کلیان رام باغ کے۷۶؍سالہ ڈاکٹر نذیر احمد شیخ نے نصف صدی سے زائد عرصے تک پریکٹس کرنے کے بعد گزشتہ سال سے از خود سبکدوشی اختیار کرلی ہے، ، ان کے پاس اب بھی اُن کے پرانے مریضوں کی تیسری پیڑھی علاج کیلئے مشورہ طلب کرنے آتی ہے۔
EPAPER
Updated: March 09, 2025, 1:33 PM IST | Saadat Khan | Mumbai
کلیان رام باغ کے۷۶؍سالہ ڈاکٹر نذیر احمد شیخ نے نصف صدی سے زائد عرصے تک پریکٹس کرنے کے بعد گزشتہ سال سے از خود سبکدوشی اختیار کرلی ہے، ، ان کے پاس اب بھی اُن کے پرانے مریضوں کی تیسری پیڑھی علاج کیلئے مشورہ طلب کرنے آتی ہے۔
کلیان، رام باغ میں مقیم ڈاکٹر نذیراحمدمحمداسماعیل شیخ کی پیدائش ۳۱؍ جنوری ۱۹۴۸ءکو ناسک کے لاسل گائوں میں ہوئی تھی۔ ناسک کے ضلع پریشد اسکو ل سےچہارم اور مالیگائوں کے اے ٹی ٹی اُردوہائی اسکول سے نہم جماعت کی تعلیم مکمل کی۔ بھیونڈی کے رئیس ہائی اسکول سے میٹرک اور اسماعیل یوسف کالج جوگیشوری سے انٹرمیڈیٹ کر کے ولے پارلے کےہومیوپیتھی کالج سے ہومیوپیتھی اور ایلوپیتھی کاکورس کیا۔ عملی زندگی کا آغاز بائیکلہ کے مسینا اسپتال سے آرایم او کی حیثیت سے کیا، بعدازیں رام باغ میں اپنی پریکٹس شروع کی۔ ۵۱؍سال تک پریکٹس کرنے کے بعد ایک سال قبل از خود سبکدوشی اختیار کرتے ہوئے اپنی پریکٹس کا سلسلہ ختم کیا۔ فی الحال عبادت کے علاوہ دینی کتابوں کا مطالعہ ان کی مشغولیات کا حصہ ہے۔
نذیر احمد نےکلیان کی معروف تعلیمی شخصیت پروفیسر نظام الدین گوریکر کی رہائش گاہ، دودھ ناکہ سے ۱۹۷۲ءمیں پریکٹس شروع کی تھی۔ یہاں ایک کمرہ کرائے پر لےکر دواخانہ شروع کیاتھا۔ اس وقت وہ کلیان کےپہلے مسلم ڈاکٹر تھے۔ بعدازیں ان کی کلینک رام باغ منتقل ہوئی۔ اس طرح مجموعی طورپرکلیان میں انہوں نے ۵۱؍سال تک پریکٹس کی ہے۔ ان کے متعدد مریض آج بھی ان سے رابطے میں ہیں۔ اب بھی اُن کےمریضوں کی تیسری پیڑھی اُن کے پاس آتی ہے اور ان سے علاج کیلئے مشورہ لیتی ہے۔ نذیر احمد کےدور میں طب کاپیشہ انتہائی مسیحائی والا اور محترم تھا۔ ڈاکٹر اور مریض دونوں کے دلوں میں ایک دوسرےکےتعلق سے احترام تھا۔ پہلے خدمت خلق کے جذبے کےتحت یہ پیشہ اختیار کیا جاتا تھا۔ اب بیشتر ڈاکٹر وں نے اسے پیسہ بٹورنے کا ذریعہ بنالیا ہے۔ اب اس شعبے کو مریضوں کو خوفزدہ کرکےعلاج کےنام پر اضافی رقم وصولنے کا ذریعہ بنا لیا گیاہے۔ ان حرکتوں کو نذیراحمد اس عظیم پیشے کی توہین قرار دیتےہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ سے ڈاکٹروں پر سے مریضو ں اور ان کے رشتےداروں کااعتماد کم ہورہاہے۔
ڈاکٹر نذیر احمد کے ۳؍بیٹے اور ایک بیٹی لندن میں رہائش پزیر ہیں۔ اس لئےانہیں اکثر لندن کادورہ کرنے کاموقع ملتاہے۔ ۲۰۰۵ءکی بات ہے وہ لند ن میں تھے۔ ایک دن کسی کام سے سرکاری دفتر جاناتھا، لندن کے راستوں او ر سواری سے کم آگاہی کےسبب وہ ۳؍منٹ تاخیر سے دفتر پہنچے، جس آفیسر سے ملاقات کرنی تھی وہ مقررہ وقت سے قبل اپنی کیبن میں ان کا منتظر تھا۔ آفیسر کو دفترمیں دیکھ کر ڈاکٹر نذیر کو حیرت ہوئی۔ خیر جس کام سے گئے تھے اس تعلق سے آفیسر سے بات چیت کرنےکےدوران آفیسر نے کہاکہ آپ مقررہ وقت سے ۳؍منٹ تاخیر سے آئے ہیں، جس پرڈاکٹر نذیر نے اپنی غلطی کا اعتراف کرتےہوئےکہاکہ میں لندن میں نیا ہوں اور یہاں کے راستوں اورسواری سے ناواقفیت کی بنا پرتاخیر ہوگئی۔ ان کی بات سننے کے بعد آفیسرنے کچھ نہیں کہا، لیکن وقت کی پابندی اور آفیسر کے اخلاق سے وہ بے حد متاثرہوئے۔
ڈاکٹر نذیراحمد ۲۰۰۰ءمیں حج کرنےگئے تھے۔ اس وقت غیر دانستہ طورپر ان سے ایک غلطی ہوئی تھی جس کاپچھتاوا اُنہیں اب بھی ہے۔ مدینہ منورہ پہنچنے پر جس ہوٹل میں انہیں قیام کرنا تھا، اس ہوٹل کے کائونٹرپر کمروں کے الاٹمنٹ کیلئے حاجیوں کی بھیڑ لگی تھی۔ کائونٹر والا اپنی سہولت کے حساب سے کام کررہا تھا اور کچھ حاجیوں کے ساتھ جانبداری کامظاہر ہ بھی کررہاتھا۔ یہ منظر دیکھ کر ڈاکٹر نذیر کو غصہ آگیا۔ اس موقع پر طیش میں آکر انہوں نےہوٹل کےذمہ دار کو تیز آوازمیں اُلٹا سیدھا کہناشروع کر دیا۔ بات آئی گئی ختم ہوگئی اور اس واقعے کو برسوں ہوگیالیکن سرور دوعالمؐکی بابرکت اور پاک سرزمین پر برہمی اور اُونچی آوازمیں بات کرنےکی یاد جب بھی آتی ہے، وہ احساس انہیں مغموم کرتاہے۔
ڈاکٹر نذیر احمد اپنے زمانہ طالب علمی کی ایک بات کبھی نہیں بھولتے ہیں۔ دراصل اسی بات میں ان کی تعلیمی کامیابی کاراز بھی پوشیدہ ہے۔ پڑھائی کےمعاملے میں نذیر احمد چوتھی جماعت تک بالکل صفرتھے۔ اسکول جانا، دوستوں کےساتھ شرارت اور لڑائی جھگڑا کرنا ہی ان کا کام تھا۔ ان کی شرارتوں کی آئے دن کی شکایتوں سے والدین بہت پریشان تھے۔ ان حالات میں بھی والدہ نذیراحمد کاساتھ دیتی تھی لیکن والد صاحب ان کی پڑھائی سےمتعلق بہت فکرمند تھے۔ اسی دوران ان کےوالد کا تبادلہ ناسک سے مالیگائوں ہوگیا۔ مالیگائوں کے اے ٹی ٹی اسکول میں والد نے نذیر احمد کا داخلہ کرایا۔ یہاں ایک لعل محمد نامی معلم تھے۔ انہوں نے نذیراحمد میں نہ جانے کیادیکھا۔ وہ اسکول کے اوقات میں ایک مرتبہ چائے ضرور پیتے تھے۔ چائے لانےکیلئے انہوں نے نذیر احمد کا انتخاب کیا۔ کلاس میں دیگر طلبہ کے ہونے کےباوجود لعل محمدسر نے نذیر احمد کو چائے لانےکیلئے کیوں منتخب کیا، یہ بات نذیر احمد کو بھا گئی، بس پھر کیاتھا، پڑھائی کےمعاملہ میں جوکایاپلٹ ہوئی، وہ اپنی مثال آپ ہے، ہرسال امتحان میں اوّل آنے کاسلسلہ شروع ہوا، جو میٹرک امتحان تک جاری رہا۔ لعل محمد سر سے نذیر احمد اس قدر متاثرہوئے تھےکہ انہوں نے پڑھائی پر دل وجان سے محنت کی۔ لائبریری کھلنے سے قبل نذیر احمد لائبریری کے دروازےپر اس کے کھلنے کاانتظار کرتے تھے تاکہ وہ لائبریری سے اپنی پسند کی کتابیں حاصل کر سکیں۔
کلیان کی قدیم روایت اور رواداری کے تعلق سے ڈاکٹر نذیر احمد کا خیال ہےکہ اس معاملے میں اہالیان کلیان کو مبارکباد پیش کرنی چاہئے۔ رشتےداروں، عزیزوں اور متعلقین سے تعلقات استوار رکھنےمیں کلیان کے عوام کا جواب نہیں۔ بلاتفریق ایک دوسرے کی شادی، بیاہ، منگنی، موت اورمٹی میں شریک ہونا فرض سمجھتے ہیں۔ دوردراز علاقوں میں مقیم ہونےکےباوجود لوگ ایک دوسرے کے خوشی وغم میں ذمہ داری سے شرکت کرتےہیں۔ ایک دوسرے کے دکھ درد اور خوشی کو اپناسمجھتےہیں۔ یہ کلیان کی ایک اہم خوبی ہے۔ مرد، خواتین، نوجوان اور بچے سبھی ان پروگراموں میں جوش وخروش سےشرکت کرتےہیں۔
ڈاکٹر نذیر کو اسکول کےدور ہی سے فلمیں دیکھنے کا شوق تھا۔ جن دنوں وہ بھیونڈی کے رئیس ہائی اسکول میں زیر تعلیم تھے، ، دوستوں کے ہمراہ جمعہ کو فلم دیکھنے کیلئے بھیونڈی سے کلیان جایا کرتے تھےکیونکہ اُن دنوں کلیان میں جمعہ کوفلمیں ریلیز ہوا کرتی تھیں۔ اسلئے وہ بھیونڈی سے کلیان آتےتھے۔ بھیونڈی میں بعد میں وہی فلمیں دکھائی جاتی تھیں۔ دراصل اس دور میں بھیونڈی میں جمعہ کو فلمیں ریلیز نہیں ہوتی تھیں۔ اس کے علاوہ کلیان کےکرشنا تھیٹر میں دوستوں کے ساتھ فلم دیکھنے کا مزہ ہی کچھ اور تھا۔ انہی دنوں کی بات ہے، ایک مرتبہ بھیونڈی کی ایک لکڑے کی بکھار میں فلم کی شوٹنگ کےدوران دلیپ کمار، وحیدہ رحمان، پران اور دیگر سینئر فنکاروں کو بہت قریب سے دیکھنے کاموقع بھی ملاتھا۔
مالیگائوں کےسردارٹاکیز کے تعلق سے نذیر احمدبتاتےہیں کہ یہاں سنیماہال میں بینچ پر بیٹھ کر لوگ فلم دیکھتے تھے۔ فلم دیکھنےکے دوران کوئی اچھا منظر آنے پر ہال سیٹیوں اورتالیوں سےگونج اُٹھتا تھا۔ اسی طرح فلم کے اچھے اور جذباتی سین پر شائقین کھڑے ہوکر تالیاں بجا تے تھے۔ اور صرف اتنے ہی پر اکتفا نہیں کرتے تھے بلکہ اس سین کو دوبارہ دکھانے کیلئے شور مچاتےتھے کہ دوبارہ دکھائو، دوبارہ دکھائو... لیکن ریل کے آگے بڑھ جانے پر دوبارہ سین کہاں دکھایاجاسکتاہے۔ بڑا دلچسپ اور ہنگامہ خیز منظر ہوتا تھاجب شائقین دوبارہ دوبارہ کا نعرہ لگاتے تھے۔