’’میرے پریس میں قرآن مجید کی طباعت ہوتی تھی، ایک مرتبہ قرآن مجید کےنسخوں کی بڑی تعداد جنوبی افریقہ برآمد کی گئی تھی‘‘
EPAPER
Updated: August 04, 2024, 4:55 PM IST | Saadat Khan | Mumbai
’’میرے پریس میں قرآن مجید کی طباعت ہوتی تھی، ایک مرتبہ قرآن مجید کےنسخوں کی بڑی تعداد جنوبی افریقہ برآمد کی گئی تھی‘‘
دفتر کے ایک سینئر ساتھی سے گوشۂ بزرگاں کالم کو مزید دلچسپ اور معلوماتی بنانے سے متعلق گفتگو ہو رہی تھی۔ دوران گفتگو اچانک شہر کی انتہائی فعال سماجی اور کاروبار ی شخصیت خواجہ محمد عارف، جو عرف عام میں کے ایم عارف سے مقبول ہیں ، کا ذکر نکل آیا۔ انہوں نے کہا کہ ان کے تجربات بھی اس کالم میں شائع کئے جاسکتے ہیں ۔ بعد ازاں کالم نویس نے محمد عارف کا موبائل نمبر حاصل کرکےسنیچر۲۷؍جولائی کوانہیں فون کیا۔ رسمی گفتگو کے بعد کالم کی تفصیل بیان کی۔ اتوار۲۸؍جولائی کی صبح ۱۱؍بجے ممبئی سینٹرل، مراٹھامندر سنیماگھر کےسامنے واقع ’حو روِلا‘نامی عمارت کی پہلی منزل کے فلیٹ نمبر ۳؍ میں ملاقات کا وقت طے پایا۔ مقررہ وقت پر ان سے ہونےوالی گفت وشنید انتہائی کار آمد اور دلچسپ رہی۔
۸۲؍ سالہ خواجہ محمد عارف (کےایم عارف )کی پیدائش ۱۹؍ مئی ۱۹۴۲ء کوہوئی تھی۔ سینٹ جوزف انگلش ہائی اسکول، عمرکھاڑی سے ایس ایس سی اور چرچ گیٹ کے، کے سی کالج سے انٹرسائنس کرنے کے بعد کولکاتا سے ایئر کرافٹ مینٹننس میں انجینئرنگ کیا۔ بعدازیں ممبئی لوٹ کر گورنمنٹ آف مہاراشٹر کے محکمہ جہازرانی سے اعزازی طور پر وابستہ ہوگئے۔ عملی زندگی میں طباعت کا کاروبار کیا۔ بیلاسس روڈ، ممبئی سینٹرل پر، اتحاد پرنٹنگ پریس اور ورلی میں ایک اورپرنٹنگ پریس شروع کیا، جہاں صرف قرآن شریف کی چھپائی کی جاتی تھی۔ ۷۰؍ سال کی عمر تک کاروبار سے وابستہ رہے۔ کاروباری مصروفیت کے علاوہ سماجی اور تعلیمی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ تمل ناڈو کے سماجی کارکن بی ایس عبدالرحمان کی معروف تعلیمی اورسماجی تنظیم یونائٹیڈ اکنامک فورم کیلئے اپنی خدمات پیش کیں ۔ ان کی صلاحیتوں اور ان کے جوش کو دیکھ کر بی ایس عبدالرحمان نے انہیں اس ادارے کا ممبئی کا صدر منتخب کردیاتھا۔ محمد عارف نےاس ادارہ کے ذریعے ممبئی کے مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کیلئے بڑی محنت کی۔ عمر کے اس مرحلے پر طبیعت ٹھیک نہیں رہتی، اسلئے کافی دنوں سے انہوں نے گوشہ نشینی اختیار کرلی ہے۔
یہ بھی پڑھئے:’’میں اسماعیل یوسف کالج کے’میس‘ کا سیکریٹری تھا،اسلئےاکثر قادر خان سےملاقات ہوتی تھی‘‘
دلیپ کمار سے خواجہ محمد عارف کے انتہائی قریبی تعلقات تھے۔ رابطہ بننے کا سبب بھی بہت دلچسپ تھا۔ خواجہ محمد عارف انجمن اسلام کے رکن تھے۔ انجمن اسلام کی صدسالہ تقریب سےمتعلق سی ایس ایم ٹی پر واقع انجمن اسلام کے ہال میں دلیپ کمار کی صدارت میں ایک میٹنگ تھی۔ پورا ہال بھراہوا تھا۔ وسیع گول میز کے ایک سرے پر دلیپ صاحب اور دوسرے سرے پر خواجہ عارف بیٹھے تھے۔ میٹنگ کےبیشتر شرکاء دلیپ صاحب کو دیکھنے میں محوتھے لیکن خواجہ عارف انہیں دیکھنے کے بجائے ان کی باتوں کو سرجھکائے نوٹ کر رہے تھے۔ ان کی یہ ادا دلیپ صاحب کو بھا گئی۔ انہوں نے ایک منتظم سے پوچھا کہ وہ بندہ ہاتھ میں کاغذ قلم لئے کون ہے ؟ منتظم نے بتایا کہ وہ عارف ہے۔ دلیپ صاحب نے منتظم نے کہا کہ عارف کو میرے گھر لے کر آنا، یہ بندہ مجھے پسند آیاہے۔ دلیپ صاحب کی ہدایت پر محمد عارف کو ان کی رہائش گاہ باندرہ لے جایا گیا۔ اس دن سے دلیپ صاحب نے انجمن اسلام کے سارے کاموں کی ذمہ داری محمد عارف کو سونپ دی تھی۔ دونوں کے درمیان یہ تعلقات آخر تک رہے۔ اس دوران محمدعارف نےدلیپ صاحب کو ہمیشہ یوسف بھائی سے مخاطب کیا کبھی انہیں دلیپ کمار نہیں کہا، کیونکہ انہوں نے انہیں کبھی دلیپ کمار کی نگاہ سے دیکھا ہی نہیں تھا۔ محمد عارف کی نظر میں دلیپ کمار انتہائی مخلص دوست، ملنسار، ہمدرد اور غریب پرور انسان تھے۔ اعلیٰ مرتبہ ہونے کے باوجود بڑی شائستگی اور خندہ پیشانی سے لوگوں سے ملتے تھے۔ مہمان نوازی کے قائل تھے۔ ایک مرتبہ دوپہر کے کھانے پرسوپ میں بورون توڑکر ملایا اور اپنے ہاتھوں سے خواجہ عارف کو پیش کرتےہوئے کھانے کیلئے کہا تھا۔
دلیپ کمار کے ساتھ ایک یاد گار تصویر میں کے ایم عارف۔ دائیں جانب کی تصویر میں انہیں عمر کے اِس مرحلے پربھی ہشاش بشاش دیکھا جاسکتا ہے۔
خواجہ محمد عارف کے والد خواجہ غلام جیلانی نے بی ایم سی میں ناگپاڑہ کی ۲۰؍ سال تک کارپوریٹر کی حیثیت سے نمائندگی کی تھی، وہ ایک اخبار بھی نکالا کرتے تھے۔ جس کی وجہ سے انہیں ہر جمعہ کو ریلیز ہونے والی فلم کیلئے پریس شو کے ٹکٹ ملا کرتے تھے۔ اس وقت محمد عارف جوہو ایئر پورٹ پر اعزازی طور پر مامور تھے۔ جمعہ کادن تھا، ان کے ایک ساتھی نے فون کر کے کہا کہ گجرات کے ایک منسٹر کو پاکستان کی سرحد کا معائنہ کرنے کیلئے میں ایئر کرافٹ سے جارہاہوں، ایئر کرافٹ میں گنجائش ہے، تم بھی آئو، لیکن محمدعارف نے اپنے ساتھی کو یہ کہہ کر منع کر دیاکہ میں فلم دیکھنے جا رہا ہوں، میں نہیں آئوں گا۔ بدقسمتی سے وہ ایئرکرافٹ پاکستانی حملے میں تباہ ہوگیا۔ ایئر کرافٹ میں موجود کوئی بھی فرد زندہ نہیں بچا۔ محمد عارف اس واقعہ اور اپنی خوش قسمتی کو نہیں بھولتے ہیں۔
خواجہ محمد عارف نے ۷۰ء کی دہائی میں تقریباً ۴؍ سال نوی ممبئی کے بیلاپور میں قیام پزیر تھے۔ اس دوران انہوں نے اپنے کام سے وہاں کے عوام میں بھی اچھی خاصی مقبولیت حاصل کرلی تھی۔ بیلاپور، سیکٹر ۹؍ نارتھ میں اس وقت کوئی مسجد نہیں تھی۔ یہاں کے مسلمان ایک پترے کی شیڈ والی مسجد میں نماز ادا کرتے تھے۔ مقامی مسلمانوں نے مسجد کے قیام کیلئے محمد عارف سے درخواست کی اور کہا کہ ہم لوگ کوشش کر کے تھک گئے ہیں ، ہم سے یہ کام نہیں ہوگا۔ محمد عارف نے ڈیڑھ تا ۲؍ سال سڈکو سے مسجد کیلئے زمین حاصل کرنے کی جدوجہد کی۔ بڑی مشکل سے بیلاپور میں ۲؍ ایکڑ زمین ملی جس کی قیمت اس وقت ۱۰؍ لاکھ روپے تھی۔ زمین کے الاٹمنٹ کے بعد محمد عارف نے الانا سے رابطہ کر کے ساری تفصیلات بیان کیں۔ الانا نے زمین کے علاوہ یہاں مسجد تعمیر کرنے کی پوری ذمہ داری نبھائی۔ اس کے بعد اپنے نوی ممبئی کے قیام کے دوران محمد عارف نے نیرل، پنویل اور دیگر مقامات پر بھی مساجد کے قیام میں تعاون پیش کیا۔
محمد عارف کا ممبئی کے معروف تاج محل ہوٹل سے بڑا قریبی تعلق رہا ہے۔ تاج محل ہوٹل کو ان کا دوسرا گھر بھی کہا جاسکتا ہے۔ تقریباً ۴۰؍ برس تک ان کا شام کا وقت اکثر تاج محل ہوٹل میں دوستوں کے ساتھ گزرا تھا۔ اس دور میں تاج محل ہوٹل اتنا مہنگا نہیں تھا جتنا آج ہے۔ اس دور میں ۴۰۰۔ ۵۰۰؍ روپے میں اطمینان سے ناشتہ ہو جاتا تھا لیکن آج ۴۔ ۵؍ ہزار میں بھی ناشتہ نہیں ہو پاتا ہے۔
محمد عارف کے پریس میں قرآن شریف کی طباعت ہوتی تھی۔ وہ ممبئی کے تاج بُک ڈیو، کریمی بُک ڈپو اور این یو کتاب گھر کو قرآن شریف سپلائی کرتے تھے۔ ان کے پریس سے قرآن شریف کے نسخوں کا ایکسپورٹ بھی ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ انہوں نے سائوتھ افریقہ کے نیروبی میں بڑی تعداد میں قرآن شریف کے نسخوں کا ایکسپورٹ کیاتھا۔