• Wed, 08 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

حجاب میں دوڑتی لڑکیاں اور خواتین

Updated: January 28, 2023, 9:19 AM IST | Shamim Tariq | mumbai

ممبئی میراتھن کی بہت سی تصویریں آپ نے دیکھی ہوں گی اور یہ تصاویر بھی آپ کی نظر سے گزری ہوں گی جو اس مضمون کا محرک بنیں۔ دراصل حجاب یا پردہ ترقی میں حائل نہیں ہوتا۔ میراتھن میں باحجاب شامل ہونے والی لڑکیوں اور خواتین نے یہی ثابت کیا ہے۔

Mumbai Marathon
ممبئی میراتھن

 میراتھن دنیا کی دس ٹاپ میراتھن میں سے ایک ہے۔ کورونا کے سبب یہ دوڑ ۲۰۲۱ء اور ۲۰۲۲ء میں نہیں ہوسکی تھی، ۱۵؍ جنوری کی سرد صبح جبکہ درجہ حرارت ۸ء۱۳ ڈگری سیلسیس ریکارڈ کیا گیا تھا اس میراتھن میں شریک ہونے کیلئے ممبئی والوں نے جس گرم جوشی اور حوصلے کا مظاہرہ کیا وہ ایک مثال بن چکا ہے۔ ۵۵؍ ہزار لوگوں نے جن میں ہر عمر، طبقے، جنس اور ممبئی کے باہر سے آئے ہوئے لوگ بھی شامل تھے، اس میں حصہ لیا۔ ۱۶؍ جنوری کے اخبارات اسی سے متعلق خبروں سے بھرے ہوئے تھے مثلاً ایک پیر سے دوڑے کولکتہ کے اُدے، ایسے میاں بیوی نے دوڑ میں حصہ لیا جو اپنی پیدائش سے دونوں آنکھوں سے نابینا ہیں، نوی ممبئی کے اے ایس پی اسکول کے بچوں نے صحت عامہ سے متعلق بیداری کا پیغام دیا، چار سال کی بچی ۶؍ کلو میٹر دوڑی اور وہیل چیئر پر دوڑیں ایک ۸۰؍ سالہ خاتون کملیش۔ کچھ دوسری خبروں نے بھی متوجہ کیا مگر تین خبروں نے خاص طور سے چونکا یا۔ غور سے پڑھا جائے تو ان میں ممبئی یا ہندوستان کیلئے ہی نہیں، دنیا اور دنیا والوں کیلئے بڑا پیغام ہے۔
 پہلی خبر یہ ہے کہ میراتھن میں مہاراشٹر کے مختلف علاقوں سے آئی ہوئی ۲۰؍ مہیلا سرپنچ بھی شامل ہوئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ خواتین کے حقوق کی بازیابی اور حفاظت کیلئے دوڑ میں شامل ہوئی ہیں اور وہ یہ بھی واضح کرنا چاہتی ہیں کہ خواتین کو تعلیم یافتہ، برسر روزگار اور بااختیار بنا کر ہی ریاست اور ملک کو ترقی یافتہ بنایا جاسکتا ہے۔ کوئی بھی شخص جو شعور و احساس سے عاری نہیں ہے سرپنچ بہنوں کی خواہش اور پیغام سے اتفاق کرے گا۔ بس اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ خواتین کی مقتدریت یا بااختیار حیثیت میاں بیوی میں رفاقت کے جذبے کو مستحکم کرے۔ رقابت کا جذبہ نہ پیدا کرے۔ ہمارے لئے جس طرح بیوی یا خواتین پر شوہر یا مردوں کے مظالم قابل مذمت ہیں اسی طرح شوہر یا مردوں پر بیوی یا خواتین کی زیادتی بھی قابل مذمت ہے۔ 
 میراتھن میں ایسے لوگ بھی شامل تھے جو بیویوں کے ستائے ہوئے ہیں اور انہوں نے نعرہ بلند کیا کہ ’’بیوی ستائے تو ہمیں بتائیں۔‘‘  ایسے لوگوں کی ایک تنظیم بھی ہے جو جہیز یا گھریلو تشدد کے معاملات میں اپنی بیویوں کی جانب سے دائر کئے گئے مقدمات کے سبب عدالتوں کے چکر لگا رہے ہیں۔ ان میں سے بعض لوگوں نے اپنا درد بھی بیان کیا کہ ہم مردوں کی کوئی سننے والا نہیں ہے، ہمیں خواتین نے جھوٹے الزامات عائد کرکے ہمیں پھنسا یا ہے۔ 
 ہندوستان ہو یا دنیا ہماری بہنیں وفا شعار اور شوہر کے علاوہ شوہر کے گھر خاندان والوں سے محبت کرنے والی واقع ہوئی ہیں۔ ان کے ایثار اور قربانی کے تو ایسے ایسے واقعات ہیں کہ فخر ہوتا ہے کہ ہماری بہنیں ان پر بھی جان نچھاور کرتی ہیں جو ان کے حقوق ادا کرنے میں قصداً کوتاہی کرتے ہیں مگر اب ایسے واقعات بھی علم میں آنے لگے ہیں جو شوہروں یا مردوں کو مظلوم ثابت کرتے ہیں۔ بیویوں کے ستائے ہوئے کئی شوہروں نے میراتھن میں اپنے دکھ بیان کیے اور اپنے جیسے مظلوم شوہروں یا مردوں کو اپنی تنظیم کا حصہ بننے کی دعوت دی۔
 ان دنوں حجاب موضوع گفتگو ہے اور ایک بڑا طبقہ ’حجاب‘ کو خواتین اور لڑکیوں کی پسماندگی کی علامت یا آزادی پر قدغن سمجھتا ہے مگر اس میراتھن میں تین باحجاب لڑکیوں نے شامل ہوکر ثابت کردیا کہ حجاب کمزوری نہیں ہے۔ اسی کالم میں چند ہفتہ قبل چند دوسری مثالوں کے ساتھ لکھا جاچکا ہے کہ کس طرح انجینئرنگ کی ایک باحجاب طالبہ نے ۲۳؍ گولڈ میڈل حاصل کئے۔ میراتھن میں حصہ لینے والی تین باحجاب لڑکیوں کے بارے میں یہ پڑھ کر خوشی ہوئی کہ تینوں نے حجاب پہن کر ۲۱؍ کلو میٹر کی دوڑ  ڈھائی گھنٹہ میں پوری کی۔ لڑکیوں یا خواتین کے نام بشریٰ، ثنا اور رحمت شیخ ہیں۔ رحمت تین بچوں کی ماں ہے، بشریٰ نے ایم بی اے کیا ہے اور ثنا ایک پرائیویٹ کمپنی میں ملازمت کرتی ہے۔ کالم نگار کو تینوں کی یہ بات بہت اچھی لگی کہ ہم اپنی پہچان یا شناخت کیوں چھپائیں۔ ہر مسلم لڑکی کو اپنی شناخت کے ساتھ آگے آنا یعنی ہر محاذ پر سرگرم ہونا چاہئے۔ یہ ایسا پیغام ہے جس کا عام کیا جانا خاص طور سے ان دنوں عام کیا جانا وقت کا تقاضہ ہے۔
  خواتین اور لڑکیوں کو قدرت نے جن صلاحیتوں اور قابلیتوں سے نوازا ہے حجاب لگانے سے وہ ان سے محروم نہیں ہوجاتیں البتہ اس لباس یا حجاب کا تقدس و تقاضہ یہ ہے کہ اپنے آپ کو سنبھالا جائے۔ سوشل میڈیا پر ممبئی کی ایک تفریح گاہ ’’بینڈ اسٹینڈ‘‘ پر عشاق یا عشق کرنے والے جوڑوں کی بھیڑ میں چند باحجاب لڑکیاں بھی دیکھی گئیں جو ساحل سمندر کی کسی چٹان پر اپنے پسندیدہ شخص یا محبوب کے ساتھ ایک خاص کیفیت میں بیٹھی ہوئی ’’رکھ کے منہ سوگیا آتشیں رخساروں پر‘‘ کا سماں پیدا کررہی تھیں۔
 بہرحال ان باحجاب لڑکیوں یا خواتین پر جنھوں نے دوڑ میں حصہ لیا کوئی جبر نہیں کیا گیا اور خوشی کی بات یہ ہے کہ جب وہ باحجاب دوڑ میں شامل ہوئیں تو انھوں نے شناخت چھپائے بغیر بھرپور زندگی جینے پر اصرار کیا اور دوڑ کا اہتمام کرنے والوں کے ساتھ تماشا دیکھنے والوں نے بھی ان کی ستائش کی۔
  جو معاشرہ اس کشادہ قلبی اور ذہنی وسعت کا مظاہرہ نہیں کرتا وہ زیادہ دنوں تک صحتمند نہیں رہتا۔ کالم نگار کو تینوں لڑکیوں کی یہ بات قابل توجہ معلوم ہوئی کہ ’’ہم اپنی شناخت کیوں چھپائیں‘‘ ساتھ ہی وہ لوگ بھی اچھے لگے جنھوں نے ان کے حوصلے اور جذبوں کی ستائش کی۔ ظاہر ہے یہ وہ لوگ ہیں جن کے گھروں میں حجاب نہیں لگایا جاتا مگر ان کو اس حقیقت کا احساس اور پاس ہے کہ مخلوط معاشرے میں اگر حجاب لگانے میں جبر کو برا سمجھا جاتا ہے تو جبر سے حجاب اتروانے یا باحجاب رہنے والی خواتین اور لڑکیوں کی راہ میں روڑے اٹکانے یا ان کی شخصی آزادی کو پسماندگی قرار دینے والے بھی غلط ہیں۔ راقم الحروف اسی صحت مند نقطۂ نظر کے فروغ کا قائل ہے، اس کو حجاب میں دوڑتی لڑکیاں اور خواتین بھی اچھی لگیں اور ان کو اچھا کہنے والے منتظمین اور تماش بین بھی صحت مند نقطۂ نظر کے حامل نظر آئے۔n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK