مدنپورہ کی عرب مسجد کے ٹرسٹی انصاری رفیق احمد کا کہنا ہے کہ آج وہ جو کچھ بھی ہیں،اس میں ان کے والدین کی تربیت کا بڑا اثر ہے۔ وہ عمر کے اس مرحلے پر بھی پوری طرح چاق و چوبند ہیں اور معاشی، سماجی ،تعلیمی اور ملّی کاموںمیں سرگرم ہیں۔
EPAPER
Updated: December 17, 2023, 12:57 PM IST | Saadat Khan | Mumbai
مدنپورہ کی عرب مسجد کے ٹرسٹی انصاری رفیق احمد کا کہنا ہے کہ آج وہ جو کچھ بھی ہیں،اس میں ان کے والدین کی تربیت کا بڑا اثر ہے۔ وہ عمر کے اس مرحلے پر بھی پوری طرح چاق و چوبند ہیں اور معاشی، سماجی ،تعلیمی اور ملّی کاموںمیں سرگرم ہیں۔
مدنپورہ کی علمی ،سماجی ،معاشی، ادبی، تعلیمی اور ملّی سرگرمیوں میں جن اہم خانوادوں تعاون رہاہے،ان میں انصار ی محمد نذیر عرف’مولانا‘ کا خانوادہ بھی شامل ہے۔ ان کی ہمہ جہت خدمات کا اعتراف ان کے غیاب میں بھی کیاجاتا ہے۔یہاں کی سرگرم تنظیم حلقہ احباب اورحلقہ اطفال وغیرہ مولانا کی ملّی بصیرت کامظہر رہے ہیں۔ انصاری رفیق احمد اسی خانوادہ کے چشم وچراغ ہیں۔ والدمحترم کے نقش قدم پر عمل کرتےہوئے رفیق انصاری نے مدنپورہ واطراف کےعلاوہ شہر کے دیگر بالخصوص مسلم حلقوں میں اپنی منفرد شناخت قائم کی ہے۔ متعدد سماجی ،تعلیمی اور ملّی اداروں سے وابستہ ہونے کےساتھ ہی حلقہ احباب کو کامیابی سے جاری رکھاہے۔ عرب مسجدکےٹرسٹی کی حیثیت سےاپنی ذمہ داریاں ادا کررہےہیں ۔ ان تمام مصروفیات کے ساتھ مطالعہ کا بھی گہرا شوق رکھتےہیں ۔ یہی وجہ ہےکہ پابندی سے اس کالم کو پڑھتے ہیں اور کالم کیلئے متعدد سن رسیدہ افراد سے کالم نویس کومتعارف بھی کراچکےہیں ۔ کئی بار کی درخواست پروہ کالم کیلئے اپنا انٹرویو دینے پر آمادہ ہوئے۔ان سے بات چیت کیلئے مولانا آزاد روڈ ، سانکلی اسٹریٹ جنکشن پر واقع کے ایس اے الاف ٹاور میں ملاقات ہوئی۔۲؍ بیڈروم کے انتہائی خوبصورت فلیٹ کے ہال میں ۲؍ دیواروں سے لگے خوبصو رت صوفوں کے درمیان ایک شیشے کی چھوٹی میز پر کھجور،میوجات اورپانی سے مضمون نگار کا استقبال کیا گیا۔رسمی گفتگو کے بعد کالم سےمتعلق ہونےوالی گفتگو دلچسپ رہی۔
۷۵؍سالہ انصاری رفیق کی پیدائش مدنپورہ میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم پتھروالی اسکول سے حاصل کرنے کے بعد ایس ایس سی صابو صدیق ٹیکنیکل اسکول سے اور پوسٹ گریجویشن مہاراشٹر کالج سے کیا۔ بچپن سے ہی اسکول اور کالج میں سرگرم رہے۔ پوسٹ گریجویشن کا امتحان ختم ہوتے ہی والد صاحب نے عملی زندگی کی باگ ڈور سنبھالنےکیلئے دکان کی چابی ان کے حوالے کردی۔ ان کا کاروبار الیکٹر ک کے سازوسامان کی فروخت کاتھا۔ اسکول کےدنوں ہی سے دکان پر بیٹھنے اور کاروبار کا تجربہ ہونےکی وجہ سے اسی کاروبار سے منسلک ہوئے،جو اَب بھی جاری ہے۔ معاشی سرگرمی کے ساتھ ہی سماجی ،تعلیمی اور ملّی کارگزاریاں بھی ان کی مصروفیت کاحصہ ہیں ۔ ان تمام کاموں کے ساتھ انہوں نے ایک اہم تخلیقی کارنامہ انجام دیاہے۔۱۹۹۴ءمیں وہ حج بیت اللہ پر گئے تھے۔ دوران حج وہاں کی پاک اور متبرک سرزمین سے متاثرہوکر انہوں نے’’اےاللہ میں حاضرہوں ‘‘کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ہے اس کتاب کو وہ اپنی زندگی کا بیش قیمتی کارنامہ قرار دیتےہیں۔
انصاری رفیق احمد کو اپنی زندگی کے بہت سارے واقعات یاد ہیں لیکن ان میں کچھ ایسی د لچسپ اور انوکھی یادیں ہیں جن کے بارے میں اب بھی سوچ کر وہ خوب محظوظ ہوتےہیں۔ ایسی ہی ایک یاد کا انہوں نے تذکرہ کیا۔ وہ اپنی بلڈنگ کی دسویں منزل کی بالکنی میں کھڑے ہوکر مولانا آزاد روڈ کا نظارہ کررہےتھے۔ اچانک اقبال کمالی ہوٹل کی طرف سے ایک شخص ہاتھ میں کچھ اُٹھائے اور چلاتے ہوئے گزرتا دکھائی دیا۔ اُسے دیکھتے ہی رفیق احمد کو وہ زمانہ یاد آیاجب ہفتہ روزہ نشیمن کا لوگ جمعہ کی شام بڑی بےصبر ی سے انتظار کرتے تھے۔ناگپاڑہ کی طرف سے ایک سائیکل سوار اخبار فروش ،ہاتھ میں نشیمن کی ایک کاپی اُٹھائے، چلاتے ہوئے یہاں سے گزرتا ، لوگ ہاتھوں ہاتھ اس سے اخبار خریدتے۔ اخبار کی بے باک خبریں پڑھ کر حالات حاضرہ پر گھنٹو ں تبصر ہ ہوتا۔ اسی طرح ہرہفتے، مہالکشمی ریس کورس میں ہونےوالی گھوڑوں کی دوڑ سے متعلق ایک بندہ ہاتھ میں ’قلی ‘ نامی کتابچہ اُٹھا ئے چلاتے ہوئے آتا ۔ گھوڑے پر جوا لگانےوالے اس کے منتظر ہوتے۔ کتابچہ میں کس گھوڑے پر جوا کھیلنا چاہئے ، اس کی پیش گو ئی کی جاتی ۔ جواری کتابچہ خرید کر جوا کھیلنے کامنصوبہ بناتے۔ جواریوں کے ۲؍اڈے تھے۔ ایک تواقبالی کمالی ہوٹل جنکشن، جہاں آج سرور لائبریری ہے۔ اس دور میں وہاں گھوڑا گاڑیاں باندھی جاتی تھیں ،اسی طرح جھولا میدان سےمتصل ایک پیائو اور گھوڑا گاڑی اسٹینڈ ہواکرتاتھا۔ ان دونوں اسٹینڈ سے گھوڑا گاڑی والے جواریوں کو ریس کورس لے جاتےتھے۔ ریس کےبعد ان گھوڑا گاڑی سےلوگ واپس بھی آتے۔ ہار کر آنے والے گھوڑاگاڑی کے کوچوانوں پر غصہ اُتارتے ۔ انہیں کرایہ تک نہیں دیتے تھے۔ وہ بڑا دلچسپ منظر ہوتا تھا۔
والدہ سے ملنے والی تعلیم اور ترغیب کا رفیق احمد پر خاص اثرہے۔ ۷۰ء کی دہائی کی بات ہے۔ان کے آبائی وطن مئوآئمہ کےمتمول اٹھ بھیئن خانوادہ کی ایک خاتون کینسر کے علاج کیلئے ممبئی آئی تھیں۔ رفیق احمد کی والدہ نے ایک مہینہ تک ٹاٹااسپتال میں ان کی جس طرح خدمت کی تھی ، وہ اب بھی نہیں بھول سکےہیں۔ روزانہ صبح ۹؍سے شام ۵؍بجے تک وہ اسپتال میں ان کی تیمارداری کرتیں ۔ ا ن کے علاوہ وارڈ کے دیگر مریضوں کی دیکھ بھال ،ان کے زخموں کی صفائی اور ان کی دیگر ضروریات پوری کرنا وہ اپنا فرض سمجھتی تھیں ۔ اسے اتفاق کہاجائے یااللہ کی مرضی، ۲۰؍سال بعد وہ( والدہ )خود کینسر کے عارضہ میں مبتلاہو گئیں ۔ علاج کیلئے انہیں بامبے اسپتال داخل کیاگیا۔ جہاں ایک خاتون سماجی کارکن انہیں تسلی دینے لگیں ، انہوں نے اس کی باتیں سنیں ۔ اس کے جانے کے بعد رفیق احمد سے انہوں نے کہا کہ’’ بیٹا وہ مجھے تسلی دینےکی کوشش کررہی ہے لیکن مجھے سب معلوم ہے۔ اس کےباوجود مجھے پورا یقین ہےکہ میں نے سب کا اچھا کیاہے اس لئے میرے ساتھ بھی اچھاہوگا۔‘‘
تعلیمی تاش سے علم میں ہونےوالے اضافہ سےمتعلق رفیق احمد کا تجزیہ ہے کہ اُردو کے الفاظ ،جملے اور اِملے کی بندش میں اس شوق کا خاص رول رہاہے۔۱۰؍سال کی عمر میں پہلی مرتبہ تعلیمی تاش سے متعارف ہونے کا قصہ کچھ یوں ہے۔ایک روز ان کےوالد تاش لے کر آئے اور گھر کے سبھی بچوں سے تاش کےبارےمیں دریافت کیا، جس پر رفیق احمد نے کہا کہ میں نے دیکھا ہےکہ ۴؍لوگ سڑک پر بیٹھے تاش کھیلتےہیں جس پر والدمحترم نے کہا کہ وہ تاش جوا ہے لیکن میں تعلیمی تاش لایا ہوں ۔ اس سے تمہارے علم میں اضاف ہوگا۔ اس دن سے گھر میں تعلیمی تاش کھیلنے کا آغاز ہوا۔ اس سے رفیق احمد اور ان کےبھائی بہنوں نے خوب علمی استفادہ کیا۔ اُردو کے جملوں ، الفاظ اور املے کی تربیت اسی شوق کی وجہ سے رہی۔
رفیق احمد کے والدمولانا کی ملّی فکر کااندازہ اس بات سے لگائیں کہ وہ قوم کےبچوں کو علم کے زیور سے آراستہ کرنےکیلئے اپنی تنخواہ میں سے ہر مہینے ۱۰۔۵؍روپے جیب خرچ کےنام پر نکال کر ان پیسو ں سے بچوں کے پڑھنےکیلئے کتابیں خرید تے تھے۔ ان کتابوں کا معقول ذخیرہ ہونےپر انہوں نے عرب مسجد کے زیر اہتمام جاری مجلس کمیٹی کے دفتر کے گوشہ میں حلقہ اطفال کےنام سے لائبریری شروع کی تھی۔ جہاں سے بچوں کو قصے کہانیوں کی کتابیں مفت میں مطالعہ کیلئے دی جاتی تھیں ۔اس لائبریری سے مدنپورہ اور اطراف کے بچوں نے کافی استفادہ کیا۔
زندگی کچھ ایسے سبق دیتی ہے جسے انسا ن فراموش نہیں کرپاتاہے۔ رفیق احمدکے ساتھ بھی کچھ ایسا ہوا ہے۔ طمانچے سے ملنے والا سبق، اب بھی نہیں بھولے ہیں ۔ عرب مسجد کے قریب واقع اومیگا الیکٹر ک شاپ پر اُن کے والد بیٹھا کرتےتھے۔ نماز کےوقت وہ رفیق احمد کو دکان پر بٹھا کر جاتےتھے۔ ایک دن ایک صارف کوئی سامان خریدنے آیا ۔ وہ سامان کی قیمت ۴؍آنے تھی لیکن صارف سے رفیق احمد نے ۵؍آنے لے لئے اور سامان باکس سے نکال کر باکس اُلٹا کرکے اسی جگہ رکھ دیاجہاں سے نکالاتھا۔ تاکہ صارف باکس پر لکھی قیمت نہ دیکھ سکے۔ نماز پڑ ھ کرلوٹنے پر، رفیق احمد نے باکس کی طرف اشارہ کر کے سامان ۵؍ آنے میں فروخت کرنےکی بات والد کو بتائی ، باکس اُلٹا دیکھ کر والد کو کچھ شبہ ہوا۔ انہوں نے رفیق سے پوچھا سامان کتنے کاتھا۔ رفیق احمد نے بتایا ۴ ؍آنے کا، لیکن میں نے ۵؍آنے کا فروخت کیاہے۔ یہ سنتے ہی والد صاحب نے ایک زوردار طمانچہ رفیق احمد کو رسید کیااور فوراً ایک آنا، جاکر صارف کو واپس کرنےکی ہدایت دی۔ چونکہ صارف اسی وقت دکان سے آگے بڑھا تھا،اسلئے رفیق احمد نے دوڑ کر سانکلی اسٹریٹ جنکشن پر اسے پکڑ لیا اور اسے ایک آنا یہ کہہ لوٹایاکہ اس سے غلطی ہوگئی تھی، اس نے ان سے ایک آنا زیادہ لے لیاتھا۔