’اب گاؤں نہیں گاؤں نہیں رہا ‘یا’ اب شہر یا گاؤں میں زیادہ فرق نہیں رہا‘ بارہا گاؤں والوں کی زبانی اس طرح کے جملے یا یوں کہیں کہ شکوے سنائی دیتے ہیں۔
EPAPER
Updated: May 13, 2024, 12:54 PM IST | Hamza Fazal Islahi | Mumbai
’اب گاؤں نہیں گاؤں نہیں رہا ‘یا’ اب شہر یا گاؤں میں زیادہ فرق نہیں رہا‘ بارہا گاؤں والوں کی زبانی اس طرح کے جملے یا یوں کہیں کہ شکوے سنائی دیتے ہیں۔
’اب گاؤں نہیں گاؤں نہیں رہا ‘یا’ اب شہر یا گاؤں میں زیادہ فرق نہیں رہا‘ بارہا گاؤں والوں کی زبانی اس طرح کے جملے یا یوں کہیں کہ شکوے سنائی دیتے ہیں۔
سچ پوچھئے تو اب بھی گاؤں میں گاؤں زندہ ہے، اس کی قدریں باقی ہیں، اس کی بہت سی روایتیں مستحکم ہیں۔ اسی آب وتاب کے ساتھ جاری ہیں۔ گزشتہ کالموں میں اس کالم نگار نے گاؤں کی سیر کرکے آپ کو بتایا بھی ہے کہ گاؤں کا گاؤں پن ابھی باقی ہے، بس تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کالم میں ٹرین کے سفر کے دوران گاؤں کی تلاش کی روداد بیان کی گئی ہے۔
گزشتہ فروری کا قصہ ہے، یہ کالم نگار طویل مسافتی ٹرین پر سوار تھا، ممبئی سے وارانسی تک کا سفر تھا۔ گلابی سردی تھی، آسمان بالکل صاف تھا، بادل کا ایک بھی ٹکڑا نہیں تھا۔ اس کالم نگار کو ٹرین کی کھڑکی سے مہاراشٹر، مدھیہ پردیش اور اترپردیش کے گاؤں دیہات دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ سب کا ذکر یہاں نہیں کیا جا سکتا، البتہ ایک ایسے گاؤں کا قصہ سنئے جو بیک وقت اترپردیش اور مدھیہ پردیش کے تہذیب وثقافت کا ترجمان ہے۔
آٹھ فروری کو شام کےچار بجتے ہی مدھیہ پردیش ختم ہوچکا تھا۔ ایم پی اور یوپی کے سرحدی اضلاع میں ٹرین پوری رفتار سے دوڑ رہی تھی۔ شام ساڑھے چار بجے ٹرین بندیل کھنڈ خطے کے ضلع للت پور میں داخل ہوچکی تھی۔ ٹرین وہاں کے ایک آؤٹر میں رکی تھی جو اس خطے کا ایک ہرا بھرا اور سرسبزوشاداب گاؤں تھا۔ اس خطے کے گاؤں دیہات پوروانچل کے گاؤں دیہاتوں سے قدرے مختلف تھے۔ یہاں جابجا کھجور اور ببول کے درخت تھے۔ کہیں کہیں دیسی آم کے گھنے درخت بھی دکھائی دے رہے تھے۔
پوروانچل کی طرح یہاں سامنے آم یا امرود کے ایک بھی باغ نہیں تھے۔ کہیں کہیں اس خطے کی مخصوص فصلیں بھی لہلہا رہی تھیں، ٹرین کے مسافروں سے ان کا نام جاننے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہیں ملی۔
یہ بھی پڑھئے: گاؤں دیہاتوں میں پرانے دور کے گیتوں اور نغموں کی فضا اب بھی قائم ہے
