• Fri, 31 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

غزہ۔ اسرائیل جنگ بندی اور بے حس انسانیت!

Updated: January 30, 2025, 1:44 PM IST | Dr Mushtaq Ahmed | Mumbai

جنگ بندی کے ساتھ حماس کے سامنے ایک بڑا چیلنج بھی ہے کہ وہ غزہ میں بے گھر عوام کی بازآباد کاری کس طرح کریں گےکیونکہ لاکھوں ٹن ملبوں کی صفائی کے بعد ہی باز آباد کاری کا کام ممکن ہو سکتا ہے۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

حماس اور اسرائیل جنگ بندی معاہدے کے مطابق اب تک دو مرحلوں میں اسرائیلی یرغمالیوں کو چھوڑا گیا ہے اور اسرائیل نے بھی فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا ہے۔ اسرائیل کی نیت پر پوری دنیا کو شک ہے کہ وہ اس معاہدے کو ابدیت بخشتا ہے یا نہیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ عالمی برادری کے لئے غزہ میں اسرائیلی جارحیت کا خاتمہ اطمینان دینے والاہے کہ حماس اور نیتن یاہو کے درمیان جنگ بندی معاہدہ پر مہر لگ چکی ہے مگر اس تلخ سچائی کا کوئی بھی منکر نہیں ہو سکتا کہ جنگ بندی کے اعلان کے باوجود اسرائیل نے سو سے زائد فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیااور پوری دنیا اس بات پر خوش ہے کہ امریکہ کے نئے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی مداخلت سے جنگ بندی ہوئی ہے مگر افسوس ہے کہ یہ جنگ بندی پہلے بھی ہو سکتی تھی۔ 
دراصل فلسطین اور اسرائیل کے درمیان کی یہ جنگ دنیا کو یہ باور کرانے کی حماقت تھی کہ امریکہ جب چاہے گا دنیا کے کسی بھی خطے میں تباہی مچا سکتا ہے اور اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ امریکہ اور اس کے حامی اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ مسلم دنیا بے حسی کی شکار ہے اور سب اپنے مفاد کی خاطر امریکہ ہی نہیں بلکہ دیگر یورپی ملکوں کے دست نگر ہیں، ورنہ خطہ عرب کی جانب سے اگر حماس کی حمایت میں نہ سہی، غزہ کے معصوم عوام کی حمایت میں صف بندی ہوتی اور اسرائیل کیخلاف آواز بلند ہوتی تو شاید یہ جنگ اتنی طویل نہیں ہوتی۔ 
بہر کیف! اب جب حماس اور نیتن یاہو کے درمیان معاہدہ ہو چکا ہے اور اسرائیلی کابینہ سے بھی منظوری مل چکی ہے تو اب دنیا کے سامنے ایک بڑا سوال ہے کہ فلسطینی عوام بالخصوص غزہ کے مسلمانوں پر جو وحشیانہ حرکتیں ہوتی رہی ہیں کیا اب اس پر روک لگ سکے گی ؟ غزہ کے بے گھر لوگوں کی باز آباد کاری کے لئے کوئی ٹھوس پہل ہوگی یا پھر جنگ بندی کے بعد بھی وہاں کے عوام زندگی جینے کے بنیادی حقوق سے محروم رہیں گے؟
واضح رہے کہ غزہ اور اسرائیل کی یہ جنگ ۴۶۷؍ دنوں تک جاری رہی ہے اور اس درمیان پچاس ہزار افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔ ایک اندازہ کے مطابق غزہ پٹی میں نوّے ہزار ٹن سے زائد دھماکہ خیز مادے برسائے گئے ہیں ۔ ایک سوال جو ہر ایک حساس فرد کے ذہن میں ہے وہ یہ ہے کہ قطر کی ثالثی سے اگر یہ جنگ بندی ہوئی ہے تو اس میں اتنی تاخیر کیوں ہوئی ؟غزہ کے تقریباً ۲۳؍ لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں اور اس حالیہ جنگ بندی معاہدہ کے مطابق جیسے جیسے حماس یرغمالیوں کو اسرائیل کے حوالے کر رہا ہے ویسے ویسے اسرائیلی افواج غزہ سے قسطوں میں واپس ہو رہی ہے۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ اس مرحلہ کو پورا ہونے میں مہینوں لگے گا اور اس وقت تک آسمان سے بم وبارود رک جائے لیکن زمین پر فلسطینی عوام کی صعوبتیں بر قرار رہیں گی۔ اس لئے بین الاقوامی سطح پر حقوق انسانیت کے لئے کام کرنے والی رضا کار تنظیموں کو آگے آنا ہوگا کہ غزہ میں روز مرہ کی زندگی کو آسان کرنے کے لئے بنیادی ضروریات پوری کی جائیں۔ بین الاقوامی برادری کی جانب سے غزہ کے عوام کے لئے جو اشیائے خوردنی اور دوائیں بھیجی جا رہی ہیں وہ بھی وہاں نہیں پہنچ پا رہی ہیں کہ اب بھی ہزاروں ٹرک کو غزہ میں داخل ہونے سے روکا جا رہاہے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ مسلّم ہے کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہے اور حماس نے بھی اسرائیل میں جو غیر انسانی فعل انجام دیا اس کی بھی حمایت نہیں کی جا سکتی لیکن اسرائیل جس طرح گریٹر اسرائیل کا جغرافیائی نقشہ پیش کر رہاہے اور اسے پورا کرنے کے لئے کسی حد تک جانے کو تیار ہے اس کو روکنے کے لئے حماس کے پاس کوئی دوسرا راستہ بھی تو نہیں تھا۔ شام کی بحرانی سیاسی صورتحال سے فائدہ اٹھا کر اسرائیل جس طرح وہاں بھی قدم جمانا چاہتا ہے اس سے بھی فلسطینی مسائل میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے اس لئے اس جنگ بندی کو عالمی سیاست کے پس منظر میں سنجیدگی سے دیکھنے کی ضرورت ہے اور بالخصوص بے حسی کے شکار عرب خطوں کے سربراہان کو بھی سبق لینے کی ضرورت ہے کہ وہ جس طرح غزہ کے معصوم عوام کے قتل عام پر خاموش رہے ہیں اور امریکہ کے خوف سے زبان تک کھولنے کو تیار نہیں تھے، مستقبل میں اس کا خمیازہ انہیں بھی بھگتناپڑے گا۔ اس لئے کہ یہ جنگ بندی وقتی ہے چونکہ ڈونالڈ ٹرمپ امریکی عوام بالخصوص امریکی یہودی لابی سے پہلے ہی وعدہ کر چکے تھے کہ وہ اپنی حلف برداری کے ساتھ ہی اسرائیلی یرغمالیوں کو حماس سے نجات دلائیں گے۔ اس لئے کچھ ہی دنوں قبل ٹرمپ نے کہا تھا کہ اگر حماس نے یرغمالیوں کونہیں چھوڑا تو غزہ میں مزیدتباہی مچائی جائے گی۔ اس وقت ٹرمپ کے بیان کو اس کے بڑبولے پن کی وجہ سے کوئی خاص اہمیت نہیں دی گئی تھی لیکن اسی دن یہ اشارہ مل گیا تھا کہ اب اسرائیل کو بھی جنگ بندی کیلئے راضی ہونا ہوگا اور یہی ہوا ہے۔ جنگ بندی کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے کہ دنیا کے کسی خطے میں اگر انسانیت تباہ ہورہی ہے تو اس پر فکر مندی لازمی ہے مگر اس جنگ بندی کے ساتھ حماس کے سامنے ایک بڑا چیلنج بھی ہے کہ وہ غزہ میں بے گھر عوام کی بازآباد کاری کس طرح کریں گےکیونکہ لاکھوں ٹن ملبوں کی صفائی کے بعد ہی باز آباد کاری کا کام ممکن ہو سکتا ہے۔ دوسرا چیلنج یہ بھی ہے کہ اسرائیل کب اپنے معاہدے سے منحرف ہو جائے یہ کہنا مشکل ہے کہ آج بھی اس معاہدے کی مخالفت کرنے والے اسرائیلیوں کی تعداد کم نہیں ہے اور وہاں کی کئی سیاسی جماعتیں اس جنگ بندی کے خلاف ہیں جیساکہ نیتن یاہو کی کابینہ کے آٹھ ممبران نے اس کی مخالفت کی ہے اور کئی وزیر اوراعلیٰ عہدہ داروں نے استعفیٰ دیا ہے۔ اس لئے حماس کو ایک طرف اس جنگ بندی معاہدے کے مطابق قدم اٹھانا ہوگا تو دوسری طرف اس اندیشے کے مقابلےکیلئے بھی تیار رہنا ہوگا کہ نیتن یاہو کب اپنے وعدے سے پلٹ جائے۔ اس وقت حماس نے جنگ بندی کو قبول کیا ہے تو وہ ایک مثبت قدم ہے۔ فلسطینی عوا م کا غزہ میں زندہ رہنا بھی ضروری ہے۔ اگر غزہ میں عوام نہیں ہوں گے تو پھر اسرائیل کا منصوبہ خود بخود پورا ہو جائے گا کہ وہ اس پر قابض ہو سکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حماس عالمی سیاست کی بساط پر اس شطرنجی چال کا مقابلہ کیسے کرتے ہیں اور غزہ کی خود مختاریت کو کس طرح برقرار رکھتے ہیں ۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK