Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’۱۹۹۲ءفساد کے دوران ہم نے پولیس کو فون کیا توجواب ملا ہم کوئی مدد نہیں کرسکتے‘‘

Updated: April 06, 2025, 12:46 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

مدنپورہ، مارواڑی کی چال کی ۸۱؍سالہ مہرالنساء یوسف کوتوال ۲۰۰۲ء میں تدریسی خدمات سے سبکدوش ہوئیں، وہ آج بھی امور خانہ داری میں بھرپور حصہ لیتی ہیں، چہل قدمی کیلئے پابندی سے گھر سے باہر جاتی ہیں اور اپنے وقت کا بڑا حصہ مطالعے میں صرف کرتی ہیں۔

Mehran-ul-Nisa Yousuf Kotwal. Photo: INN.
مہرالنساءیوسف کوتوال۔ تصویر: آئی این این۔

مدنپورہ، مارواڑی کی چال میں ۱۴؍اگست ۱۹۴۴ءکو پیدا ہونے والی ۸۱؍سالہ مہرالنساءیوسف کوتوال نے ابتدائی تعلیم انجمن اسلام سیف طیب اُردوگرلزہائی اسکول بیلاسس روڈ سے حاصل کی۔ پیڈرروڈپرواقع صوفایاکالج سے بی اے اور قلابہ کے بامبے ٹیچرس ٹریننگ کالج سے بی ایڈ کی پڑھائی مکمل کی۔ ۱۹۷۲ءمیں مدنپورہ گھیلابائی اسٹریٹ میں واقع انجمن خیرالاسلام اسکول اُردو گرلزہائی اسکو ل سے بحیثیت معلمہ عملی زندگی کا آغاز کیا۔ ۳۱؍ سال تک تدریسی ذمہ داریاں نبھائیں۔ ۲۰۰۲ء میں وائس پرنسپل کے عہدہ پررہتےہوئے سبکدوش ہوئیں۔ فی الحال عبادت گزاری اور کتابوں کا مطالعہ اہم مشغلہ ہے۔ تاریخ مضمون کی ٹیچرہونے کے ناطےعالمی تاریخی پس منظر سے خوب واقف ہیں۔ سیاسیات سے گہری دلچسپی رہی۔ سلائی، کڑھائی اور بنائی کابھی شوق ہے۔ جسمانی طورپر خود کو فٹ رکھنےکا عزم بھی ہے، اسلئے ۸۱؍سال کی عمر میں امورخانہ داری میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیتی ہیں۔ گھر کے فرش کی صفائی خود کرتی ہیں اور روزانہ آگری پاڑہ پر واقع بے بی میدان میں چہل قدمی کیلئے بھی جاتی ہیں۔ 
مہرالنساءکےوالدانگریزوں کے دورمیں محکمہ ریلوے میں اعلیٰ عہدہ پر فائز تھے۔ انگریزوں کے ساتھ اُٹھنے بیٹھنے سے ان کی انگریزی بہت اچھی ہوگئی تھی۔ وہ انگریزوں کے تعلق سے بتایاکرتےتھے کہ وہ ان سے ( والد) سے بڑے حسن سلوک سے ملاکرتےتھے، بڑا احترام کرتے تھے۔ یہ لوگ مختلف موقعوں پر ایک دوسرے گھر بھی آتے جاتے تھے اور ایک دوسرے کی خوشی اور غم میں شریک ہوتے تھے۔ تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے مہرالنساءکے والد کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ تقریباً ۵۰؍ سال قبل، ایک روز وہ انگریزی کتاب پڑھ رہےتھے جس میں جن سنگھ کے بارے میں تفصیلی مضمون شائع ہواتھا۔ اس مضمون کو پڑھنےکےبعد انہوں نے اپنی بیٹی مہرالنساء سے کہا تھا کہ جن سنگھ نامی ایک ہندوتواوادیتنظیم تیار ہو رہی ہے جو مستقبل میں مسلمانوں کو بہت پریشان کرے گی۔ جن سنگھ کے خطرناک عزائم کے تعلق سے اور بھی بہت کچھ کہاتھا۔ آج مہرالنساءکو والد صاحب کی باتیں حرف بہ حرف سچ محسوس ہورہی ہیں۔ 
 بابری مسجد کی شہادت کے بعد پھوٹ پڑنےوالے فرقہ وارانہ فساد کے دورا ن مہراُلنساء اپنی سسرال ممبئی سینٹرل پر واقع کیلاش اپارٹمنٹ میں رہائش پزیر تھیں۔ ان کا فلیٹ ممبئی سینٹرل بی آئی ٹی چال روڈ سے متصل بلڈنگ کی پہلی منزل پر واقع تھا۔ پولیس کی موجودگی میں شرپسندوں نے اسی سڑک سے پتھرائو کرکے ان کے گھر کی شیشے کی ساری کھڑکیوں کو توڑ دیا تھا۔ شرپسندوں کےساتھ ہی پولیس بھی ان کی بلڈنگ پر فائرنگ کررہی تھی۔ اس دوران ان کے شوہر یوسف کوتوال کو سلپ ڈسک کی شکایت تھی، اسلئے وہ بستر پر پڑے تھے۔ ایسےمیں مہراُلنساءنے ناگپاڑہ پولیس اسٹیشن میں مددکیلئے فون کیا، وہاں موجود آفیسر نے کہاکہ افراد کی قلت ہے، اسلئے وہ کوئی مدد نہیں کرسکتے۔ پولیس کے رویے سے دلبرداشتہ ہوکر انہوں نے مدنپورہ میں اپنے بھانجے سے ساری کیفیت بیان کیں۔ اس کے بعد پولیس کی مدد سے بھانجے نے انہیں محفوظ طور پر کیلاش اپارٹمنٹ سے مدنپورہ منتقل کیاتب جاکر جان میں جان آئی تھی۔ شرپسندوں کی خود سری، پولیس کے عدم تعاون اور گھرکے سازوسامان کو پہنچنے والے نقصانات سے وہ ذہنی انتشارکاشکارہوگئی تھیں، فساد سے کچھ روز قبل ان کی والدہ کاانتقال ہواتھا۔ ان تمام پریشانیو ں اور مصائب کے دبائو سے انہیں ٹی بی کی شکایت ہوگئی تھی۔ ان عوامل کے بارے میں سوچ کر وہ آج بھی کانپ اُٹھتی ہیں۔ 
مہراُلنسا ءجب صوفایاکالج میں پڑھا کرتی تھیں ، اس دورمیں وہاں امیرگھرانوں کی لڑکیاں پڑھاکرتی تھیں۔ ان میں برلاخاندان کی مہیشوری نامی ایک لڑکی تھی۔ ایک صنعتی گھرانے سے تعلق رکھنے کے باوجو دوہ بے انتہا سادگی پسندتھی۔ سادی سی سفید ساڑی میں ملبوس، لمبے کالے بالوں کی چوٹی کے ساتھ وہ کالج کے کوریڈور میں اپنی کچھ سہیلیوں کے ساتھ اکثر دکھائی دیتی لیکن اس کے مخلصانہ طرزعمل سے کہیں سے بھی برلاخانوادہ کی جھلک نہیں دکھائی دیتی تھی۔ اسی طرح فلم اداکار فیروز خان، سنجے خان اور اکبر خان کی چھوٹی بہن دلشاد اپنے کسی ایک بھائی کےساتھ روزانہ کھلی کارمیں کالج آتی جاتی تھی، موسیقار نوشاد کی بیٹی بھی مہراُلنسا ءکے ساتھ پڑھتی تھی۔ ان سبھی کے ساتھ پڑھنے کا موقع ضرور ملا لیکن مہراُلنسا ءنے کبھی ان سے رابطہ استوارکرنے کی کوشش نہیں کی۔ 
۳۱؍سالہ تدریسی خدمات کےدوران مہرالنسا ءنے اپنی طالبات کو تعلیم کے ساتھ تربیت کےزیور سےبھی آراستہ کیا۔ وہ پریڈ ختم ہونے سے۵؍منٹ قبل پڑھائی روک کر طالبات سے تربیت کی اہمیت اور افادیت پرسیر حاصل گفتگو کرتی تھیں۔ اس کی وجہ سے طالبات ان سے اپنی ذاتی باتیں بھی شیئر کرتی تھیں، جنہیں وہ حل کرنےکی بھرپورکوشش کرتی تھیں۔ طالبات کواچھے برے اور زمانے کی اونچ نیچ کی تمیز بھی سکھاتی تھیں۔ دین و مذہب کی باتیں بھی بتاتی تھیں۔ اس کی وجہ سے طالبات انہیں دل وجان سےچاہتی تھیں۔ وہ اپنی طالبات کی محبوب ٹیچر تھیں۔ اس کا ثبوت یہ ہےکہ معلمی کے پیشے سے ۲۵؍سال قبل علاحدہ ہونے کےباوجود ان کی طالبات انہیں آج بھی یوم ِ اساتذہ پر مبارکباد پیش کرتی ہیں۔ وہ اپنی طالبات کی ذہن سازی بھی کرتی تھیں اور ان سے ایک ماں کی طرح بات کرتی تھیں۔ 
ابھی ۵؍سال پہلے کی بات ہے، مہراُلنساءکی ایک بیٹی آسٹریلیامیں بیاہی ہے۔ وہ بیٹی سے ملاقات کرنے آسٹریلیا گئی تھیں۔ دوران قیام بیٹی کے گھر سےکچھ دوری پر واقع واک ٹیرک پرروزانہ چہل قدمی کیلئے جاتی تھیں۔ وہاں ایک مقام پرنالہ ہونےسے عوام کی آسانی کیلئے بریج بنایا گیاہے۔ ایک روزاچانک نالے کی طغیانی سے بریج پانی میں ڈوب گیا۔ ایسےمیں نالہ پار کرنا ان کیلئے مشکل تھا۔ نالہ پارکرنے کے بجائے گھر جانا آسان تھا، چنانچہ وہ گھر جانے کے بارے میں سوچنے لگیں۔ ایسےمیں وہاں سےگزرنےوالے ایک انگریز نوجوان جوڑے کی ان پر نظر پڑی۔ انگریز لڑکی نے ان کے پاس آکر ان کی پریشانی پوچھی، انہوں نے بتایا کہ میرے لئے یہ نالہ پار کرنا مشکل ہے۔ اس نے کہا کہ آپ بالکل بھی نہ گھبرائیں، میں آپ کو آسانی سے نالہ پار کرادوں گی۔ یہ کہہ اس نے مہراُلنساءکو اپنی گودمیں ایک بچے کی طرح پوری تحفظ کے ساتھ اُٹھاکر نالہ پار کرادیا۔ نالہ پار کرنےکےبعد مہراُلنساء نے اس لڑکی کو بڑی دعائیں دیں اور کہاکہ تم، میری بیٹی ہو۔ مہراُلنسا ء کے مطابق آسٹریلیاکے لوگ بہت مہذب اور مخلص ہوتےہیں۔ 
مہراُلنساء کی شادی بڑی ڈرامائی اندازمیں ہوئی تھی۔ وہ اپنی ایک ٹیچرساتھی کی شادی میں شرکت کرنے گئی تھیں جہاں انہیں ایک خاندان نے دیکھ لیا۔ اور پھر وہیں سے ان کے گھر رشتہ بھیج دیا۔ مہرالنساء کے والد تو شادی کیلئے رضامند ہوگئے لیکن والدہ تیار نہیں تھیں کیونکہ ان کے خاندان کا تعلق اُترپردیش کے الہ آباد سے تھا جبکہ لڑکے والے گجراتی تھے۔ بعد میں معاملات ٹھیک ہوگئے اور اس طرح مورلینڈروڈ کے الاناہال میں ان کانکاح ہوا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK