• Fri, 07 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

ہند پاک جنگ کےدوران لوگ مخصوص مقامات پرجمع ہوکر ریڈیو پر خبریں سنتے اور پھرگھر والوں کوجاکر بتاتےتھے

Updated: February 18, 2024, 11:55 AM IST | Saadat Khan | Mumbai

کرلا قریش نگر کی ۸۵؍سالہ خورشیدبیگم محمد شاکر انصاری نے اُس دور میں چوتھی جماعت تک تعلیم حاصل کی ،اس کے بعد سلائی ، کڑھائی ، کروشیا کے کام اورکشیدہ کاری میں مہارت حاصل کی، آج بھی ہاتھوں سے بچوں کے کپڑے سلتی ہیں اور اس کیلئے ان کی خوب تعریف ہوتی ہے۔

Khursheed Begum Mohammad Shakir Ansari. Photo: INN
خورشید بیگم محمدشاکر انصاری۔ تصویر : آئی این این

کرلا(مشرق) قریش نگر، عمرواڑی کی نوری مسجد کےقریب واقع ایک گھرکےباہر ادھیڑ عمر کے شخص نے ہاتھ کےاشارہ سے کالم نگار کو اپنی جانب متوجہ کیا جس سے درست مقام پر پہنچے کاگمان گزرا۔ سلام دعا کےبعد وہ راقم کو گھر میں لے گئے۔ گھر کے ایک مخصوص گوشے میں لگے بسترپر تشریف فرما ایک سن رسیدہ خاتون کودیکھ کر، اس کالم کیلئے جن سےملاقات کرنی تھی، ا ن کے ہونےکا احساس ہوا۔ ان کے اکلوتےبیٹے محمد خالد انصاری نے اپنی والدہ خورشید بیگم محمدشاکرانصاری(۸۵)اوربیٹی عظمیٰ خالد انصاری سےتعارف کرایا۔ ابھی گفت وشنیدکاسلسلہ شروع ہوا نہیں تھا کہ ان کےگھر سےمتصل آنگن واڑی کی نگراں نیلم بنسوڑے بھی آگئیں۔ ان سب کےموجودگی میں خورشیدبیگم سے۵۰؍منٹ تک گفتگو ہوئی۔ یہ بات چیت کافی دلچسپ اور معلوماتی رہی۔ 
 خورشیدبیگم محمد شاکرکی پیدائش ملک کی آزادی سے تقریباً ۸۔ ۷؍ سال قبل اورنگ آباد(مہاراشٹر)کے قیصر کالونی میں ہوئی تھی۔ ذریعہ معاش کی تلاش میں ان کے والدین ممبئی آئے تو اُس وقت ان کی عمر محض ۴؍ سال تھی۔ اس کے بعد وہپھر یہیں کی ہو کررہ گئیں۔ قریش نگرمیونسپل اُردو اسکول سے چہارم جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ ۸؍سال کی عمرمیں والدین کاسایہ اُٹھ جانے سے، بڑی بہن نے ان کی پرورش کی اور پھر شادی بیاہ کی ذمہ داری بھی انہوں نے ہی نبھائی۔ گھریلو کام کاج کےعلاوہ سلائی، کڑھائی، کروشیا کے کام اورکشیدہ کاری کاخوب تجربہ رہا۔ اپنے بچوں کے علاوہ محلے کےبچوں کےکپڑے مشین سے نہیں بلکہ اپنے ہاتھوں سے سلاکرتی تھیں۔ اب بھی محلے کی کچھ خواتین نومولود بچوں کاجھبلہ اور ٹوپی وغیرہ ان سے سلواتی ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے: اُن دنوں چاول کی بڑی قلت تھی،اسلئےایک کلوچاول کیلئےمدنپورہ سےٹرامبےاوروسئی تک طویل سفرکرنا پڑتا تھا

 ۱۹۶۵ءکی ہندپاک جنگ کی تفصیلات خورشیدبیگم کو بہت اچھی طرح سے یاد ہے۔ لڑاکا جہازوں کےگھروں کے اوپر سے گزرنے کی وجہ سے لوگ خوفزدہ ہوجاتےتھے۔ ان جہازوں کی آواز کافی ڈراؤنی ہوتی تھی۔ لوگ ڈر اور سہم کرگھروں میں دبک کر بیٹھ جاتےتھے۔ جن گھروں میں بجلی کی روشنی دکھائی دیتی، پولیس ان گھروں پر آکر دستک دیتی تھی اور بتی بند کروادیتی تھی۔ اس کے ساتھ ہی گھرکی چھت کے روشن دان کاغذیا کپڑوں سے بند کرواتی تھی تاکہ پتہ نہ چلے کے یہاں کوئی گھر ہے یا لوگ یہاں رہتے ہیں۔ کھانا پکاہونےکےباوجودبم گرنےکے ڈراورخوف سےلوگ کھانا نہیں کھاتے تھے۔ جنگ کی خبریں اخبار اور ریڈیو سے ملتی تھیں۔ قریش نگرمیں ہوٹل اسٹار آف انڈیا میں ایک اخبار آتا تھا جسے پڑھنےکیلئے لوگ قطار لگاتےتھے۔ اخبار کی خبریں پڑھ کر لوگ گھر جاکر متعلقین کو جنگ کی صورت حال سے آگاہ کرتےتھے۔ جن کے پاس ریڈیو تھا، ان کےگھروں کےقریب ریڈیو سیلون اور بی بی سی سننے والوں کاتانتا لگارہتا تھا۔ اس دورمیں قریش نگر میں صرف ۳۔ ۲؍ لوگوں کےپاس ہی ریڈیو تھے۔ اس کی وجہ سے محلے میں مخصو ص مقامات پر جمع ہوکر لوگ ریڈیوپر جنگ کی خبریں سنتے اورپھر اپنے اپنے گھر جاکر اہل خانہ کو ان خبروں سے آگاہ کرتےتھے۔ 
 کرلا (ایسٹ)، قریش نگر، میں انگریز وں کا ایک گودام تھا۔ انگریز افسر ہر ۱۵۔ ۱۰؍دنوں پر مختلف قسم کاسامان لاکر یہاں اسٹور کرتے تھے۔ اس دورمیں قریش نگر میں بڑے جانوروں کا مذبح تھا۔ گودام سےمتصل گوشت بازارہونے سے انگریز افسران یہاں سے گوشت لے جاتے تھے۔ گوشت کےبدلے وہ دکانداروں کو کھانےپینے کاسامان مثلاً میوا جات، بسکٹ اورچاکلیٹ وغیرہ دیتےتھے۔ جس سے یہاں کے لوگ بہت خوش ہوتےتھےکیونکہ یہ سامان انہیں بازار میں نہیں ملتاتھا۔ خورشید بیگم بھی ان انگریزوں کابے صبر ی سے انتظارکرتی تھیں۔ ان کی ساس بھی گوشت کی دکان لگاتی تھیں۔ انگریزاُن سے بھی گوشت لے کر انہیں مذکورہ سامان دیتے تھے۔ جس دن انگریز آنےوالے ہوتے تھے، خورشید بیگم جلدی دکان میں پہنچ جاتی تھیں۔ گوشت دے کر انگریزوں سے بسکٹ اور میواجات لے کر خوشی خوشی گھر لوٹتیں۔ ان انگریزوں کو قریش نگر والے گورےکے نام سے مخاطب کرتےتھے۔ 
 ۷۰ء کی دہائی میں دودھ کی سپلائی کم ہونے سے حکومت نے دودھ کی راشننگ کردی تھی۔ جن کے گھروں میں بچے تھے، انہیں گورنمنٹ کے ذریعے بنائے گئے جرمن کےکارڈ پردودھ ملتاتھا۔ جن کےپاس کارڈ ہوتا، انہیں سینٹروں سے رعایتی دام پر دودھ مل جاتا تھا لیکن جن کے پاس کارڈنہیں ہوتا تھا توانہیں کارڈ ہولڈروں کے بعدبچ جانےوالا دودھ تقسیم کیاجاتاتھا۔ اس کی وجہ سے دودھ کیلئے لوگ گھنٹوں سینٹروں پر قطار لگا کر کھڑے رہتےتھے۔ خورشید بیگم نے عمرواڑی کے سینٹر پر ایک سے ڈیڑھ لیٹر دودھ کیلئے ۴۔ ۴؍ گھنٹے قطار لگائی تھی۔ ایک مرتبہ انہوں نے اپنی۴؍سالہ بیٹی کوپیسہ دے کر دودھ لانےکیلئے بھیجا، سینٹرپر لمبی لائن ہونے کی وجہ سے ان کی بیٹی تھک کر وہیں زمین پر بیٹھ گئی اور کھیلنے لگی۔ کھیلتے کھیلتے اس نے دودھ کے پیسےکچی مٹی میں گاڑدیئے۔ جب دودھ خریدنے کانمبر آیاتو اس کےپاس پیسہ نہ ہونے سے سینٹروالے نے دودھ نہیں دیا۔ اسےوہ جگہ ہی یاد نہیں آرہی تھی جہاں اس نے پیسے گاڑ دیئے تھے۔ خالی ہاتھ گھرلوٹنے پر خورشید بیگم نے بیٹی کو خوب ڈانٹا تھا۔ اس وقت گائے کادودھ ۳؍روپے ۳۰؍پیسے اور بھیس کا دودھ ۴؍روپے لیٹر تھا۔ پریشانی کی بات یہ تھی کہ بغیر کارڈ والوں کو دودھ ملتا ہی نہیں تھا، اسلئے وہ اس اُمیدمیں گھنٹوں قطار لگاتے تھےکہ کارڈ ہولڈروں کےبعد جو دودھ بچ جائے گا، وہ انہیں مل سکتا ہے۔ 
 خورشید بیگم کی زندگی کا ایک افسوس ناک واقعہ ہے جسے وہ نہیں بھول پاتی ہیں۔ تقریباً ۵۰؍سال پہلے کی بات ہے۔ ان کی ایک ہمسایہ کلثوم بانو انجمن خیرالاسلام چراغ نگر گھاٹ کوپر میں زیر تعلیم تھی۔ وہ لوکل ٹرین سے اسکول جایا کرتی تھی۔ ایک روزاچانک پتہ نہیں کیسے کرلا اسٹیشن پرٹرین کی زد میں آنے سے اس کا ایک ہاتھ کٹ گیا۔ کلثوم کے جرأت منداور باہمت ہونے سے، وہ اپنےکٹے ہاتھ کو دوسرے ہاتھ سے اُٹھاکر گھر تک آئی تھی۔ گھر آنےکےکچھ دیر بعد وہ بے ہوش ہوگئی تھی۔ خورشید بیگم نے کلثوم کے کٹے ہاتھ کو اپنی آنکھوں سےدیکھاتھا۔ اس حادثے کی اطلاع سے پورے قریش نگر میں سنسنی پھیل گئی تھی۔ ایک ہاتھ سے معذور کلثوم آج بھی باحیات ہے۔ خورشید بیگم اس کی بہادری اور ہمت سے بہت متاثر ہوئی تھیں، اسلئے جب اور جہاں ضرورت پڑتی ہے، اس کی مثال دینا نہیں بھولتی ہیں۔ 
 اُن دنوں چونا بھٹی میں ایک سودیشی مل ہواکرتی تھی۔ یہ ممبئی کی پہلی سودیشی مل تھی۔ اس مل کی پانی کی ٹانکی قریش نگرکی بلندترین پہاڑی پر نصب تھی جولال ٹانکی کے نام سے جانی جاتی تھی۔ قریش نگر میں پانی کی سپلائی کم ہونےسے یہاں کی خواتین اس پہاڑی پر جاکر لال ٹانکی کے پانی سےاپنے گھروں کے کپڑے دھوتی تھیں۔ خورشدبیگم بھی کپڑے دھونےکیلئے اپنے گھرکی دیگر خواتین کےہمراہ اس پہاڑی پر جاتی تھیں۔ پہاڑی پر آنے جانےمیں تقریباً ایک گھنٹہ صرف ہوتاتھا۔ 
 یہ ۶۶۔ ۱۹۶۵ء کا واقعہ ہے۔ گھر میں پیر لڑکھڑانے سے خورشید بیگم اچانک گرپڑی تھیں۔ اس وقت تو چوٹ لگنےکا احساس نہیں ہوا تھا لیکن ایک ڈیڑ ھ ہفتہ بعد ایک پیر میں شدید درد ہونےپر اُن کے خاوند انہیں جی ٹی اسپتال لے گئے۔ وہاں طبی تشخیص کےبعد ڈاکٹروں نے آپریشن کا مشورہ دیالیکن وہ آپریشن سے بہت خوفزدہ تھیں۔ کسی صورت میں آپریشن کرانےپر آمادہ نہ ہونے سے ان کے خاوند نے ناراض ہوکر انہیں اسپتال ہی میں چھوڑ دیا تھا۔ ڈاکٹربھی پریشان تھے۔ ایسےمیں ڈاکٹروں نے ان کے اُس پیر میں وزنی باٹ باندھ کر انہیں ڈھائی مہینے تک اسپتال میں رکھاتھا۔ جس ہڈی کو درست کرنےکیلئے ڈاکٹر آپریشن کرنےوالے تھے، وہ ڈھائی مہینےتک وزنی باٹ کےلٹکے رہنے سے خود بخود ٹھیک ہوگئی تھی۔ اس کےبعد ڈاکٹر وں نے انہیں اسپتال سے رخصت کردیا تھا۔ ڈاکٹروں کا وہ طریقہ اس قدر کارآمد ثابت ہوا کہ اس کے بعدانہیں کبھی اس پیرمیں کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK