اسی گیارہ دسمبر کی ایک دوپہر تھی،دھلی دھلی سی، اجلی..آسمان بالکل صاف تھا۔ چاروں طرف دھوپ کھلی ہوئی تھی۔ پچھوا ہوا چل رہی تھی۔
EPAPER
Updated: December 17, 2023, 1:20 PM IST | Hamza Fazal Islahi | Mumbai
اسی گیارہ دسمبر کی ایک دوپہر تھی،دھلی دھلی سی، اجلی..آسمان بالکل صاف تھا۔ چاروں طرف دھوپ کھلی ہوئی تھی۔ پچھوا ہوا چل رہی تھی۔
اسی گیارہ دسمبر کی ایک دوپہر تھی،دھلی دھلی سی، اجلی..آسمان بالکل صاف تھا۔ چاروں طرف دھوپ کھلی ہوئی تھی۔ پچھوا ہوا چل رہی تھی۔ سردیوں میں عام طور پر یہی ہوا چلتی ہے،دسمبر کے مہینے میں یہ سردی بڑھادیتی ہے اور بادلوں کو بھگادیتی ہے، آسمان کو صاف رکھتی ہے۔عام طورپر نصف دسمبر تک پچھوا ہوا ہی چلتی ہے۔ پھر اس کا زور کم ہوتا ہے اور پروائی چلتی ہے۔وہ اپنے ساتھ بادلوں کی فوج لے کر آتی ہے، سورج کو چھپا دیتی ہے،اس کے چند دن بعد کہرا چھا جاتا ہے،کہرا بھی گھڑی دو گھڑی نہیں ،پہلے پہل آدھے دن کا مہمان رہتا ہے، پھر دیکھتے ہی دیکھتے پورے دن اور رات پر قبضہ جمالیتا ہے، اندھیرا ہونے کے بعد بھی نہیں جاتاہے۔ایک پل کیلئے بھی پیچھا نہیں چھوڑتا ہے۔ کئی کئی دن سورج کو منہ دکھانے نہیں دیتا۔ وقت کے ساتھ دھند کی دبیز تہیں چھاجاتی ہیں۔ دانت بجنے والی سردی کا احساس دلاتی ہیں ، ایسا غضب ڈھاتی ہیں کہ گاؤں کی گلی گلی میں الاؤ کی محفلیں آباد ہوجاتی ہیں ، مویشی بھی گرم لباس پہن لیتے ہیں ۔ابھی دسمبر کا رنگ نہیں چڑھا ہے لیکن سردی بڑھتی ہی جارہی ہے۔ لوگ باگ دھوپ سینک رہے ہیں۔ مویشی بھی شام تک دھوپ میں پڑے رہتے ہیں۔
اس دن ساڑھے بارہ دوپہر میں گاؤں کے باہر کھیت کھلیان والے حصے خالی تھے، سڑک اور پگڈنڈی پر بھی چہل پہل نہیں تھی۔ کہیں کہیں اکادکا گاؤں والے ہی چل پھر رہے تھے۔کسان تو کسان ہیں ،وہ چھٹی کہاں لیتے ہیں ؟وہ ہرے بھرے کھیتوں میں نظر آرہے تھے، ساگ سبزی کھوٹ(توڑ)رہے تھے، آم اور امرود کے درختوں میں پانی دے رہے تھے۔ پیاز کی روپائی کیلئے کیاری تیار کررہے تھے، آلو کے کھیتوں کی سنچائی کررہے تھے، لہسن کی نرائی کررہے تھے۔ گیہوں کے کھیتوں کا جائزہ لے رہے تھے، مٹر اور چنے کے پودوں کو ہاتھوں سے چھورہے تھے، ان کی پتیوں کو الگ الگ زاویے سے دیکھ رہے تھے۔ سرسوں کے پیلے پیلے پھولوں کو دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔ ارہر کی پھولے اور اکا دکا پھلے پودوں میں بھی جانے کیا تلاش کررہے تھے؟
ایک کھیت میں سرسوں کے پودے اپنے دلفریب پھولوں کے ساتھ پچھوا ہوا کے ساتھ رقص کررہے تھے، عجب بات یہ ہے کہ ان کا رقص کوئی نہیں دیکھ رہا تھا۔ سامنے ایک خالی کھیت میں مویشی تھے مگر وہ اپنی دنیا میں مست تھے،سرسوں کی طرف دیکھ بھی نہیں رہے تھے۔گائیں اور بھینسیں چپ چاپ دھوپ میں پڑی تھیں ، کچھ گائیں اور بھینسیں دھوپ میں نیند کے مزے لوٹ رہی تھیں ۔ایک جرسی گائے گردن اوپر کرکے بیٹھی تھی، اس کی پیٹھ پر ایک کوا بیٹھا کائیں کائیں کررہا تھا۔
ایک پڑوا(بھینس کا بچہ) کھڑا تھا، وہ بھی آنکھ بند کئے ہوئے تھا، ایسا لگ رہا تھا کہ کھڑے کھڑے سورہا ہے۔یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، پڑوے اپنی اس طرح کی الٹی سیدھی حرکتوں کیلئے بدنام ہیں ۔ ندی یا پوکھری جانے والے بھینس کے ساتھ پڑوا بھی لے جاتے ہیں ، یہ راستے بھر پریشان کرتے ہیں ، کہیں بھی رک جاتے ہیں ۔اس کالم نگار نے دیکھاہےکہ ایک دن گاؤں میں تمام مویشی کچےراستے پر معمول کے مطابق چل رہے تھے۔ اچانک ایک پڑوا رک گیااور کسی طرح آگے ہی نہیں بڑھ رہاتھا۔ڈنڈوں کی بارش کی گئی،آگے کھینچا گیا،ہاتھ سے دھکا دیا گیا لیکن پڑوا تو پڑوا تھا۔ ٹس سے مس نہیں ہو رہا تھا۔پیچھےسے ایک بائیک آگئی۔ بائیک سوار لگاتار ہارن بجا رہا تھا۔ تنگ آکر مویشیوں کے مالک نے سختی کی۔ زور لگا کر جیسے تیسے اسے ہٹایا۔ یہ کالم نگار مالک کا چہرہ دیکھ رہا تھا، جب جب ہارن بجتا ، وہ اسی طرح جھینپ جاتا، جیسے کوئی اپنے بیٹے کی غلطی پر شرمندہ ہوتا ہے،اسی لئے گاؤں میں بیوقوف لڑکے اور بچے کو پڑوا کہا جاتاہے۔
چلئے پھر وہیں ، دھوپ میں کھڑے پڑوے کی بند آنکھوں پر مکھیاں ہی مکھیاں تھیں ۔اس طرح مویشیوں کے کھیت میں بیٹھنے پر فائدہ ہی فائدہ ہے۔ان کا گوبر کھاد بن جائے گا۔بتاتے ہیں کہ جانوروں کے جسم کی گرمی سے بھی زمین زرخیز ہوجاتی ہے۔
ایک زمانہ تھا، جب بھیڑوں کو کھیتوں میں رات بھر بٹھایا جاتا تھا۔ اس دور کے حساب سے چرواہا اس کی فیس وصول کرتا تھا۔ اس کے بدلے غلہ لیتا تھا، جس کا کھیت ہوتا تھا، وہ چرواہے کے رات کا کھانے کا انتظام کرتا تھا۔ آٹا، چاول اور سبزی یا گوشت دیتا تھا، چرواہا اسے لکڑی کے چولہے پر بناتا تھا۔
بھیڑیں چپ چاپ بیٹھی رہتی تھیں ۔ کچھ بولتی بھی تھیں ، ایک دوبار بولتیں تو چرواہا کچھ نہیں کہتا تھا، زیادہ شور مچانے پر ڈانٹ کر چپ کروا دیتاتھا۔ دوسری طرف چرواہا کھلے میدان میں کھانا بناتاتھا، پھر وہیں کسی درخت کے نیچے بوری بچھا کر سو جاتا تھا اور سورج نکلنے سے پہلے ہی کھیت خالی کردیتا تھا، فیس لےکر بھیڑیں ہنکاتے ہوئے گھر کی راہ لیتا تھا۔