Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

’’ہاتھ رِکشا والے کی حالت دیکھی نہ گئی، پھر مَیں نے اس سے کبھی سفر نہیں کیا‘‘

Updated: March 30, 2025, 12:32 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

مدنپورہ کی ۷۶؍ سالہ انصاری شبنم محمد سلیم نے مجموعی طورپر ۳۰؍سال تدریسی خدمات انجام دی ہیں، پیرانہ سالی میں بھی ٹیوشن دینےکا عزم برقرار ہے، مطالعہ کی شوقین ہیں، کہتی ہیں کہ ان کا بچپن اور لڑکپن خطرناک شرارتوں سے معمور رہتا تھا۔

Ansari Shabnam Muhammad Saleem. Photo: INN.
انصاری شبنم محمد سلیم۔ تصویر: آئی این این۔

مدنپورہ، مولانا آزاد روڈ کے الاف ٹاور میں مقیم انصاری شبنم محمد سلیم کی پیدائش یکم جون ۱۹۴۹ء کو مالیگائوں کے اسلام پورہ میں ہوئی۔ ساتویں جماعت تک مقامی ضلع پریشد اُردو اسکول سے تعلیم حاصل کی اور میٹرک کی تعلیم مالیگائوں اُردو ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج سے مکمل کی۔ بعد ازیں یہیں کے لشکر کے ایم ایس جی کالج سے بی ایس سی اور ایم ایس سی کرنےکے ساتھ بی ایڈ کیا۔ اس کے فوراً بعد بطور ٹیچر مالیگائوں جونیئر کالج سے وابستہ ہوگئیں۔ ایک سال تک تدریسی خدمات ادا کرنےکے بعد رشتہ ازدواج سے منسلک ہوکر ممبئی منتقل ہوئیں، اور مولاناآزاد اُردوہائی اسکول، مومن پورہ میں ایک سے ڈیڑ ھ سال ملازمت کی، پھر انجمن اسلام محمد اسحاق جمخانہ والا اُردو ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج باندرہ، میں بحیثیت لیکچرار تقرری ہوئی۔ ۲۰۰۷ء تک ادارہ ہذا سے وابستہ رہیں۔ مجموعی طورپرتقریباً ۳۰؍ سال تک درس و تدریس کے پیشہ سے منسلک رہیں۔ سبکدوش ہونے کے بعد گھر پر ٹیوشن دینے کامشغلہ رہا۔ ۲۰۲۴ء میں دبئی جانے سے ٹیوشن کا سلسلہ منقطع ہوگیا لیکن اب بھی انہیں بچوں کو پڑھانے کا شوق ہے۔ بچوں کے بیرونِ ملک اور شوہر کی وفات کے بعد وہ تنہارہتی ہیں۔ پیرانہ سالی میں بھی اپنی ضروریات خود پوری کرلیتی ہیں۔ بچوں کو پڑھانے کے علاوہ مطالعہ کے بھی شوقین ہیں۔ 
۶؍ نشستوں پر ایم ایس سی میں داخلہ
انصاری شبنم کو بچپن سے پڑھائی کا شوق تھا۔ ریاضی اور کیمسٹری ان کے پسندیدہ مضامین تھے۔ مالیگائوں کالج میں ایم ایس سی میں داخلہ کیلئے صرف ۶؍ نشستیں تھیں، ایسے میں شبنم کیلئے داخلہ حاصل کرنا ایک چیلنج تھا، لیکن انہوں نے تہیہ کر رکھاتھاکہ ہر صورت اسی کالج میں داخلہ لینا ہے۔ داخلہ کافارم جمع کرنے کےوقت ان کے صبر کا پیمانہ چھلک گیا، انہوں نے کالج کےانچارج سے جاکر ملاقات کی۔ سب سے پہلے داخلہ سےمتعلق عام گفتگو کی اور جب یہ سمجھ میں آگیاکہ شائستگی سے داخلہ نہیں ملے گاتو انہوں نے انچارج کو دھمکی دیتے ہوئےکہاتھاکہ اگر داخلہ نہیں ملا تو مجھے پتہ ہے کہ کس لیباریٹری میں پوٹاشیم سائنائٹ رکھا ہے، میں اسے استعمال کرلوں گی۔ یہ سن کر انچارج دم بخود رہ گئے۔ ان کی دھمکی کا اثر ہوا یا نہیں لیکن ۶؍نشستوں پر داخلہ حاصل کرنےوالوں کی فہرست میں شبنم کا نام بھی شامل تھا۔ داخلہ ملنے پر شبنم کو بہت خوشی ہوئی تھی۔ 
بچپن میں خطرناک شرارت 
انصاری شبنم کے بچپن میں مالیگائوں میں لو‘م کا کاروبار عام تھا۔ گھر گھر میں لوم کا کام ہوتاتھا۔ ان کے گھر میں بھی سوتی کپڑے تیار کئے جاتے تھے۔ کوئی ۱۰  ؍ سال کی عمر رہی ہوگی۔ جس کمرے میں سوتی کپڑوں کا ذخیرہ تھا، ایک دن وہاں ایک بنڈل کو ماچس سے جلا کر تماشا دیکھ رہی تھیں کہ اچانک آگ بڑھنے لگی۔ جلتے بنڈل کی جانب ا پنی پشت کرکے کھڑی ہوگئیں، پھر جلدی سے چھوٹی بہن کو بلایا اور اپنے سامنے کھڑا کرلیا تاکہ گھروالوں کو آگ نہ دکھائی دے لیکن آگ بڑھنے پر گھر والے جمع ہوگئے۔ پہلے چھوٹی بہن کی خوب پٹائی ہوئی پھر شبنم کی خبرلی گئی۔ آگ سے شبنم کے پشت کا حصہ جل گیاتھا جس کے نشانات اب بھی ہیں۔ آگ کیوں لگائی تھی، اس کا جواب اب بھی انہیں نہیں ملاہے۔ 
 ہاتھ والے رکشا سے کالج نہ جانے کا فیصلہ
 انصاری شبنم جب ایم ایس جی کالج میں زیر تعلیم تھیں تو اس دورمیں رکشا والے سواری بٹھا کر پیدل دوڑتے ہوئےرکشاکھینچتے تھے۔ انصاری شبنم اپنی ایک سہیلی کے ساتھ اسی رکشا میں کالج جاتی تھیں لیکن رکشا والے کی حالت دیکھ کر انہیں بہت ترس آتا تھا۔ وہ سوچتی تھیں کہ ہم رکشا میں بیٹھے ہیں اور رکشاوالا ان کا بوجھ اُٹھا ئے پیدل دوڑ رہاہے۔ یہ خیال انہیں تکلیف دے رہا تھا چنانچہ چند دنوں بعد انہوں نے اس رکشا سے کالج جانا چھوڑ دیا۔ رکشا والے کی حالت، بے بسی اور مجبوری ان سے دیکھی نہ گئی اور انہوں نے ہاتھ والے رکشا میں کبھی نہ بیٹھنے کا فیصلہ کیاتھا۔ 
گنپتی تہوار کے وقت گھر پہنچنے میں دشواری
جس دور میں انصاری شبنم مالیگائوں اسکول میں زیرتعلیم تھیں، اس زمانے میں ہرسال گنپتی کے تہوار کے دنوں میں فساد ہوتاتھا۔ گنپتی کا تہوار تھا، وہ اسکول پہنچیں تو کچھ وقت کے بعد ہی مالیگائوں میں فساد پھوٹ پڑا۔ اسکول میں چھٹی دے دی گئی۔ انصاری شبنم اسکول سے تنہا گھر کیلئے روانہ ہوئیں، راستہ میں شرپسندوں کا ہنگامہ جاری تھا۔ مارپیٹ، آگ زنی، لوٹ مار اور فرقہ واریت کے ماحول میں وہ بچتے بچاتے گھر جارہی تھیں۔ راستہ میں ایک مسلم خانوادہ نے انہیں تنہاجاتے دیکھ کر اپنے گھر میں بلاکر پناہ دی۔ انصاری شبنم وہاں کچھ دیر رکی رہیں۔ جب ماحول ٹھنڈا ہوا تو مختلف گلیوں سے ہوتے ہوئے گھر پہنچیں۔ اس دوران ہونےوالی ذہنی کوفت، وہ نہیں بھول سکی ہیں۔ 
مدنپورہ سے مہالکشمی اسٹیشن تک کا بس سے سفر
انصاری شبنم نے انجمن اسلام باندرہ میں ۲۷؍سال ملازمت کی، اس دوران وہ سالویشن آرمی، مدنپورہ کے قریب سے بس نمبر ۱۶۵؍ پکڑکر مہالکشمی اسٹیشن جاتی تھیں، وہاں سے ٹرین کےذریعے باندرہ اور پھر وہاں سے پیدل اسکول جانا روزکامعمول تھا۔ مدنپورہ سے ایک اور ٹیچر ان کے ساتھ باندرہ جاتی تھی۔ دونوں ٹیچر ۵؍بجکر ۵۰؍منٹ کی بس پکڑتی تھیں۔ بس کنڈکٹر سے ان کی شناسائی ہوگئی تھی۔ کسی دن ان میں سے کوئی ایک تاخیر سے اسٹاپ پر پہنچتا تو کنڈکٹر اس وقت تک بس روکے رکھتا، جب تک ٹیچر نہ آجاتی اور بس میں بیٹھی ٹیچر سے بار بار پوچھتا، ’’آلے کا، آلے کا!‘‘ تاخیر سے آنے والے ٹیچر کے آنے کے بعد ہی بس روانہ ہوتی اور مہالکشمی اسٹیشن کے قریب انہیں اُتارتی۔ جب تک وہ کنڈکٹر تھا، ان ٹیچروں کو یہ سہولت حاصل رہی۔ اسی بس سے کچھ نابینا بھی مہالکشمی اسٹیشن اُترتے تھے جنہیں سڑک پار کراکر اسٹیشن کے احاطہ تک پہنچانے کی ذمہ داری انصاری شبنم ادا کرتی تھیں۔ 
۲۶؍ جولائی۲۰۰۵ء، ممبئی سیلاب کی یادیں 
۲۶؍ جولائی ۲۰۰۵ء کو ہونےوالی موسلادھار بارش سے پورا شہر زیر آب تھا۔ سڑکو ں پر پانی بھر جانے سے آمدورفت کے ذرائع مسدود ہوگئے تھے۔ ایسے میں انصاری شبنم بڑی دقتوں کاسامنا کرکے اسکول سے گھر لوٹی تھیں لیکن ان کے دیگر ٹیچر ساتھی متعدد مقامات پر پھنس گئے تھے۔ ان کے بیٹے کا اس دن لارسن اینڈ ٹوبرو، اندھیری میں انٹرویو تھا۔ وہ وہاں پھنس گیاتھا۔ کمپنی سے نکل کر کسی طرح وہ اندھیری اسٹیشن پہنچا، ٹرین بند ہونے کی وجہ سے پہلے اپنے کسی دوست کے گھر جاکر وقت گزارا بعدازیں ایک عزیز کے گھر قیام کیا۔ ۳؍دن بعد وہ گھر پہنچا تھا۔ ان ۳؍ دنوں کی کیفیت ہی کچھ الگ تھی۔ 
مرحوم خاوند محمد سلیم انصاری میں مدد کا جذبہ
انصاری شبنم کے مرحوم خاوند محمد سلیم انصاری لوگوں کی مدد پر یقین رکھتے تھے۔ انہیں جانورں سے بھی محبت تھی۔ راستے پرپڑے پتھراور کیلے کا چھلکا ہٹانے کے علاوہ معذوراور بیمار افراد کو گھروں تک پہنچانے کیلئے وہ مدنپورہ میں مشہور تھے۔ وہ روزانہ علی الصباح شبنم انصاری کیلئے ناشتہ لانےجاتے تھے۔ واپسی میں ایک کتا ان کے ساتھ گھر تک آتا، وہ اسےکچھ کھلاتے پلاتے، اور وہ لوٹ جاتا۔ یہ سلسلہ بیسوں برس جاری رہا۔ مرحوم شوہر کی ان خوبیوں سے شبنم انصاری اب بھی بہت متاثر ہیں۔ 
منیٰ میں شوہر اور بیٹے سے بچھڑ جانے کا قصہ
حج کے دوران منیٰ میں کنکریاں مارنےکےبعد شبنم انصاری کا خاوند اور بیٹے سے بچھڑ جانےکا قصہ بھی بہت دلچسپ اور حیرت انگیز ہے۔ کنکریاں مار کر لوٹتے وقت شبنم انصاری کو اچانک محسوس ہوا کہ بھیڑ میں وہ اپنے خاوند اور بیٹے سے جدا ہوگئی ہیں، انہیں تلاش کرنا ناممکن تھا، لیکن ان کے ساتھ ان کا معلم تھا، اس لئے وہ محفوظ طورپر اپنے خیمہ میں پہنچ گئیں مگر شوہر اور بیٹے سے بچھڑ جانے سے وہ پریشان تھیں، سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کیا کریں۔ خیمہ کے دیگر عازمین انہیں تسلی دے رہے تھے۔ ۲؍ سے ۳؍ گھنٹے بعد باپ بیٹے جب خیمہ پر پہنچے تو ان کی جان میں جان آ ئی، انہیں دیکھ کر وہ بہت خوش ہوئیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK