Inquilab Logo Happiest Places to Work

اب کوئی کھلیہان میں کام نہیں کرتا، سارا کام کھیتوں ہی میں نمٹ جاتا ہے

Updated: April 13, 2025, 2:23 PM IST | Ahsanul Haque | Mumbai

ایک وقت تھا جب کسانوں کا سارا انحصار کھیتوں پر ہی تھا، یعنی جب ان کی فصلیں اچھی ہوتیں تو ان کا سال اچھا گزرتا تھا۔ اب کسانوں کے بچے بھی شہروں میں کمانے چلے گئے ہیں تو ان کے حالات بھی بدل گئے ہیں۔

This used to be a barn, but now that it is no longer in use, children have turned it into a playground. Photo: INN.
یہ پہلے کھلیہان ہوا کرتا تھا لیکن اب چونکہ اس کا استعمال نہیں رہا تو بچوں نے کھیل کا میدان بنا لیا ہے۔ تصویر: آئی این این۔

اپریل کا مہینہ چل رہا ہے ہر طرف فصلیں پک کر تیار ہیں۔ کسان دن رات کھیتوں میں محنت کرتے نظر آرہے ہیں۔ ہندی کلنڈر کے مطابق ’چَیت‘ کا مہینہ چل رہاہے۔ اس مہینے کا ذکر بچپن میں خوب ہوا کرتا تھا۔ ’چَیت‘ میں کسان کے پاس فرصت نہیں ہوا کرتی ہے۔ کسان کیلئے یہ مہینہ بہت اہم ہوتا ہے۔ ایک وقت تھا جب کسانوں کا سارا انحصار کھیتوں پر ہی تھا، یعنی جب ان کی فصلیں اچھی ہوتیں تو ان کا سال اچھا گزرتا تھا۔ اب کسانوں کے بچے بھی شہروں میں کمانے چلے گئے ہیں تو ان کے حالات بھی بدل گئے ہیں۔ اب وہ بھی صرف کھیتی کے سہارے نہیں ہیں۔ ’چیت‘ کے مہینے کا ایک محاورہ ہے جو گائوں کے لوگ اکثر استعمال کرتے ہیں۔ ’وہ فلاں شخص ’چَیتا ‘ گیا ہے ‘۔ مطلب ’چیت‘ کی فصل سے اس کے دن اچھے ہو گئے ہیں تو وہ سیدھے منھ کسی سے بات نہیں کررہا ہے۔ آج بھی پرانے کسانوں کے بچے جب اِدھر اُدھر فضول میں پیسے خرچ کرتے ہیں ، تو گھر کے بڑے بزرگ اس فضول خرچی کرنے والے پر غصہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ’تم بہت چَیتا‘ گئے ہو۔ یا جب کوئی ممبئی یا بڑے شہروں سے کما کر گائوں آتا ہے اور پانی کی طرح پیسے بہاتا ہے تو اس کو بھی یہ جملہ سننا پڑتا ہے۔ 
گزشتہ ایک دہائی میں کھیتی کسانی کا طریقہ بہت بدل گیا ہے۔ اب زیادہ تر کام مشینوں سے ہوتے ہیں۔ اب گائوں میں آنے والی نئی نئی دلہنوں کی چوڑیاں کھیتوں میں گیہوں کاٹتے وقت نہیں کھنکتی ہیں بلکہ کھٹ کھٹ کرتی ہوئی نئی نئی قسم کی مشینوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ اب کھلیہان ویرانے پڑے ہیں، کوئی کھلیہان نہیں لگارہا ہے بلکہ سارا کام کھیتوں ہی میں نمٹ جاتا ہے۔ پہلے گیہوں کٹنے کے ہفتہ بھر پہلے ہی سے کھلیہانوں کی صفائی ستھرائی اورلِپائی پُتائی ہوا کرتی تھی۔ 
رواں سال آم میں ’بور‘ (پھول) خوب آئے ہیں۔ اب تو ان میں چھوٹے چھوٹے’ ٹکورا‘(کیری)بھی لگ گئے ہیں۔ ایک باغ میں ایک چچا میاں بیٹھے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ اگر آندھی طوفان نہ آیا تو اس بار گھروں میں آم رکھنے کی جگہ نہیں ہوگی۔ باغ میں کھیل رہے کچھ بچے آم کے ’بور‘ توڑ کر کھا رہے تھے۔ آم کے درخت کے پاس بیٹھے بھلن چچا دور گیہوں کے کھیت کے پاس لگے بیرکے پیڑ کی طرف اشارہ کرکے بتانے لگے کہ ابھی پندرہ روز پہلے تک یہ سب بچے وہیں جمع رہتے تھے۔ گیہوں کی فصل کو روندتے ہوئے بیر توڑا کرتے تھے، شور سن کر جب تک کسان وہاں پہنچتا، تب تک بچے بیر توڑ کر نو دو گیارہ ہو جاتے۔ ہمارے بچپن میں جتنے بیر کے پیڑ تھے، اب اُتنے پیڑ کہاں ؟ اُس قت تو بیر توڑ کر کھاتے اور جھولے میں بھر بھر کر گھر بھی لاتے تھے۔ اس کے بعد اُس بیر کو سکھایا جاتا تھا، دادیاں اُس کا چورن بناتیں اور گرمی میں ہم بچے اسے بڑے مزے سے کھاتے تھے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ اُن دنوں مفت میں ملنے والے بیر بازاروں میں ۸۰؍ روپئے کلو فروخت ہو رہے ہیں ۔ 
موسم خزاں میں درختوں کی پتیاں جھڑ گئی تھیں ، اب اُن میں نئی نئی پتیاں اور کلے نکل آئے ہیں۔ نیم، پاکر، شیشم اور شہتوت کی خوشبو سے بغیا مہک رہی ہے۔ باغ میں کوئل کی کوک اور چڑیوں کی چہچہاہٹ سے شام سہانی ہو رہی ہے۔ یہاں بیل پکنے کے قریب ہیں اور ہرے ہرے پیڑ پر کالی کالی شہتوت پک کر تیار ہے۔ فروری -مارچ میں گائوں کے بچے صبح شام کھیتوں کی طرف نظر آتے تھے۔ کہیں وہ چنے کا ’جھاڑ‘ اُکھاڑ تے تو کسی کھیت سے مٹر کی پھلیاں توڑتے اور باغ میں ایک جگہ پتیاں جمع کر کے بھون کر کھاتے، جسے گائوں میں ’ہُورہا ‘کہتے ہیں۔ اب کھیتوں کی زیادہ تر فصلیں پک گئی ہیں اور بیشتر جگہوں  پراُن کی کٹائی بھی ہو رہی ہے۔ چنانچہ اب گائوں کے بچوں کا رُخ باغوں کی طرف ہے، بیل اور شہتوت کی تلاش میں دور دور کا چکر لگارہے ہیں۔ پہلے بچے آم کی پتیوں سے پنکھی بناتے تھے جسے ’بھنبھنیا‘کہا جاتا تھا۔ آم کی پتی کو کاٹ کر ببول کے کانٹے میں پھنسادیا جاتا تھا اور تیز ہوا چلنے پر وہ پنکھی ناچتی تو بچے اُسے ہاتھ میں لے کر باغ بھر میں دوڑتے تھے۔ 
اب گائوں کے حالات میں بہت تیزی سے تبدیلیاں آئی ہیں۔ پہلے گائوں میں لوگ گیہوں کاٹ کر آتے تو مہوے کے پیڑ کے نیچے ہاتھ کا پنکھا لے کر کچھ دیر بیٹھتے، یہاں ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا میں اپنی تھکن دور کرتے تھے۔ لیکن اب کھیتی کسانی کا کام کرکے لوگ اے سی کی کولنگ میں آرام کرتے ہیں۔ اب گائوں میں مچھروں سے بچنے کیلئے لوگ مچھر دانی کا استعمال کم کرتے ہیں، یہاں بھی اب مچھروں کو بھگانے کیلئے مورٹین جلائی جاتی ہیں۔ پہلے لوگ شام کو گھر کے باہر نیم کی پتیاں جلا دیتے تھے، جس کی وجہ سے مچھروں کا نام ونشان نہیں رہتا تھا۔ گائوں میں نیم کی پتیاں آج بھی ہیں لیکن اس کو ایک جگہ جمع کرنے میں محنت لگتی ہے، اس کے مقابلے مورٹین جلانا زیادہ آسان ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK