یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے کہ معاشرہ میں لڑکیاں تو پڑھائی لکھائی میں تیز، سنجیدہ اور محنتی ہیں مگر یہی خصوصیات لڑکوں میں دکھائی نہیں دیتیں جبکہ لڑکوں کی تعلیمی ترقی بھی اُتنی ہی ضروری ہے جتنی کہ لڑکیوں کی۔
EPAPER
Updated: December 24, 2023, 2:04 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے کہ معاشرہ میں لڑکیاں تو پڑھائی لکھائی میں تیز، سنجیدہ اور محنتی ہیں مگر یہی خصوصیات لڑکوں میں دکھائی نہیں دیتیں جبکہ لڑکوں کی تعلیمی ترقی بھی اُتنی ہی ضروری ہے جتنی کہ لڑکیوں کی۔
یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے کہ معاشرہ میں لڑکیاں تو پڑھائی لکھائی میں تیز، سنجیدہ اور محنتی ہیں مگر یہی خصوصیات لڑکوں میں دکھائی نہیں دیتیں جبکہ لڑکوں کی تعلیمی ترقی بھی اُتنی ہی ضروری ہے جتنی کہ لڑکیوں کی۔ چونکہ معاشرہ کی بہت کم بچیوں کو کریئر بنانے کا موقع ملتا ہے اس لئے یہ دوگنا لازم ہے کہ لڑکوں میں تعلیم سے رغبت پیدا ہو اور وہ بھی سنجیدگی کا مظاہرہ کریں ۔
لڑکوں پر محنت اس لئے ہونی چاہئے کہ وہ کریئر بناسکتے ہیں ۔ اعلیٰ سے اعلیٰ کریئر اپنا سکتے ہیں اور ملک کے ممتاز مناصب تک پہنچ سکتے ہیں ۔ یہ دلچسپی لیں تو سرکاری و غیر سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کی نمائندگی کا خلاء پُر ہوسکتا ہے، مگر، پنگھٹ کی ڈگر اسلئے کٹھن ہے کہ اکثر لڑکے پڑھائی لکھائی میں غیر سنجیدہ ہیں ۔ اُن کا خواب یہ نہیں کہ سائنسداں بن کر نام کمائیں ، اُن کا خواب یہ ہے کہ کم وقت میں زیادہ پیسہ کیسے حاصل کریں ۔ وہ نہیں سوچتے کہ اعلیٰ عہدہ پر فائز ہوکر ملک و قوم کی خدمت کریں ، وہ خود کو مستقبل اور حالات کے حوالے کر دیتے ہیں کہ دیکھا جائے گا۔ اُن میں فوج سے وابستہ ہوکر اپنا اور اپنی ملت کا نام روشن کرنے کی لگن نہیں ہے، وہ کسی شاپنگ مال میں شاپ کرائے پر لے کر بزنس کرنے کے تمنائی ہیں ۔ایسا اس لئے ہے کہ اُن پر محنت نہیں ہورہی ہے۔ وہ محنت جو گھروں میں ہونی چاہئے اور جو والدین نیز گھر کے دیگر بڑوں کو کرنی چاہئے۔ معاشرہ میں وہ محنت بھی نہیں ہورہی ہے جس کے ذریعہ معاشرتی ماحول یکسر بدل جائے اور اس میں تعلیم یافتہ اور اچھے عہدوں پر فائز لڑکوں ہی کی عزت ہو، اُنہی کو ہر معاملے میں ترجیح دی جائے اور اُنہی کو اچھے رشتے میسر آئیں ۔ یہ آناً فاناً نہیں ہوسکتا مگر اس کی فکر بھی اب تک پیدا نہیں ہوئی ہے۔
اس کیلئے، جیسا کہ عرض کیا گیا، سب سے زیادہ والدین ذمہ دار ہیں ۔ جو اساتذہ دس قدم آگے بڑھ کر طلبہ کی مدد اور رہنمائی کیلئے تیار اور آمادہ رہتے ہیں ہم نے اُن سے گفتگو کے بعد یہی نتیجہ اخذ کیا ہے کہ لڑکوں کے معاملے میں اُن میں اُمید سے زیادہ مایوسی ہے۔ لڑکا پڑھائی میں دلچسپی ہی نہ لے تو اسکول کے اوقات میں اُس پر خصوصی توجہ اور اسکول کے بعد اُنہیں اپنا قیمتی وقت دینے پر آمادہ اساتذہ بھی کچھ نہیں کرسکتے۔ ہم اس تفصیل میں نہیں جائینگے کہ لڑکوں کی عدم دلچسپی کے اسباب کیا ہیں ۔ اس سے ہر خاص و عام واقف ہے۔ مگر واقف ہونے اور کچھ کرنے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
ہونا کیا چاہئے؟ یہی کہ معاشرہ کا ایک ایک فرد سوچے کہ وہ اس صورت حال کو بدلنے کیلئے کیا کرسکتا ہے۔ ہر سال ایس ایس سی کیلئے بورڈ امتحان دینے والے لڑکوں میں کتنے ہیں جو گیارہویں میں داخل ہوتے ہیں ؟ کتنے ہیں جو بارہویں کے بعد کالج میں ایڈمیشن لیتے ہیں ؟ کتنے ہیں جو سینئر کالج سے اس عزم کے ساتھ نکلتے ہیں کہ اُنہیں معاشرتی انقلاب کا حصہ بننا ہے؟
یہ تین سوال ہیں اور تینوں کا جواب اطمینان بخش نہیں ہے۔ خدارا کچھ سوچئے، کچھ کیجئے، کوئی لائحہ عمل بنائیے، اگر کسی علاقے یا شہر میں لائحہ عمل بنایا گیا اور اس پر سرگرمی کے ساتھ کاربند رہنے کے بعد مثبت نتائج برآمد ہوئے ہوں تو اس کی تشہیر کیجئے تاکہ دوسروں کو ترغیب ملے اور وہ بھی آپ کے لائحہ عمل سے فائدہ اُٹھاکر ملت کا مستقبل تبدیل کرنے کیلئے کوشاں ہوں ۔