• Sat, 08 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

منیہارن کے آنے پر پورے گائوں کی خواتین ایک جگہ جمع ہو جاتی تھیں

Updated: February 07, 2025, 9:59 PM IST | Ahsanul Haque | Mumbai

سر پر چوڑیوں کا ٹوکرا لئے منیہارن کو بچیاں دور سڑک پر گائوں کی طرف آتےہوئے دیکھتیں تو گھر کی طرف دوڑ کر یہ خبر دینے پہنچ جاتیں کہ... منیہارن چاچی آرہی ہیں، مجھے چوڑی دلا دیجئے، یہ دیکھئے میری پوری کلائی خالی ہے

As Maniharan removes the sheet from the top of the basket, the eyes of the women present there, along with the bangles, begin to shine. Photo: INN.
منیہارن کے باسکٹ کے اوپر سے چادر ہٹاتے ہی چوڑیوں کے ساتھ وہاں موجود خواتین کی آنکھیں بھی چمکنے لگتی ہیں۔ تصویر: آئی این این۔

سر پر چوڑیوں کا ٹوکرا لئے منیہارن کو بچیاں دور سڑک پر گائوں کی طرف آتےہوئے دیکھتیں تو گھر کی طرف دوڑ کر یہ خبر دینے پہنچ جاتیں کہ... منیہارن چاچی آرہی ہیں، مجھے چوڑی دلا دیجئے، یہ دیکھئے میری پوری کلائی خالی ہے، اُس روز برتن دھلتے ہوئے ہاتھ کی ساری چوڑیا ں ٹوٹ گئی تھیں۔ اتنی دیر میں منیہارن چاچی گھرکے قریب پہنچ جاتیں اور کہتیں ارے بٹیا وہیں کھڑی رہوگی کہ میرے سر سے یہ ڈیلری اُتروائو گی، اس بار نئی نئی ڈیزائن کی چوڑیاں لائی ہوں ، فیروز آباد کی۔ بھابھی کہاں ہیں، اماں نظر نہیں آرہی ہیں ... سب کو بلائو بٹیا اس بار کافی دنوں کے بعد چکر لگا ہے، سب کیلئے الگ الگ قسم کی چوڑیاں لائی ہوں، یہ کہتے ہوئے منیہارن نے باسکٹ کے اوپر سے چادر ہٹائی اور چوڑیوں کے ساتھ ہی وہاں موجود خواتین کی آنکھیں بھی چمکنے لگیں۔ 
چاچی وہ ذرا ہری والی دکھائیےگا۔ وہ گلابی والی بھی اچھی لگ رہی ہے۔ ہاں اس بار تو کچھ الگ قسم کی چوڑیاں لائی ہیں۔ پڑوس سے آنے والی ایک خاتون نے چوڑیوں کا سیٹ اُٹھاتے ہوئے کہا۔ دیکھتے ہی دیکھتے محلے کی ساری خواتین جمع ہو گئیں۔ وہ دن خوب یاد ہیں جب منیہارن کے آنے پر پورے گائوں کی خواتین ایک جگہ جمع ہو جاتی تھیں۔ گویا وہ جگہ کچھ دیر کیلئے لکھنؤ کا گڑ بڑ جھالا بن جایا کرتی تھی۔ اُس وقت چوڑیاں بیچنے والی کا گائوں کی خواتین سے اپنائیت ومحبت کا ر شتہ ہوتا تھا۔ گائوں کی خواتین اُسے اپنے گھر کا فرد ہی سمجھتی تھیں ۔ ہر گائوں کی منیہارن طے ہوا کرتی تھیں، وہاں کوئی دوسری چوڑی بیچنے والی نہیں آیا کرتی تھی۔ ہمارے علاقے میں مرد چوڑی بیچنے والےنہیں آیا کرتے تھے، یہ کام خواتین ہی کرتی تھیں۔ اپنے کام سے فارغ ہونے کے بعد منیہارن کی گائوں کی خواتین کے ساتھ خوب گپ شپ ہوا کرتی تھی۔ ایک دفعہ گائوں کی ایک بزرگ خاتون نے منیہارن سےکہا تمہاری زبان میں بڑی مٹھاس ہے، سب کو تم نے اپنی بھابھی اور بہن بنا لیا ہے۔ یہ سن کر چوڑیاں بیچنے والی نے ہنستے ہوئے کہا اماں ...میں راستے بھر بھابھی، بہن اور اماں اماں کی رٹ لگاتے ہوئے چلتی ہوں کیونکہ میری چوڑیاں مائیں، بہنیں اور بہوئیں ہی خریدتی ہیں۔ چنانچہ اس معاملے میں بہت محتاط رہتی ہوں ۔ میری کوشش یہی ہوتی ہے کہ ماں، بہن اور بھابھی کے الفاظ کہنا میری عادت بن جائے۔ 
 وہ وقت تھا جب نئی نویلی دلہن کیلئے منیہارن کو خا ص طور سے بلایا جاتا تھا۔ چوڑی پہننے کے دوران نندیں بھابھی کے ارد گرد جمع رہتیں۔ منیہارن بڑے احتیاط سے چوڑیاں پہناتی، ایک ایک چوڑی کا باریک بینی سے معائنہ کرتی کہ کہیں کوئی ٹوٹی ہوئی تو نہیں ہے۔ اس طرح وہ ٹوٹی ہوئی چوڑیوں کو الگ کر دیتی۔ کانچ کی چوڑیوں کا ذکر ہوتا ہے تو ذہن میں ایک ایسی سہاگن کا تصور اُبھرتا جس کی کلائیاں کانچ کی ان چوڑیوں سے بھری ہوتیں اور کلائیوں میں ان چوڑیوں کی کھنک ہی ایک سہاگن کا سہاگ سمجھا جاتا ہے، کانچ کی چوڑیاں ایک سستا اور روایتی زیور بھی ہے۔ اس زمانے میں اگر کسی نئی نویلی دلہن کی چوڑیاں کسی بنا پر ٹوٹ جاتیں تو اسے بد شگون سمجھا جاتا تھا اور دلہن کے ذہن پر ایک انجانا سا خوف سوار رہتا۔ صرف اتنا ہی نہیں جس دلہن کے ہاتھوں میں چوڑیاں نہ ہوتیں، تواس کو خاندان کی بڑی بوڑھیاں خوب باتیں سناتیں۔ 
چوڑی پہنانے کے دوران بچے بھی آس پاس جمع رہتے، وہ ٹوٹی ہوئی چوڑیاں جمع کرلیتے تھے۔ جب ان کے پاس چار رنگوں کی چوڑیاں اکٹھا ہو جاتیں تواس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرکے چوڑی کھیلتے تھے۔ اس کھیل میں چار بچے ایک جگہ جمع ہوتے۔ چاروں رنگوں کے ٹکڑوں کو ایک ساتھ کرکے آپس میں تقسیم کرتے۔ پھر اس کی چال چلی جاتی۔ ایک رنگ کے ٹکڑے جس کے پاس ایک ساتھ جمع ہو جاتے وہ اس کھیل کا فاتح ہوتا اور بڑی تیزی سے آواز لگاتا ’ بن بیٹھی‘۔ مطلب ایک رنگ کی چوڑیاں اس کے پاس جمع ہو گئیں اور اس کی بن گئی۔ 
ہمارے یہاں اس وقت کی منیہارن گائوں میں اپنی بولی کی وجہ سے خواتین میں بہت مقبول تھی۔ اس کی چوڑیاں بہت جلد بک جاتی تھیں۔ خواتین اپنی بچیوں کو اچھی زبان سکھانے کیلئے اس کی مثال دیاکرتی تھیں۔ پہلے گائوں میں آج کی طرح دکانوں سے چوڑیاں نہیں خریدی جاتی تھیں بلکہ اُس وقت گھر گھر چوڑی بیچنے والیاں آتی تھیں اور خواتین کو چوڑیاں پہنانے کے ساتھ اُن کے دوسرے ضرورت کے سامان دیتی تھیں۔ 
اُس روز منیہارن کے پاس بیٹھی ایک خاتون چوڑیوں کا سیٹ لئے بار بار اُٹھا کر دیکھ رہی تھیں۔ قیمت معلوم کرکے خاموش ہو گئیں۔ منیہارن نے پوچھا کیا ہوا چچی، آپ کو پسند ہے نا؟پسند تو ہے لیکن گھر میں سب کیلئے چوڑیاں  خریدنے کے بعداپنے لئے خریدنے کو پیسے نہیں  ہیں۔ یہ سن کر منیہارن نے بڑی اپنائیت سے کہا تو کیا ہوا چچی، پیسے ہم بعد میں  لے لیں گے آپ کو پسند ہے تو رکھ لیجئے۔ یہ کہتے ہوئے منیہارن نے چوڑیوں سے بھرا ٹوکرا اپنے سر پر رکھا اور دوسرے گائوں  کی طرف روانہ ہو گئی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK