• Sun, 12 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

’فضلل‘ کی غزلیں انجمن اردوئے معلی کے مشاعروں کی جان ہوا کرتی تھیں

Updated: January 12, 2025, 1:05 PM IST | Mumbai

مشہور ادیبہ قرۃ العین حیدر کے مقالے ’’حسرت کی کہانی ان کے ایک دوست کی زبانی‘‘ کا ایک باب جو انہوں نے ۱۹۸۱ء میں ہونےو الے حسرت موہانی سمینار میں پڑھا تھا۔

Apart from Maulana Hasrat Mohani, who else is there in this historical picture? If not all, then some of the names can be mentioned, but it would be good if you could recognize them. Photo: INN.
اس تاریخی تصویر میں مولانا حسرت موہانی کے علاوہ علاوہ کون کون ہے، سب نہیں تو کچھ کے نام تو بتائے جاسکتے ہیں مگر کیا ہی اچھا ہو آپ پہچانیں۔ تصویر: آئی این این۔

اُنیسویں صدی کے آخری برس اور اس سے ایک سال پیشتر جو لوگ علی گڑھ میں تھے اُن کو یاد ہوگا کہ اُن ایام کے نوادروں میں سے کوئی شخص بہ لحاظ شکل و شباہت، وضع قطع اور چال ڈھال کے اس قدر دلچسپ نہ تھا جس قدر نواحِ لکھنؤ کا ایک طالب علم جسے محبت اور مذاق نے ’’خالہ امّاں ‘‘ کا نام دیا تھا۔ 
’’جس طرح صاحب ِعصر جدید کے والد مرحوم‘‘ آہستہ خرام تھے مگر ضرورت کے وقت تیز بھی چل سکتے تھے، اسی طرح فضل الحسن آہستہ بھی چل سکتے تھے اور نوع حیوانات کی اس عام صفت سے محروم نہ تھے۔ 
علی گڑھ کالج نے اپنی ہستی کا منشا پورا کیا ہو یا نہ کیا ہو لیکن اس میں شبہ نہیں کہ وہاں ہمیشہ چند تیز فہم و حقیقت شناس ایسے پیدا ہوتے رہتے ہیں کہ کسی کیریکٹر کو خواہ وہ کتنا ہی پیچیدہ کیوں نہ ہو ایک لفظ یا ایک نام سے ظاہر کرسکتے ہیں۔ 
ان اوصاف کے ساتھ ہی فضلل ایک خوش عقیدہ مسلمان تھا۔ صوم و صلوٰۃ کی پابندی اس کی زندگی کا جزو ضروری تھی مگر برخلاف عوام کے اس سے اس کی شیرینی ٔ طبع میں فتور نہیں آنے پایا۔ یہ بارہا دیکھا گیا کہ بے تکلفی کا جلسہ گرم ہے اور نماز کا وقت آ پہنچا، فضلل مسکراتے ہوئے اٹھے، معذرت بھی کرتے جاتے ہیں اور وضو بھی۔ یہاں تک کہ نماز سے فارغ ہوکر پھر آ بیٹھے۔ مگر ایسی حالتوں میں نماز جلدی پڑھتے تھے۔ بلکہ ان کے دوستوں کا خیال ہے کہ کلام مجید کی سورتوں کے بجائے ان کے اعداد بحساب ابجد پڑھ لیا کرتے تھے۔ بزرگان دین کے مزاروں کی ان کو ایسی ہی جستجو رہتی تھی جیسی از یاد رفتہ اساتذۂ قدیم کے دیوانوں کی۔ دہلی اور آگرہ میں کم مزار ایسے ہوں گے جن کی جالیوں میں فضلل نے چلّے نہ باندھے ہوں۔ غرض ان اوصاف کا نتیجہ سمجھو یا اُن کی خوش نصیبی کہ پورا سال بھی نہ گزرنے پایا تھا کہ ’’خالہ اماں ‘‘ نے عدم کی راہ لی اور اس کے بجائے ’’مولانا‘‘ بچے سے لے کر بوڑھے تک کی زبان پر جاری ہوگیا۔ فضلل بلا کے ذہین اور طباع تھے۔ درس کی کوئی انگریزی کتاب شاید انہوں نے دوسری مرتبہ نہیں پڑھی اور اس بارے میں مخالفین تعلیم انگریزی میں اور اُن میں بس اتنا ہی فرق تھا کہ جہاں وہ قطعاً انگریزی پڑھنے کو کفر سمجھتےتھے، یہ کسی صیغۂ فرنگ پر دوسری مرتبہ نظر ڈالنا گناہ جانتے تھے۔ اسی لئے ان کو کبھی انگریزی پڑھنا یا لکھنا نہ آیا۔ حقیقت میں ان کا میلانِ طبع اردو اور فارسی تھا۔ سائنس وغیرہ علوم سے بھی ان کی طبیعت کو بیگانگی سی تھی اور گو ایک امر اتفاقی سے مجبور ہوکر انہوں نے بی اے میں ریاضی پڑھی۔ 
مگر یہ واقعہ ہے کہ اس کا سننا نفاست پسند طبقوں کو ناگوار گزرے کہ اس موذی اور مسلمان کش مضمون کو انہوں نے صحت خانہ سے باہر کبھی برضا و رغبت نہیں پڑھا۔ اس پر بھی وہ امتحان میں ناکام نہیں رہے۔ اسی زمانے میں سید سجاد حیدر نے انجمن اردوئے معلی کی بنیاد ڈالی۔ ہفتے میں ایک مرتبہ اتوار کی شب کو ایک مقام مقررہ فرش و فروش سے آراستہ کیا جاتا تھا۔ اراکین مجلس اور مشتاقانِ سخن خوش وضع انگرکھے، اچکنیں، شیروانیاں، دوپلّی ٹوپیاں پر دیئے ہوئے قرینے سے بیٹھ جاتے۔ شمع ایک ایک کے سامنے آتی اور وہ نظم و نثر کے تازہ پھول نذر کرتا، داد و تحسین اور آداب و تسلیمات کا انداز فنونِ لطیفہ کی سرحد تک پہنچ جاتا تھا۔ ایسی انجمن ترقی کے لئے مولانا سے بہتر رکن کون ہوسکتا تھا۔ مولانا کی غزلیں مشاعرے کی جان اور ان کے مضامین متاثرے کی روح رواں خیال کئے جانے لگے۔ چنانچہ متروک الفاظ پر ایک سلسلۂ مضامین جو عرصہ تک مخزن میں چھپا کیا، اپنی جدت اور انداز تحریر کی دل نشینی کی وجہ سے مقبولِ خاص و عام ہوا۔ 
 جب حسرتؔ کا زمانۂ تعلیم ختم ہونے کو آیا تو سیدسجاد حیدر بیچلرز لاج میں گوشہ نشیں ہوچکے تھے۔ اردوئے معلی کے چراغِ حیات کے لئے سحر قریب تھی مگر فینکس (ققنس کہلانے والا وہ جاندار جو آگ میں پیدا ہوتا ہے اور خاک ہونے کے بعد دوبارہ جی اُٹھتا ہے) کی طرح اردوئے معلی نے بھی مرتے مرتے ایک ایسی راگنی گائی جس کی آواز اب تک کانوں میں گونج رہی ہے۔ ایک عالیشان مشاعرے کی تجویز قرار پائی۔ تمام ہندوستان کے شعرائے اردو کی خدمت میں شرکت کی درخواست کی گئی۔ چنانچہ اکثر اساتذۂ عالی قدر نے دعوت قبول فرمائی اور اسٹریچی ہال میں جو ایک ربع صدی سے نثر سنتے سنتے تھک گیا تھا، شاندار مشاعرہ ہوا۔ سپہر نظم کے آفتاب و مہتاب یعنی حضرات مجروحؔ و تسلیمؔ کے علاوہ بہت سے چھوٹے بڑے ستاروں نے اپنا کمال دکھایا۔ مگر چھوٹے ستارے اپنی حرکت میں کہیں کہیں تہذیب یا مغربی تہذیب کے دائرے سے باہر بھی ہوگئے۔ 
اگلی صبح خاتمہ ٔ سبق تھیوڈ ماریسن اور فضلل کا دامن۔ عقاب جیسے کسی کمزور چڑیا کو پکڑ کر آن واحد میں آسمان کی بلندی پر جا جھپٹتا ہے، اسی طرح ماریسن صاحب چہرے پر غصے کی (جو صاف بناؤ معلوم ہوتا تھا) کیفیت پیدا کئے غریب فضل الحسن کو پکڑے ہوئے رواں دواں دفتر کی طرف لے گئے۔ اتنے میں شیر غرایا: ’’تو کیا اخلاق کے دو معیار بھی ہوتے ہیں ؟‘‘
 سہمی ہوئی اور لڑکھڑائی ہوئی آواز میں جواب ملا: ’’جی ہاں ہم لوگوں کا معیار آپ سے مُخ مُخ… مختلف ہے۔ ‘‘
 مسٹر ماریسن جھنجھلا کر بولے: ’’یہ سراسر بکواس ہے۔ کئی پرانے طالب علم خلاف ِ تہذیب اشعار پڑھے جانے کی مجھ سے ابھی شکایت کرچکے ہیں۔ ‘‘تھوڑی دیر میں معلوم ہوا کہ اردوئے معلی نے بارِ دگر ترکِ وطن کیا۔ مولانا کو اب تک یقین ہے کہ پرانے طالب علموں سے ماریسن صاحب کی مراد ’نیچرل شاعر‘ تھے۔ 
مگر اس علمی زندگی کے ساتھ ساتھ حسرتؔ کی عادات میں ایک ایسا وصف نشوونما پا رہا تھا کہ جس کا آخری نتیجہ علی گڑھ کے سیشن جج کی عدالت میں نظر آیا اور جس سے یہ معلوم ہوا کہ وہ شخص جو مذہب اور ادب میں ایسا قدامت پرست تھا، پالیٹکس میں مقدمۃ الجیش میں کیونکر شریک ہوگیا۔ یہ وہ وصف تھا جسے انگریزی محاورے کے مطابق صدائے بلند ترین کا ہم آہنگ ہو جانا کہتے ہیں۔ کئی مرتبہ یہ وصف ِفتنہ اثر ظاہر ہوا اور ہر مرتبہ مولانا کو کچھ نہ کچھ نقصان ضرور پہنچا۔ شملے میں علی گڑھ کرکٹ ٹیم نے کسی انگریزی کلب سے بازی لی۔ علی گڑھ کالج کے بنی اسرائیل اس پر آپے سے باہر ہوگئے۔ ایک گروہ کثیر تمام آلات موسیقی، جو کالج میں دستیاب ہوسکتے تھے یعنی تھالیاں، لوٹے، گلاس اور کھانے کی سینیاں، بجا بجا کر رات کی تاریکی میں شور محشر برپا کرتاتھا۔ فضل الحسن جنہوں نے اپنی عمر میں نہ کبھی بیٹ چھوا تھا نہ گیند پھینکا، یہ شور سنتے ہی ایک شکستہ حال کنستر لئے ہوئے کمرے سے برآمد ہوئے اور تیل کو حوالۂ خاک کرکے سب سے آگے آگے اپنا کورس بجاتے ہوئے پروفیسروں حتیٰ کہ نواب محسن الملک مرحوم کی کوٹھی تک جا پہنچے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ فرد سیاہ میں، جو پرنسل کے دفتر کی میز کے داہنے خانے میں بند رہتی ہے، ان کا نام لکھ لیا گیا۔ 
’’جون کی دوپہر تھی اور آسمان سے آگ برس رہی تھی۔ مولانا شاید بستر ِ استراحت پر تھے کہ ظہور وارڈ کی طرف سے کچھ شور سنائی دیا۔ گھبرا کر ننگے سر اور ننگے پاؤں کمرے سے نکل آئے۔ معلوم ہوا کہ اسکول کے کسی لڑکے کو ایک مالی نے آم چرانے کے شبہ میں مارا ہے اور کچھ لڑکے اس شقی کی تنبیہ کو نکلے ہیں۔ مولانا اُسی ہیئت سے ’’پکڑو بدمعاش کو، مارو بدمعاش کو‘‘ کا شور کرتے ہوئے اس یورش میں شریک ہوگئے… مالی تو خیر پٹا یا نہ پٹا مگر ادھر اس مہم کا واپس آنا تھا کہ اُدھر اُس عیار ِ زماں نے بیسیوں درخت لنگڑے اور بمبئی کے تاراج کر دیئے اور کئی سو روپے جرمانہ بطور تلافی ٔنقصان، کالج کے طلبہ پر ہوا۔ اس یلغار کا سپہ سالار بے چارے مولانا کو قرار دیا۔ محض اسی لئے کہ ان کا پہچاننا اوروں کی نسبت آسان تر تھا۔ فرد سیاہ ایک بار پھر نکلی اور مولانا کچھ عرصے کے لئے حکماً کالج سے رخصت کر دیئے گئے۔ سرآمد ضلع گویاجناب میر عباس حسین صاحب پروفیسر نے کہ مہتمم باغات بھی تھے، باغ لوٹنے پر فضل الحسن کو باغی لقب دیا اور فرمایا کہ میاں مالی کی بداعمالی پر اس کی گوشمالی بے شک ضروری تھی مگر مالی نقصان تو بے چارہ برداشت نہیں کرسکتا۔ ‘‘
زمانہ تعلیم ختم ہوا تو وظیفہ قانونی کےلئے مولانا نے درخواست کی۔ مسٹر ماریسن نے نہ دیا۔ بورڈنگ ہاؤس میں بدستور رہنے کی اجازت چاہی۔ اجازت نہیں ملی۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK