Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

کھیتوں میں جھومتی گیہوں کی بالیاں رمضان کا استقبال کرتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں

Updated: March 09, 2025, 2:00 PM IST | Ahsanul Haque | Mumbai

مارچ میں چلنے والی تیز ہوائیں پتوں کے جھڑنے کی رفتار اور بھی تیز کردیتی ہیں۔ ایسے خوبصورت موسم کے کیاکہنےکہ ہوائوں سے جھومنے والی گیہوں  کی بالیاں ماہ رمضان کا استقبال کرتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔

These days, wheat ears are fluttering in the fields, bringing a wave of joy to the faces of farmers. Photo: INN.
ان دنوں کھیتوں میں گیہوں کی بالیاں لہلہا رہی ہیں جنہیں دیکھ کر کسانوں کے چہروں پرخوشی کی لہردوڑ جاتی ہے۔ تصویر: آئی این این۔

موسم بہار کے ساتھ برکتوں کامہینہ شروع ہو گیا ہے۔ صبح شام ٹھنڈی ہوائیں چل رہی ہیں۔ دھوپ میں گرمی ہے تو چھائوں میں سردی کا احساس ہوتا ہے۔ درختوں کے پتے خشک ہو کر باغوں میں بچھ جاتے ہیں۔ مارچ میں چلنے والی تیز ہوائیں پتوں کے جھڑنے کی رفتار اور بھی تیز کردیتی ہیں۔ ایسے خوبصورت موسم کے کیاکہنےکہ ہوائوں سے جھومنے والی گیہوں  کی بالیاں ماہ رمضان کا استقبال کرتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔ ارہر کے پھولوں نے اب پھلیوں  کی شکل اختیار کر لی ہے۔ باغوں میں آم کے ’بور‘ مسکرا رہے ہیں، خوشبو بکھیر رہے ہیں۔ 
اب تو گائوں میں زیادہ تر گھروں میں گیس سلنڈر ہو گئے ہیں۔ مجھے رمضان کے وہ دن یاد آتے ہیں جب لکڑیاں جلا کر چولہے پر کھانا تیار ہوتا تھا۔ اُس وقت گائوں کے اندر ایسا تھا کہ رمضان شریف میں دن کے پہلے پہر اگر کسی کے گھر سے دھواں اٹھ جائے تو لوگ اُس کو عیب سمجھتے تھے۔ وہ گھر گائوں والوں کی سیاہ فہرست میں شامل ہو جاتا تھا۔ سارے گائوں والے اُس کا بائیکاٹ کر دیتے تھے کہ آپ کے گھر سے دھواں اُٹھ رہاتھا، کھانا پک رہا تھا۔ دن میں کھانا پکنے کی اُسی گھر کو رعایت تھی، جہاں کوئی بیمار ہو یا چھوٹے بچے ہوں۔ 
اپریل۔ مئی کے رمضان کے مقابلے مارچ کا رمضان کسانوں کے لئے راحت بھرا ہے۔ اس ماہ میں نہ گیہوں کاٹنے کی فکر ہے اور نہ ہی اُس کی سینچائی کا انتظام کرنے کیلئے دوڑ بھاگ کرنا ہے۔ اپریل، مئی میں جب گیہوں کی کٹائی ہوتی ہے تو اُس وقت روزے کی حالت میں یہ محنت بھرا کام ذرا مشکل ہوتا ہے۔ اُس میں بھی روزہ دار سحری کھانے کے ساتھ ہی علی الصباح گیہوں کاٹنے کا کام شروع کرتے ہیں اور سورج طلوع ہونے تک اپنا کام تمام کر لیتے ہیں۔ اب تو لوگوں کے پاس موٹر سائیکل اور دیگر سہولیات ہو گئی ہیں ۔ اُس وقت مجھے یاد آتا ہے ’پاہی‘ (کھیتوں کی رکھوالی کیلئے عارضی گھر) پر رہنے والے لوگ عصر بعد گھر آتے تھے اور ساتھ میں افطار اور سحر کا سامان لے کر مغرب سے پہلے کھیت پہنچ جاتے تھے۔ وہیں ان کا روزہ کھلتا تھا اوریہیں اُن کی سحری ہوتی تھی۔ اُس وقت مساجد میں مائیک نہیں تھے، پھر بھی دور سے اذان کی آواز سنائی دیتی تھی۔ گھر کے باہر نیم کےدرخت کے نیچے جب افطار کا دستر خوان سج جاتا تھا تو گھر کے کچھ بچے باغ کے پاس بھیٹا (اونچی جگہ) پر چڑھ کر اذان سُننے کیلئے کھڑے ہو جاتے تھے اور جیسے ہی اُن کے کان میں اذان کی آواز پڑتی وہ شور مچاتے بھاگتے اور اِدھر روزہ دار اپنا روزہ کھولتے۔ حالانکہ اُس وقت لوگوں کے پاس گھڑیاں تھیں لیکن وہ افطار اذان کی آواز پر ہی کیا کرتے تھے۔ اُس وقت بچوں کی روزہ داروں کیلئے مسواک لانے کی بھی اہم ذمہ داری ہوا کرتی تھی۔ وہ افطار سے قبل نیم اور ببول کی مسواک لاکر دیتے اور روزہ داروں کی دعائیں لیتے تھے۔ 
اُس وقت آج کی طرح اتنے حفاظ نہیں تھے۔ چنانچہ رمضان شروع ہونے سے قبل گائوں کے لوگ ضلع کے بڑے مدارس سے رابطہ کرتے تھے۔ وہاں گائوں اور مسجد کا نام نوٹ کرایا جاتا تھا۔ چاند والے دن جہاں شام کو لوگوں کی نگاہیں آسمان میں چاند تلاش کرتی تھیں وہیں مسجد کے ذمہ دار حافظ صاحب کا راستہ دیکھ رہے ہوتے تھے۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا اِدھر آسمان میں چاند کا دیدار ہوتا اُدھر سڑک پر حافظ صاحب نظر آجاتے تو گائوں والوں کی خوشیاں دوبالا ہو جاتی تھیں۔ پُر زور طریقے سے حافظ صاحب کا استقبال ہوتا۔ کوئی حافظ صاحب کا بیگ پکڑتا کوئی اُن کا تھیلا اُٹھا تا۔ گائوں میں آنے والے اِس مہمان کی بڑی خاطر تواضع ہوتی۔ لوگ حافظ صاحب کے قدموں میں بچھتے نظر آتے تھے۔ گائوں بھر کے بچے اُن کی خدمت میں لگے رہتے تھے۔ حالانکہ آج بھی تراویح پڑھانے کیلئے جس گائوں میں حفاظکا قیام ہوتا ہے ان کی خاطر تواضع میں کوئی کمی نہیں ہوتی ہے۔ لیکن اُس وقت اُس انتظار کا اپنا الگ ہی لطف تھا۔ اب تو پل پل کی خبر موبائل پر ملتی رہتی ہے۔ راستہ بھٹکنے کا مسئلہ ختم ہو گیا ہے لوگ سیدھے لوکیشن پر پہنچ جاتے ہیں۔ 
رمضان کے تعلق سے ایک دلچسپ قصہ ہے آپ بھی سنئے...ہاں تو ہمارے گائوں کے اُن چچا میاں کا بیڑی اور تمباکو نوشی میں کوئی ثانی نہیں تھا۔ پورے دن روزہ رکھنے کے بعد عصر کے وقت تک ان کی بیڑی اور تمباکو کی طلب انتہا کو پہنچ جاتی۔ ایسی صورت میں ان کا سارا غصہ گھر میں پلے مویشیوں پر اُترتا تھا۔ وہ لاٹھی لئے کبھی بھینسوں کو پیٹتے اورکبھی بکریاں ان کی عتاب کا شکار ہوتیں۔ مویشیوں کی چرہی کے پاس کھڑے ہو کربڑ بڑاتے...اتنی محنت سے ہرا چارا کاٹ کر لائے ہیں پھر بھی نہیں کھا رہے ہو۔ روزہ ہم پر فرض ہے، تم پر نہیں یہ کہتے ہوئے شروع ہو جاتے ...دے لاٹھی دے لاٹھی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK