• Fri, 15 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

خلائی سائنس میں عالمی اور ہندوستانی پیش رفتیں

Updated: August 27, 2023, 6:55 PM IST | Aakar Patel | Mumbai

اس میں شک نہیں کہ ہندوستان نے کافی پیش رفت کی ہے مگر اس سے زیادہ ایسی ہے جس کی تیاری مکمل ہوچکی ہے۔ لطف تب آئیگا جب مریخ تک ہماری رسائی ہوگی۔

Photo. INN
تصویر:آئی این این

اب تک ککا جو آخری خلاء باز چاند کی سرزمین پر پچاس سال پہلے اُترا تھا۔ جو لوگ اُس وقت چاند پر گئے وہ امریکی تھے اور اُن کے نام تھے: سرنین، ایوانس اور اشمٹ، مگر ہم ان ناموں سے اتنے واقف نہیں جتنے آرم اسٹرانگ کے نام سے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ۱۹۶۹ء میں پہلی لینڈنگ کے بعد ایسا محسوس کیا گیا تھا کہ خلائی دوڑ ختم ہوگئی۔ خلائی پروگرام بہت مہنگے ہوتے ہیں اور چونکہ عوام کی دلچسپی اس میں کم ہوگئی تھی اس لئے امریکیوں اور روسیوں نے ۱۹۶۹ء کے بعد اس میں کوئی خاص دلچسپی نہیں لی۔ آرام اسٹرانگ کی کامیابی کے بعد مریخ کو تسخیر کرنے کا منصوبہ ضرور بنایا گیا تھا مگر اسے روبہ عمل نہیں لایا گیا۔ یہ منصوبہ وون بران نامی ایک ایسے راکٹ سائنٹسٹ نے بنایا تھا جو نازی تھا اور جسے امریکیوں نے گرفتار کیا تھا۔ چونکہ وہ خلائی سائنسداں تھا اس لئے امریکیوں نے اُسے خلائی پیش رفت کے اُمور کا سربراہ بنادیا مگر اپولو مشن دھرے کے دھرے رہ گئے۔ ایس سیٹرن فائیو نامی جس بہت بڑے خلائی جہاز نے خلاء کا سفر کیا تھا اور جس میں امریکی خلاء باز موجود تھے، اُسے تلف کردیا گیا۔ اس کے بعد خلائی شٹل تیار کیا گیا جو زیادہ موزوں تھا۔ اس کی خاص بات یہ تھی کہ اس کے بیشتر کل پرزے اور حصے دوبارہ استعمال میں لائے جاسکتے تھے۔ امریکی خلاء باز اس شٹل کے ذریعہ زمین کے زیریں مدار (لووَر ارتھ آربٹ) میں داخل ہوئے تھے۔
  یہ شٹل ۱۹۸۱ء سے ۲۰۱۱ء تک کارآمد رہا۔ اس کے بعد ایک دہائی تک امریکہ اس بات کا متحمل نہیں ہوسکا کہ اپنے خلا بازوں کو بین الاقوامی خلائی اسٹیشن روانہ کرسکے تاوقتیکہ ایک نجی کمپنی (اسپیس ایکس) اس کی متحمل ہوگئی۔ یہ تب کی بات ہے جب پوری دُنیا کووڈ سے پریشان تھی۔مذکورہ ایک دہائی کے دوران ناسا اور یورپی خلا باز روسی راکٹوں کے ذریعہ خلاء میں گئے۔ دورِ حاضر میں سب سے زیادہ فعال دو خلائی پروگرام ہیں اور یہ دونوں ہی مذکورہ کمپنی اسپیس ایکس اور چین کے ذریعہ چلائے جارہے ہیں۔ ۲۰۲۲ء میں اسپیس ایکس نے ۶۱؍ مرتبہ خلائی سفر کا اہتمام کیا جبکہ چین کو بھی اتنی کامیابی ملی۔ اس کے مقابلے میں ہندوستان یعنی اِسرو نے ۲۰۲۲ء میں چار مرتبہ کامیاب لانچ کا اہتمام کیا جس میں تین پی ایس ایل وی تھے اور ایک جی ایس ایل وی۔ اسے اب ایل وی ایم کا نام دیا گیا ہے۔ ہمارے مشن اتنے کم کیوں رہے اس سوال پر زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہمارا بجٹ کافی کم ہے حانکہ ہماری آرزو پورے خلاء کو مسخر کرلینے کی ہے۔ 
 ہندوستان کے مون مشن (چاند پر جانے کا پروگرام) کی شاندار کامیبی کے بعد اب کوشش یہ ہوگی کہ زمین کے مدار (آربٹ) میں انسان کو بھیجا جائے۔ ہندوستان نے ۱۹۸۰ء کی دہائی میں اس پر کام شروع کیا تھا لیکن تب ہمیں سوویت یونین کا بنایا ہوا راکٹ استعمال کرنا پڑا تھا۔ راکیش شرما واحد ہندوستانی شہری ہیں جنہیں ایک بڑا اعزاز حاصل ہوا۔ یہ اپریل ۱۹۸۴ء کی بات ہے یعنی اب سے چالیس سال پہلے کا واقعہ۔ اگر سب کچھ ٹھیک رہا تو  ہندوستان آئندہ دو تین سال میں باقاعدہ خلا بازوں کو بھیجنے میں کامیاب ہوگا۔ اسے گگن یان مشن نام دیا گیا ہے۔ اب تک جو کام ہوا ہے اس کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ ہندوستان اپنے گگن یان مشن کا بہت اہم معرکہ تو سر کرچکا ہے اور وہ ہے آربٹ میں راکٹ بھیجنے کا۔ اس تجربے سے ثابت ہوگیا کہ ہندوستان میں اتنی صلاحیت اور طاقت ہے کہ کئی بات آربٹ میں جاسکے۔ جس دن ہم اسپیس فلائٹ کے ذریعہ انسانوں کو خلاء میں بھیجنے کے قابل ہوجائینگے تب ہمارا شمار دُنیا کے پانچویں ملکوں یا کمپنی کے ساتھ کیا جائیگا، روس، امریکہ، چین اور اسپیس ایکس کے بعد۔ جس دن یہ معرکہ بھی سر ہوجائیگا تب ہم مزید پیش رفتیں جاری رکھنے کے قابل ہوجائینگے۔ مزید سے کیا مراد ہے؟
 مزید سے مراد یہ کہ ہمارے خلائی پروگرام کا حتمی مقصد قومی افتخار نہیں ہے کیونکہ جو معرکے ہم سے پہلے سر کئے گئے، وہ ہم سے پیچھے ہوجائینگے۔ نئے معرکہ کی کافی تیاری مکمل ہوچکی ہے۔ آربٹ میں پہنچنے والا پہلا انسان، خلاء میں اُترنے والا پہلا انسان (اسپیس واک)، چاند پر قدم رنجہ ہونا، یہ سب گزشتہ پچاس برس میں ہوچکا ہے۔ کئی لوگ اپنے خلائی اسٹیشن میں ایک سال گزار چکے ہیں۔ چنانچہ اب جو معرکہ باقی ہے وہ مریخ پر انسان کی رسائی اور وہاں مستقل مستقر قائم کرنا ہے۔ جس دن ہم یہ معرکہ سر کرلیں گے ہم یہ اعزاز حاصل کرنے والے اولین ملک ہونگے۔ 
 بتادیں کہ مریخ پر پہنچنا ہی واحد مقصد نہیں ہے بلکہ انسان چاہتا ہے کہ انسانی تہذیب کو وہاں تک پہنچانا ہے۔ جس دن ہمارے سیارے (پلانیٹ) سے خلائی جہاز کسی دوسرے سیارے تک پہنچنے میں کامیاب ہوگا، اُس دن یہ جہاز کسی ملک کا اعزاز نہیں ہوگا بلکہ ایک سیارے (پلانیٹ) کا اعزاز ہوگا۔ وہ خلائی جہاز ایک سیارے سے دوسرے سیارے میں داخل ہونے والا سفیر ہوگا۔ مستقبل میں جب بھی ایسا ہوگا وہ بڑی کامیابی کاوقت ہوگا۔ ایسی کسی پیش رفت کو انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن کی منظوری حاصل ہے۔ امریکہ، جاپان، روس، کناڈا اور یورپی یونین یہ معرکہ سر کرنے کی فکر میں ہیں ۔ یہاں یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ یوکرین کی جنگ کی وجہ سے چاہے جتنی تلخی مختلف ملکوں کے تعلقات میں پائی جارہی ہو، ان ملکوں کا خلائی پروگرام بدستور جاری ہے۔ایسا اس لئے ہے کہ خلائی پیش رفت یا حصولیابی ملکوں کے باہمی رشتوں سے زیادہ اہم تصور کی جارہی ہے۔ چین آئی ایس ایس کمیٹی کا رکن نہیں ہے مگر اس نے اپنا علاحدہ اسپیس اسٹیشن بنا رکھا ہے جس میں سال بہ سال توسیع ہورہی ہے۔
 سائنس بالخصوص خلائی سائنس ہمیں نسل انسانی کے طور پر اور ایک سیارے کے باشندوں کے طور پر ایک دوسرے سے مربوط کرتا ہے۔ سنتے ہیں کہ جتنے خلاء باز اب تک خلاء میں گئے ہیں وہ ہماری اس دُنیا کو اس طرح دیکھتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی نہیں دیکھتا۔ وہ ہماری اس دُنیا، اس زمین کو ایک ایسی اکائی کے طور پر دیکھتے ہیں جس پر سرحدوں کی مصنوعی لکیریں نہیں ہیں او رجس میں نہ کوئی نسل ہے نہ ہی کوئی تفریق و تعصب۔کیا یہی نظریہ سب کا نہیں ہونا چاہئے؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK