ان خانہ بدوشوں سےمتعلق کہا جاتا ہے کہ یہ عرب سے عربی کپڑے، ملتان سے ملتانی مٹی اور گجرات کے ساحلی علاقوں سے نمک لے کر ہندوستان کے مختلف حصوں کا سفر کرتے تھے۔
EPAPER
Updated: March 02, 2025, 2:46 PM IST | Ahsanul Haque | Mumbai
ان خانہ بدوشوں سےمتعلق کہا جاتا ہے کہ یہ عرب سے عربی کپڑے، ملتان سے ملتانی مٹی اور گجرات کے ساحلی علاقوں سے نمک لے کر ہندوستان کے مختلف حصوں کا سفر کرتے تھے۔
خانہ بدوش جنہیں گائوں میں ’ گھومنتو‘ اور’ کنکالی‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، گزشتہ چند برسوں میں اب یہ گائوں میں کم ہی نظر آتے ہیں۔ پہلے گائوں کے باغوں میں کئی کئی مہینے ان کا ڈیرا جما رہتا تھا۔ باغوں سے کھیتوں تک ان کے بچے خوب دھما چوکڑی مچاتے تھے۔ ان کے ساتھ مویشیوں کا ایک بڑا قافلہ بھی ہوتا تھا، جس میں بیل اور گایوں کی تعداد زیادہ ہوا کرتی تھی، بھینس اور بکریاں کم ہی نظر آتی تھیں۔ خانہ بدوش قبیلے کے مرد مویشیوں کی خرید و فروخت کا کام کرتے تھےجبکہ عورتیں خیموں میں مختلف قسم کی دستکاری کرتیں اور شام کو گائوں میں جاکر وہاں گھروں میں خواتین کے کاموں میں ہاتھ بٹایا کرتی تھیں۔ بعض بوڑھی خواتین کے سروں پر تیل رکھ کرمالش کرتیں اور اس خدمت کے عوض وہ اپنی ضرورت کی اشیاء اُس گھر سے حاصل کر تی تھیں۔ ایسے موقعوں پر گھروں کی بہوئیں آپس میں سر گوشیاں کرتیں کہ یہ دیکھو ذرا سا سر پر تیل رکھا اور من بھر اناج لے کر چلتی بنیں ۔ اُس وقت گھر کے بزرگوں کے سامنے بھلا بہوئوں کی کیا مجال کہ اُف کرتیں۔ دادی اور نانی کا فیصلہ حتمی ہوا کرتا تھا۔ سر پر اناج کی گٹھری رکھنے کے بعد ڈیرے سے آنے والی خاتون کہتی کہ اماں تر ترکاری بھی نہیں ہے اگر آپ کہتیں تو کھیت سے لیتی جاتی۔ ٹھیک ٹھیک ہے لے لو کون منع کیا ہے۔ یہ کہتے ہوئے وہ گھر کے کسی بچے کو آواز دیتیں ۔ جا ان کے ساتھ کھیت دکھا دے، اس کو سبزی کی ضرورت ہے۔ یہ ڈیرے میں رہنے والیاں گائوں کی خواتین سے ایسا تعلق بنا لیتیں کہ ان کے سامنے سگے رشتے بھی کمزور معلوم پڑنے لگتے تھے۔ بزرگ خواتین سے ان کی خوب بنتی تھی۔ دادی، اماں اور خالہ کہہ کر ان سے خوف فائدہ اٹھاتی تھیں۔
ان خانہ بدوشوں سےمتعلق کہا جاتا ہے کہ یہ عرب سے عربی کپڑے، ملتان سے ملتانی مٹی اور گجرات کے ساحلی علاقوں سے نمک لے کر ہندوستان کے مختلف حصوں کا سفر کرتے تھے۔ راجستھان کے صحرائی علاقوں سے گزرتے ہوئے ان لوگوں نے اپنے قیام کے دوران پانی کے حصول کیلئے کنویں بھی کھودے۔ مسلسل سفر کرنے والے اس گروہ کے اپنے اپنے گائوں بٹے ہوئے تھے اوراُس گائوں کےباشندے ان لوگوں کو ان کے ناموں سے جانتے تھے۔ اُس وقت ہمارے یہاں جن خانہ بدوشوں کا گروپ آتا تھا اُن میں جبار، مُنا، للّن، محبوب اور پھیکے کے نام آج بھی یاد ہیں۔ یہ لوگ دن بھر گائوں گائوں جا کر مویشی خرید کر لاتے تھے تو رات کو موسیقی کی محفل جمتی تھی۔ بہترین آواز میں قوالی گاتے تھے، ہارمونیم اور ڈھول بھی اچھی بجاتے تھے۔ مجھے یاد آتا ہے کہ مغل اعظم کاوہ گیت .... ’بے کس پہ کرم کیجو سرکار مدینہ‘ کو اتنے خوبصورت انداز میں گاتے کہ اُسے سننے کیلئے دھیرے دھیرے پورا گائوں جمع ہو جاتا تھا، پھرفرمائش ہوتی کہ محبوب بھائی ذرا ... ’بھردو جھولی میری‘... بھی سناتے جائیے....دوسری طرف سے آواز آتی ....دو ہنسوں کا جوڑا بجھر گیو رے بھی گا دیجئے۔ اس طرح یہ محفل نصف شب تک جاری رہتی۔ یہ خانہ بدوش مذہبی امور سےدور رہتے تھے لیکن رمضان میں جمعۃ الوداع اور عیدین کی نماز کا خصوصی اہتمام کرتے تھے۔ صبح ہی سے نہانے کیلئے کنویں پر جمع ہو جاتے، بچوں کو بھی تیار کرتے۔ مسجد جاتے وقت شیرینی ضرور ساتھ لے جاتے تھے۔
مختلف جڑی بوٹیوں کے بارے میں جو علم ان لوگوں کے پاس تھا شاید ہی اب کسی کے پاس ہو۔ پیٹ کی گیس، قبض اور متلی وغیرہ کا چٹکیوں میں علاج کردیتے تھے۔ یہ بوٹیاں سانپ ڈسنے پر بھی بہت کام آتی تھیں ۔ ان کا دعویٰ تھا کہ سانپ کا ڈسا ہوا شخص اگر ان کے پاس زندہ پہنچ جائے تو وہ مر نہیں سکتا۔ ان کے پاس ایک ایسی جڑی بوٹی تھی کہ اس کے پلاتے ہی سانپ کے ڈسے ہوئے شخص کو قے ہوتی تھی اور وہ تھوڑی دیر میں بالکل بھلا چنگا ہو جاتا تھا۔ اُن کی اس جڑی بوٹی کا علم ہمارے علاقے میں ایک پنڈت جی کو ہے۔ ان کے یہاں بھی سانپ کے ڈسے ہوئے لوگ پہنچتے ہیں اور ٹھیک ہو کر گھر لوٹتے ہیں۔ خانہ بدوشوں کی کاریگری بھی خوب تھی۔ یہ کھیتی کسانی کے کام آنےوالے لوہے کے اوزار بنانے کے بھی ماہر تھے۔ یہ بڑھئی کا کام بھی اچھی طرح جانتے تھے۔ چارپائیاں ، تخت، خواتین کے بیٹھنے کیلئے پیڑھی بڑی خوبصورتی سے تیار کرتے تھے۔ ان کی اسی کاریگری کے لوگ دیوانے تھے۔ گائوں میں خیمہ زن ہونے کیلئے لوگ ان کا مہینوں انتظار کرتے تھے۔ مویشیوں کی خرید و فروخت کی ان کی اپنی الگ زبان تھی، وہ اس دوران خامس، اثنین اور ثالث جیسے الفاظ کا استعمال کرتے تھے، اس وقت تو ہمیں اس کی سمجھ نہیں تھی، اب معلوم ہوا کہ وہ تو عربی بولتے تھے۔ گائوں کے ایک بزرگ سےمعلوم کیا تو پتہ چلا کہ اب ان خانہ بدوشوں کے پاس اپنا ٹھکانہ ہو گیا ہے، یعنی وہ اپنے مکان کے مالک ہو گئے ہیں۔ اب وہ مختلف گائوں میں بس گئے ہیں۔ ان کے بچےاِدھر اُدھر خیموں میں بھٹک نہیں رہے ہیں بلکہ اسکولوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ بڑی خوشی ہوئی۔