پوروانچل کی طرح کچھ کھیتوں میں سرسوں کی فصل کھڑی تھی، ان کے پیلے پیلے پھولوں نے کھیت کےحسن میں چار چاند لگا دیئے تھے۔ ایک کھیت کے کنارے کنارے ارہر کی فصل تھی اور ان کے درمیان گیہوں کی فصل تھی۔ پوروانچل میں عام طور پر گیہوں کی فصل کے کنارے سرسوں کی بوائی کی جاتی ہے۔ ان کے پودے ایک طریقے سے حفاظتی باڑ کی طرح ہوتے ہیں۔ کوئی مویشی آتا ہے تو سرسوں ہی کو نقصان پہنچاتا ہے، گیہوں تک پہنچ نہیں پاتا ہے، یہاں گیہوں کے کنارے ارہر کی بوائی غالباً اسی مقصد کی گئی تھی۔
اس کالم نگار کو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی تھی کہ پانی کے سنگین بحران کا سامنا کرنے والے اس خطے میں اتنی شادابی ہے۔ ٹرین جہاں رکی تھی، وہاں قریب میں گڑھا تھا جو سوکھنے کے قریب تھا، اس میں بہت کم پانی رہ گیا تھا، پھر بھی بکری کے چھوٹے چھوٹے بچے اس سے پیاس بجھارہے تھے۔ گڑھے کے سوکھے حصے میں گھاس اگی ہوئی تھی۔ اس کے قریب ایک بڑھیا کھڑی تھی۔ ٹرین کی پٹری سے چند قدم کے فاصلے پر تھی۔ وہ مویشی ہنکانے کیلئے اپنی جگہ ہی سے کھڑی کھڑی پتھر اچھال رہی تھی۔ اس کے آس چار پانچ بکریاں چارا پانی تلاش کر رہی تھیں۔ گڑھے کے قریب ایک سائیکل زمین پر گری ہوئی تھی۔ قریب کے درختوں پر بچے بیٹھے ہوئے تھے۔ بظاہر ایسا لگ رہا تھا کہ وہ کچھ کھیل رہے ہیں۔
وہ ایک ڈال سے دوسری ڈال پر آجارہے تھے۔ جی بھر کے مستی کررہے تھے، ٹرین کے مسافروں کو ان کے قہقہے بھی سنائی دے رہے تھے۔ ایک اور سوکھے ہوئے گڑھے میں گلی ڈنڈا بھی ہورہا تھا۔ گاؤں دیہات میں صدیوں سے یہ سب ہوتا رہا ہے اور اس گاؤں کا یہ کمال ہے کہ اس نے اپنی روایتوں کو اب تک محفوظ رکھا ہے، ان سے ابھی تک سمجھوتہ نہیں کیاہے بلکہ انہیں سینے سے لگائے رکھا ہے۔
ٹرین رکنے کا وقفہ طویل ہوا تو کچھ مسافر بھی ٹرین سے اُتر گئے اور چند لمحے ان بچوں اور معمر خاتون کے ساتھ گزارے۔ ان سے بات چیت کی، دور دور تک پھیلے گیہوں کے کھیتوں کو دیکھا، ان کی نگاہیں یہاں کے کھجور کی شاخوں میں الجھی رہیں۔ سچ پوچھئے تو ایسے مواقع شاذونادر ہی آتے ہیں جب پوروانچل اور بندیل کھنڈ کے گاؤں والے ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ دونوں خطے کے لوگ اپنی اپنی دنیا میں رہتے ہیں۔ ایک دوسرے کو بہت کم جانتے ہیں لیکن ٹرین کے اس سفر کے بہانے بندیل کھنڈ اور پوروانچل کے گاؤں والوں نے چندلمحے ہی کیلئے سہی ایک دوسرے کو سمجھ لیا، دیکھ سن لیا اور اپنے خطے سے اس خطے کا موازنہ کرلیا۔ اس تلاش میں کالم نگار اس نتیجے پر پہنچا کہ اس خطے کےدیہی علاقوں میں اب بھی پورا پورا گاؤں باقی ہے، یہاں کی دیہی تہذیبیں توانا ہیں اور روایتیں مستحکم ہیں۔