چبوترے یا چارپائی پر سجتی ہیں۔ 
  دیکھئے دوپہر سے رات کی باتیں  ہونے لگیں، پتہ ہی نہیں چلا۔ اس دن دوپہر اور سہ پہر کے درمیان کے سناٹے میں ہلکی ہلکی ہوا کے درمیان گیہوں  کی فصل لہلہارہی تھی۔ سر سوں کے پھول اپنے حسن کا جادو بکھیر رہے تھے۔ اس کے پودے جھک چکے تھے، ان کے آس پاس ارہر کے کھیت تھے۔ ان میں بھی پھول آچکے تھے۔ سرسوں اور ارہر دونوں کی حالت ایک جیسی تھی، دونوں کے کچھ ہی پھول باقی تھے جو پھول پھل نہیں بنے تھے، وہ بھی تازہ نہیں  تھے۔ ویسے زیادہ تر پھول پھل میں  بدل چکے تھے، حالانکہ یہ پھل ابھی پکے نہیں  تھے، ان کی سبزی باقی تھی، فصل پکنے اور تیار ہونے میں ا چھا خاصا وقت تھا۔ 

یہ بھی پڑھئے: گاؤں کی باتیں: ’انارے‘ پر بال بنانے کا منظر، سوشل میڈیا کا ڈسا ہوا حجام اور’ کھٹکا‘ مارنے کاقصہ

چلتے چلتے یہ کالم نگار کھیتوں کے اس حصے میں رک گیا جہاں سرسوں اور ارہر کے پودے ایک دوسرے سے گلے مل رہے تھے، مسکرا رہے تھے، بہت دلکش منظر تھا، کون اس کے سحرمیں گرفتار نہ ہوتا ؟ اس کی دلفریبی میں کون نہ کھو جاتا ؟ کسے یہ ملاقات بھلی نہ لگتی؟سرسوں  کے کھیت کے فوراً بعدار ہر کا کھیت تھا مگر دونوں کھیتوں کے آخری حصے میں پودے ایک دوسرے سے بہت قریب تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ارہر اور سرسوں کے پودے سر جوڑے کھڑے ہیں۔ دونوں کے پھول ایک دوسرے سے باتیں بلکہ خوش گپیاں کررہے ہیں۔ دو ر دور تک کھیتوں  کا ایک سلسلہ تھا، ہر طرف شادابی تھی، ہر یالی تھی۔ 
اس کالم نگار نے دور تک نظر دوڑ ائی۔ آج سے دس بیس سال پہلے کے کھیتوں سے موازنہ کیا، ایک واضح فرق نظر آیا۔ ان کھیتوں سے گنے کی فصل تقریبا ً غائب ہوگئی تھی، بہت ڈھونڈنے پر کہیں کہیں  چندکھیت کے ٹکڑے ایسے تھے جن پر گنے کی فصل لہلہارہی تھی۔ ایک زمانہ تھا جب گیہوں ، ارہر، مٹر، چنا، لہسن، پیاز اور سرسوں کے ساتھ گنے کی فصل بھی ہوتی تھی۔ اس موسم میں ا ن کی کٹائی ہوتی تھی، انہیں کلہاڑ میں  لایا جاتا تھا، اچھی خاصی چہل پہل ہوتی تھی، آپا دھاپی ہوتی تھی، دوڑ بھاگ ہوتی تھی۔ کچھ لوگ سروں پر گنے کا بوجھ لادےکلہاڑ کی طرف بڑھتے جن میں خواتین پیش پیش رہتی تھیں ۔ بیل گاڑیوں پر بھی گنے لا د کر لائے جاتے تھے۔ راستے میں بیل گاڑی روک روک کر بچوں میں گنے تقسیم کئے جاتے تھے۔ کالم نگار کو یاد ہے کہ مارچ کا پہلا عشرہ تھا، ایک بار بچپن میں اپنے دوستوں کے ساتھ غلیل لے کر نکلا تھا، دوسرے گاؤں میں تھا، کوئی شکار ہاتھ نہیں آیا تھا، ہم ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں کا چکر کاٹ رہے تھے، جنگل میں  بھٹک رہے تھے۔ ایک جگہ اتنی پیاس لگی کہ گلا خشک ہونے لگا۔ اتفاق سے ایک بیل گاڑی وہاں سے گزر رہی تھی۔ بیل گاڑی والے نے اس ویرانے میں اپنی سواری روکی، ہم بچوں کو قریب بلا یا اور سب کو ایک ایک گنا دیا۔ اس وقت گنا پا کر جو خوشی ملی، اسے لفظوں میں  بیان نہیں  کیا جاسکتا۔ ننھے شکار ی شکار نہ ملنے کا غم بھول گئے اور اس طرح پیاس بجھنے پر پھولے نہ سمائے۔ گنا چوہتے (چوستے) ہوئےگھر لوٹ گئے۔ گھر پہنچے تو پاؤں دھول سے اٹ گئے تھے، پہلی فرصت میں  ہینڈ پمپ کے قریب گئے، ہاتھ پاؤں دھلنے کے بعد پیاس بجھائی۔ 
  کھیتوں میں کھڑے کھڑے بچپن کا یہ واقعہ تازہ ہوگیا۔ اب ایسا صرف خواب میں  ہوسکتا ہے، کیونکہ اس دور میں  گنا ہی بچانہیں  ہے۔ بیل گاڑی بھی قصۂ پارینہ ہوچکی ہے۔ اس طرح غلیل لے کر گاؤں گاؤں پھرنے والے ایسے ننھے شکاری بھی نہیں  ہیں   جن کے جوش کے سامنے مئی جون کی دوپہری بھی پھیکی پڑ جاتی تھی۔ کھیتوں میں ایک اور تبدیلی ہوئی ہے۔ وہ یہ ہے کہ اب گیہوں کے کھیتوں کا رقبہ بھی کم ہوگیا ہے۔ ایک دور تھا جب تا حد نگاہ اسی کی فصل لہلہاتی تھی۔ گیہوں کی سنچائی کرنے والے کئی کئی دن تک خالی ہی نہیں  ہوتے تھے۔ اب گیہوں کے مقابلےمیں ارہر، سرسوں اور چنا کی بوائی زیادہ ہونے لگی ہے کیونکہ گیہوں کے مقابلے میں ان کی بار بار سنچائی نہیں کرنی پڑتی ہے، اس میں  محنت بھی کم ہوتی ہے۔ فصل تیار ہونے پر پودوں سے بیج الگ کرنے میں زحمت بھی نہیں  ہوتی ہے۔ بہت آسانی سے یہ مرحلہ طے ہوجاتا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK