الہ آباد، منصور پارک کے رہنے والے محمد علی کی پیدائش ۱۹۴۶ء میں ہوئی تھی، گھر کی معاشی حالت اچھی نہیں تھی، اسلئے ۱۰؍ سال کی عمر میں تعلیم چھوڑ کر زیورات کی تراش خراش کا کام سیکھنے لگے اور اسی کو اپنا کریئر بنایا اور پھر ۴۰؍ سال تک اسی شعبے سے وابستہ رہے۔
محمد علی۔ تصویر: آئی این این۔
بخشی بازار، منصور پار ک پریاگ راج ( الہ آباد ) کےمحمد علی کی پیدائش یکم جنوری ۱۹۴۶ءکو ہوئی تھی۔ رہائش گاہ سے قریب واقع گُڑیا تالاب نگر پالیکااسکول میں والدین نے ان کا نام لکھوایا تھا، لیکن معاشی کمزوری کے سبب وہ پڑھ نہیں سکے۔ تیسری جماعت تک تعلیم حاصل کرنےکےبعد والدین نے ۱۰؍سال کی عمر میں انہیں ایک مقامی سونار کے یہاں کام سیکھنےکیلئے بٹھادیا تھا۔ اس دور میں چاندی کی قیمت کم ہونے کی وجہ سے زیادہ تر چاندی کےزیورات ہی چلتے تھے۔ سنار کے اسی دکان سے انہوں نے چاندی کےزیورات کو چھینی ہتھوڑی سے تراش خراش کر چمکانےکا ہنر سیکھا اور پھر اسی کو اپنا کریئر بنایا۔ ۴۰؍سا ل کی عمر تک چاندی کے زیوارت کو چمکانے کا کام کیابعدازیں سونےکےزیورات پر تجربہ کیا۔ اس میں بھی کامیابی ملی۔ مجموعی طورپر تقریباً ۵۰؍سال تک یہ کام کیا۔ اس دوران سیکڑوں کلو سونےکےزیورات کو تراشنے کا موقع ملا۔ ابتدائی دور میں انہیں تنخواہ کےطورپر ایک مہینے میں ۴۰؍روپے ملتے، اسی رقم سے گھر کے اخراجات پورے ہوتےتھے۔ اس زمانے میں چاندی ۲؍ روپے اور سونا ۲۰۰؍روپے تولہ تھا۔ نئے زمانے اور جدید مشینوں کی آمد سے جو کام ہاتھ سے کیاجاتا تھاوہ مشینوں سے ہونے لگا۔ جس کی وجہ سے محمدعلی کی فنی صلاحیتوں کی اہمیت کم ہوتی گئی اور وہ بے روزگاری کےدلدل میں دھنستے گئے۔ عمررسیدہ ہونے سے بینائی بھی متاثر ہوئی ہے۔ جس کی وجہ سے اب وہ زیورات تراشنے کاکام نہیں کرتے ہیں ۔
اپنے کریئر کے ابتدائی ۲۵؍سال انہوں نے گھر سے زیورات کو چھلنے کا کام کیا۔ گھرپر سونا چھلنے کےدوران سونے کے باریک باریک ذرات جہاں ان کے اطراف میں جمع ہوجاتے وہیں کچھ ذرات چھٹک کر ان کے جسم میں پیوست بھی ہوجاتےتھے۔ کام ختم کرکے جب وہ اُٹھتے تو کام کرنےکی جگہ پر یہ ذرات گر کر جمع ہوجاتےتھے۔ ان کی بیٹیاں کام ختم ہونے پر اس جگہ پر جھاڑو مارتی تھیں۔ محمد علی نے اپنی بیٹیوں سے کہہ رکھاتھاکہ وہ جھاڑو مارنےکےبعد جمع ہونےوالا کوڑا پھینکیں نہیں بلکہ کسی جگہ جمع کرکے رکھیں۔ لڑکیاں کوڑا جمع کرکےرکھتی تھیں ۔ ہفتہ ۱۰؍ دن بعد کوڑا اور دھول مٹی کو پانی سے بھرے برتن میں ڈال کر اس میں موجود سونا نکال لیا جاتا تھا۔ چونکہ سونا بھاری ہوتاہے، اسلئے پانی میں سونا نیچے بیٹھ جاتا تھا اور دھول مٹی بہہ جاتی تھی۔ اس دھول مٹی سے جو تھوڑا تھوڑاسونا نکلتا، اس جمع کرکے رکھ دیا جاتا تھا اور پھر برسوں بعد اس سے ان کی بیٹیاں اپنا زیور بنالیتی تھیں۔
محمدعلی کا بچپن مفلسی، غریبی اور تنگ دستی میں گزرا۔ گھر میں اتنا بھی پیسہ نہیں ہوتاتھاکہ ایک کلوآٹا خریدا جاسکے۔ ان کے ایک عزیز کاہوٹل تھا جہاں بچی ہوئی روٹیاں چارآنا سیر (کلو) کےحساب سے رات کو ملتی تھیں۔ محمد علی اکثر ہوٹل جاکر ایک سیر روٹی خرید لاتےتھے۔ ان روٹیوں کو پانی میں بھگودیاجاتا تھا۔ روٹی کے پھول جانےپر اس میں گُڑ ملاکر اسے پکایاجاتا، حلوہ کی صورت میں گھر کے لوگ اسے کھاتے تھے۔ روٹی کا مشکل سے انتظام ہوتا، اسلئے دال سبزی کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ محمد علی جب کام سیکھنے جاتے تھے، اس دورمیں تقریباً ۵؍سال تک ۲؍سوکھی روٹی اور گُڑ ان کادوپہر کاکھانا ہوتاتھا۔
اس دور میں آبادی کم تھی، سرگرمیاں برائے نام تھیں۔ لوگ شام ہی وقت گھروں میں گھس جاتےتھے۔ بجلی کانام ونشان تک نہیں تھا۔ گھروں میں چراغ، سڑکوں اور چوراہوں پر لیمپ اُجالےکا ذریعہ تھے۔ بلدیہ کا اہلکار روزانہ شام کو چوراہے پر لگے لیمپ کو جلانےکیلئے ایک سیڑھی لے کر آتا، سیڑھی پر چڑھ کر اس میں تیل ڈالتا اور لیمپ جلاتا، صبح تیل کے ختم ہونےپر لیمپ خود بخود بجھ جاتا تھا۔ لیمپ کی روشنی برائے نام ہوتی۔ روشنی کی ضرورت بھی محدود تھی کیونکہ لوگ رات ہونے سے قبل ہی اپنے اپنے گھروں میں داخل ہوجاتےتھے۔
محمد علی کےبچپن میں الہ آباد ریلوےاسٹیشن ایک بڑے گھر پر محیط تھا۔ اس کے ایک کمرے میں ٹکٹ گھر اورپاس ہی میں مسافروں کی قیام کی جگہ تھی۔ اس پوری عمارت کو مسافر خانہ کہاجاتاتھا۔ اسٹیشن سے آمد و رفت کیلئے کوئی موٹر گاڑی نہیں تھی، رکشہ بھی نہیں ہوتا تھا۔ صرف چند یکے اور بگھی اسٹیشن پر دکھائی دیتے تھے جن کےذریعے لوگ اپنی منزل تک سفر طے کرتےتھے۔ اگر خواتین کویکہ یا بگھی سے سفرکرناہوتاتو پہلے ان پر پردہ باندھا جاتا، بعدازیں ان میں سوارہوکر وہ سفر کرتی تھیں۔
اس دورکی شادی بھی بڑی عام سی ہوتی تھی۔ شادی میں سالن اور روٹی سے مہمانوں کی ضیافت کی جاتی تھی۔ چاول بنانے والے کوبہت امیر سمجھاجاتاتھا۔ غریبی کی وجہ سے جہیز کے طورپر ایک بکس ملتاتھا جس میں کچھ گھریلو سامان اور دلہن کے چند جوڑے رکھ کر یکہ پرپردہ باندھ کر دولہادلہن کی بدائی ہوتی تھی۔ اسی پر جہیز کا بکس باندھ دیاجاتاتھا۔
سابق وزیراعظم وشواناتھ پرتاپ سنگھ کے دور میں الہ آبادمیں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادکو محمد علی نے بہت قریب سے دیکھا ہے۔ پورے شہر میں افراتفری کا ماحول تھا۔ لوگ ایک دوسرے کو دیکھ نہیں سکتے تھے۔ کرفیولگاہواتھا۔ محمدعلی کے محلےبخشی بازار کے قریب واقع گڑیاتالاب کےعلاقے کی مسجد میں پولیس نے گھس کر ایک نمازی کو باہر نکال کر سرعام اس کی پٹائی کی تھی۔ اس کی وجہ سے اس نمازی کا انتقال بھی ہوگیا تھا۔ جس کی وجہ سے الہ آباد کے سبھی مسلم محلوں میں آہ وبکاکاماحول پیدا ہو گیا تھا۔ کھانے پینے کی سامان کی قلت ہوگئی تھی۔ پاکستان اور چین سے ہندوستان کی ہونےوالی جنگ بھی انہوں نے دیکھاتھا۔ پورے شہر میں بلیک آئوٹ تھا۔ گھروں میں اندھیرا تھا۔ جنگی جہازوں کو دیکھ کر لوگ خوفزدہ ہوجاتےتھے۔ لوگ گھروں میں قید وبند رہتے تھے۔
اُس دورمیں پیسوں کی بڑی قیمت ہوتی تھی۔ کوئی بچہ اگر ۱۰؍ روپے کی نوٹ لےکر سوداسلف لانے چلا جاتاتودکاندار اسے سودانہیں دیتا تھا بلکہ اس سے کہتاتھاکہ جائوگھر سے کسی بڑے آدمی کو بلاکر لائو، اتنی بڑی نوٹ لے کر چلے آئے ہو، کوئی بڑا آدمی آئے گا تب ہی سامان دوں گا۔ ۱۰؍روپے کی اتنی اہمیت تھی۔ ۱۰؍روپے کاکوئی ’چھٹا‘ بھی نہیں دیتا تھا۔ والدین میں سے کوئی دکاندار کے پاس جاتاتو وہ ان سےکہتاکہ بچے کو اتنی بڑی نوٹ دےکر کیسے بھیج دیا۔ محمدعلی کے ساتھ بھی متعدد مرتبہ اس طرح کا واقعہ ہوا تھا۔ جس کی وجہ سے دکاندار نےانہیں سودا نہیں دیاتھا، بعد میں دکان والا پہچان گیا تو پھر سامان دینے لگا۔
محمد علی کو نخا س کونے (الہ آباد)پرہونےو الے کانگریس پارٹی کے جلسہ میں اندراگاندھی کوپہلی مرتبہ بہت قریب سے دیکھنے کاموقع ملاتھا۔ اُس وقت اندراگاندھی ایک معصوم سی لڑکی کی طرح دکھائی دے رہی تھیں۔ اس موقع پر انہوں نے سفید رنگ کی ساڑی پہن رکھی تھی۔ محمد علی نے ان کی تقریر بھی سنی تھی۔ اندرا گاندھی کے علاوہ لال بہادر شاستری، جے پرکاش نارائن، ہیم وتی نندن بہوگنا، وشوناتھ پرتاپ سنگھ اور ملائم سنگھ یادو کو اسلامیہ کالج اٹالا میں ہونےوالی سیاسی تقریبات میں دیکھنے اور سننے کاموقع بھی انہیں ملا۔
محمدعلی کےگھر میں اس دور کااینٹینا والا ٹی وی تھا۔ کسی وجہ سے ٹی وی چل نہیں رہاتھا۔ انہوں نے ٹی وی پر رکھے ہوئے اینٹیناکو جیسے ہی ہاتھ لگاہا، اینٹنا نے انہیں جکڑلیا۔ کرنٹ کا اتنا شدیدجھٹکا لگا کہ ان کا پورا جسم لرزاُٹھا، ان کی آنکھوں کے سامنے کرنٹ کی شعاعیں دوڑ رہی تھیں ۔ بجلی کے جھٹکے سے پورا جسم تھرتھرارہاتھا۔ محمدعلی نے پوری طاقت سے ہاتھ کوجھٹکنےکی کوشش کی، نتیجتاً اینٹینا ٹی وی سے علاحدہ ہوکر زمین پر آگرا، اس دوران وہ زمین پر گرکربے ہوش ہوگئے تھے۔ کئی گھنٹوں بعد انہیں ہوش آیا تھا۔ اس کی وجہ سے پورے گھر میں کہرام مچ گیاتھا۔ اس واقعہ کو وہ کبھی نہیں بھولتےہیں۔