مدنپورہ کے ۸۶؍سالہ طفیل احمد نے تعلیم ادھوری چھوڑ کر پہلے لیتھ مشین کا کام سیکھا، گاڑیاں بنانا سیکھیں اورآخر میں ڈرائیونگ سیکھی اور اسی کو اپنا ذریعہ معاش بنالیا۔ اس کے بعد ۷۰؍سال سے ڈرائیونگ کررہے ہیں، اہم بات یہ کہ اس دوران کبھی کوئی حادثہ نہیں ہوا۔
حاجی طفیل احمد۔ تصویر : آئی این این
گوشہ ٔبزرگاں کالم کے ذریعے اپنے تجربات سے قارئین کو روشناس کرانے والے مورلینڈ روڈ کے شکیل خان نے گزشتہ دنوں فون کر کے کالم کیلئے نیک خواہشات پیش کیں۔ اسی کے ساتھ مسجد کے ایک ہم عمر ۸۶؍ سالہ ساتھی حاجی طفیل احمد کی زندگی کی روداد کالم میں قلمبند کرنے کی درخواست کی اور سنیچر ۲۹؍ جون کو صبح ۱۱؍ بجے ان سے ملاقات بھی کرائی۔ ہم نے تقریباً ایک گھنٹے بڑی دلچسپ اور معلوماتی گفتگو کی۔
اُترپردیش کے شہزاد پور میں ۱۲؍ جنوری ۱۹۳۸ء کوپیدا ہونے والے ۸۶؍ سالہ حاجی طفیل احمد اس پیرانہ سالی میں بھی فعال ہیں۔ ڈرائیونگ کے پیشے سے تقریباً ۷۰؍ سال سے وابستہ ہیں اور اس عمر میں بھی ڈرائیونگ کرتے ہیں ۔ والد کے ہمراہ بچپن میں آبائی گائوں سے ممبئی آئے، پھر یہیں سکونت اختیار کرلی۔ پتھر والی اسکول سے چھٹی جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ آگے کی پڑھائی پیسوں کی قلت کی وجہ سے نہیں کرسکے۔ اس دور میں پتھروالی اسکول میں ایک ٹیچر طلبہ کو الگ سے انگریزی پڑھاتے تھے جس کی ماہانہ فیس فی طالب علم ۵۰؍ پیسے تھی لیکن طفیل احمد کے پاس ۵۰؍ پیسے کی بھی گنجائش نہیں تھی، اسلئےانہوں نےپڑھائی چھوڑ دی۔ بعد ازیں اپنے ماموں کے ساتھ بیکری کے آئٹم کی پھیری کا کام شروع کیا۔ کچھ مہینوں بعد والد نے ہنر سیکھنے پر زور دیا۔ اس زمانے میں لیتھ مشین کا کام جاننے والوں کی بڑی اہمیت تھی۔ ایک صاحب سے لیتھ مشین کے کارخانے میں کام لگانے کی بات چیت ہوئی۔ اس نے کہا کہ کام پر لگانے کا۵۰؍ روپے لوں گا۔ ان کے والد نے کہا کہ روپے دوں گا لیکن ادائیگی کیلئے کچھ مہلت دی جائے۔ بات چیت طے ہونے پر اس شخص نے انہیں لیتھ مشین کے کارخانے میں کام پر لگا دیا۔ ۳؍ مہینوں میں قسط وار، ۵۰؍ روپے کی ادائیگی کی۔ لیتھ مشین کا کام کرتے ہوئے انہوں نے موٹر گاڑیوں کا کام بھی سیکھا اور ساتھ ہی ڈرائیونگ کی تربیت حاصل کی۔ ڈرائیونگ کو روزی روٹی کا ذریعہ بنایا جو اَب بھی جاری ہے۔ گزشتہ ۷۰؍ سال سے ڈرائیونگ کر رہے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اتنے برسوں میں کوئی بھی حادثہ پیش نہیں آیا۔ انہیں اپنی ڈرائیونگ پر اعتماد ہے۔
یہ بھی پڑھئے:’’بچپن میں مجھے پڑھانے والے ٹیچروں میں ایک پنڈت جی بھی تھےجو روزانہ قرآن کریم کی تلاوت کرتے تھے‘‘
ڈرائیونگ کے طویل تجربے کے دوران طفیل احمد کا سابقہ سانپوں سے بہت پڑا۔ ۶۰ء اور ۷۰ء کی دہائی کے دوران انہیں اپنے کام کے سلسلہ میں بھڑوچ کے قریب واقع ہاسوڈ گائوں اکثر آنا جانا ہوتا تھا۔ وہ کام کیلئے ہر دوسرے تیسرے روز ممبئی سے ہاسوڈ جایا کرتے تھے۔ انہیں جنگل کے راستوں سے گزرنا پڑتا تھا۔ ایسے میں اکثر راستے میں سانپ سے ان کا سامنا ہوتا تھا، وہ سانپ سے ڈرنے کے بجائے سانپ کو ہی اپنی ٹرک سے کچل دیا کرتے تھے۔ اس کی ایک وجہ اپنی جان بچانا تھی تو دوسری وجہ گائوں کے لوگوں کو زہریلے سانپوں سے محفوظ رکھنا تھا۔ اپنی زندگی میں کم وبیش ۳۰؍ تا ۴۰؍ سانپوں کو ٹرک کی مدد سے موت کی نیند سلا چکے ہیں۔
طفیل احمد نے ملک کی آزادی کی سرگرمیاں قریب سے دیکھی ہیں ۔ اس وقت وہ مدنپورہ، پہلی گھیلابائی اسٹریٹ میں رہتے تھے انگریز فوجی ہاتھوں میں گن لےکر گلی محلوں میں گشت کرتے تھے۔ وہ لوگ گن ہوا میں لہراتے ہوئے لوگوں کو ڈراتےاور گھروں میں جانے کی تلقین کرتے تھے۔ چوراہوں پر بڑے بڑے ڈرم رکھے ہوتے جن میں سوراخ کر کے ان سوراخوں سے گنوں کی نلی باہر نکال کر لوگوں کو ہیبت ذدہ کرنے کی کوشش بھی کرتے تھے۔ بعض مرتبہ ہوائی فائرنگ کا سہارا لیا جاتا تاکہ جو لوگ باہر گھوم پھر رہے ہوں وہ فوراً گھروں میں چلے جائیں ۔ بڑا ڈرائونا اور خوفناک ماحول تھا۔ عام دنوں میں یہی فوجی بچوں کو انگلستان کی چاکلیٹ اور بسکٹ وغیرہ بھی کھانے کیلئے دیا کرتے تھے۔
ڈرائیونگ کے ساتھ طفیل احمد کو میکانک کا کام بھی بہت اچھا آتا ہے۔ ۷۰ء کی دہائی میں وہ سات راستہ پر ایک گیرج میں میکانک کا کام کرتے تھے۔ اسی دوران ایک روز فلم اداکارہ نمی کا ڈرائیور گیراج پر آکر کہنے لگا کہ ہماری گاڑی خراب ہے، اسے بنانا ہے، کیا آپ گاڑی بنادیں گے؟طفیل احمد نے اس سے پوچھا کہ گاڑی کہاں اور کس کی ہے جس پر ڈرائیورنے بتایا کہ گاڑی فلم اداکارہ نمی کی ہے۔ جن کی رہائش ورلی سی فیس پر ہے۔ وہاں چل کر گاڑی دیکھنی ہوگی۔ طفیل احمد نے کہا کہ گاڑی بنانے پر مزدور ی ملے گی یا نہیں ، ڈرائیور نے کہا کہ پیسہ دلانے کی ذمہ داری میری ہے۔ طفیل احمد ڈرائیور کے ساتھ نمی کے گھر گئے۔ گاڑی کی خرابی سے متعلق نمی نے طفیل احمد سے بات چیت کی اور گاڑی بنانے کیلئے کہا۔ انہوں نے گاڑی بنائی، مزدوری کے طور پر ا س دور میں انہیں ۲۵؍ روپے ملے تھےجو ایک بڑی رقم تھی۔ بعدازیں کئی برسوں تک انہوں نے نمی کی گاڑی کا کام کیا تھا۔
۱۹۵۵ء میں گیٹ آف انڈیا پر واقع تاج محل ہوٹل میں موٹر گاڑیوں کی نیلامی سےمتعلق ایک پروگرام میں طفیل احمد اپنے ۲؍ ساتھیوں کے ساتھ بولی لگانے گئے تھے۔ اس وقت گاڑیوں کی بولی ۵۰۰؍ یا ۶۰۰؍ روپے سے شروع کی جاتی تھی۔ نیلامی کا پروگرام ختم ہونے کے بعد ان کے ساتھیو ں نے کہا، باربار تاج محل میں آنے کا موقع نہیں ملے گا لہٰذا یہاں آئے ہیں تو کم ازکم یہاں کی چائے پیتے جائیں۔ یہی سوچ کر ان لوگوں نے وہاں چائے پینے کا فیصلہ کیا۔ اس دور میں وہاں ایک چائے کی قیمت ۵؍ روپے تھی۔ تینوں دوستوں نے مشترکہ طور پر ۲؍چائے منگوائی، جس کے انہوں نے ۱۰؍ روپے ادا کئے۔ اُس وقت وہ ۱۰؍ روپے بہت زیادہ لگ رہے تھے لیکن تاج محل میں چائے پینے کے شوق کی قیمت تو ادا کرنی ہی تھی۔ بہرحال وہاں چائے پینے کے بعد بیرے کو ٹپ دینے کی ہمت ان تینوں میں سے کو بھی نہیں ہوپائی تھی۔
۵۶۔ ۵۷ء میں ممبئی میں وبائی بیماری کے پھیلنے سے افراتفری کا ماحول تھا۔ بیماری کے خوف سے لوگ شہر چھوڑ کر دیگر مقامات پر منتقل ہو رہے تھے جس سے لوگوں کے خوف میں مزید اضافہ ہو رہا تھا۔ بیماری کے خوف سے لوگ اپنے ہمسایوں سے دوری اختیار کر رہے تھے۔ حالانکہ طفیل احمد کےگھر میں کوئی بیمار نہیں پڑا تھا، اس کے باوجود وہ اپنے پڑوسیوں کے گھر جاکر ان کی خیریت معلوم کرتے تھے۔ کسی کو مددکی ضرورت ہوتی تو اس کی ہرممکن مدد کرتے۔ بیماری کی یہ کیفیت تقریباً ایک مہینہ جاری رہی، بعدازیں حالات معمول پر آئے۔
گلی محلوں کی غنڈہ گردی کو بھی طفیل احمد نے قریب سے دیکھا ہے۔ شہر ومضافات کی متعدد علاقوں میں گلی اور محلے کے دادا (غنڈہ ) ہوا کرتے تھے جن سے شریف لوگ پریشان رہتے تھے۔ ایک گلی کے دادا کی دوسرے محلے کے غنڈوں سے اکثر مارپیٹ ہوتی رہتی تھی جس کی وجہ سے علاقےکے لوگ محتاط رہتے تھے۔ مدنپورہ کے دادائوں سےمتعلق طفیل احمد ۲؍ واقعہ نہیں بھولتے ہیں ۔ مدنپورہ کا ایک بدنام زمانہ دادا تھا، جس کانام انہیں یا دنہیں ہے، اس سے علاقے کے لوگ بہت پریشان تھے۔ وہ سانکلی اسٹریٹ کی سڑک پر کھاٹ پر سویا کرتا تھا۔ اس کے دشمنوں نے پہلے اس کے روزانہ کے معمولات کاجائزہ لیا، وہ کس وقت کہاں رہتا ہے؟ کب اور کہاں سوتا ہے؟ بعدازیں ایک روز رات میں جب وہ کھاٹ پر سو رہا تھا، بڑی بےرحمی سے تیز اسلحہ سے اس کی گردن ریت کر، اس کے جسم کو چادر سے ڈھانک کرچلے گئے۔ صبح ہونے پر کھاٹ کے نیچے خون جمع دکھائی دینے پر لوگوں نے چادر ہٹا کر دیکھا تو اس کی گردن دھڑ سے علاحدہ تھی۔ اسی طرح مدنپورہ، حسینی باغ کے قریب ایک غنڈ ے پر دوسرے غنڈ ے نے تلوار سے حملہ کیا تھا جس کی وجہ سے اس کے پیٹ کی آنتیں باہر نکل آئی تھیں ۔ طفیل ا حمد اور ان کے دیگر ساتھیوں نے اس کی آنتوں کو دوبارہ پیٹ میں ڈال کر، پیٹ پر کپڑا باندھ کر اسے نائر اسپتال پہنچایا تھا۔ علاج کےبعد وہ روبہ صحت ہوگیا تھا۔