گرانٹ روڈ کے ۸۴؍سالہ حبیب شکری اس عمر میں بھی پوری طرح فعال ہیں اورکاروباری مصروفیات کے ساتھ ہی انجمن اسلام اور دیگر تعلیمی اورسماجی اداروں سے وابستہ ہیں، اپنی انکساری اور ملنساری کی وجہ سے مسلمانوں کے ساتھ ہی برادران وطن میں بھی کافی مقبول ہیں۔
EPAPER
Updated: January 07, 2024, 3:22 PM IST | Saadat Khan | Mumbai
گرانٹ روڈ کے ۸۴؍سالہ حبیب شکری اس عمر میں بھی پوری طرح فعال ہیں اورکاروباری مصروفیات کے ساتھ ہی انجمن اسلام اور دیگر تعلیمی اورسماجی اداروں سے وابستہ ہیں، اپنی انکساری اور ملنساری کی وجہ سے مسلمانوں کے ساتھ ہی برادران وطن میں بھی کافی مقبول ہیں۔
لیمنگٹن روڈ ،گرانٹ روڈ کے لیمنگٹن چیمبرس میں رہائش پزیر شکری خانوادہ اپنی گو نا گوں خوبیوں سے صرف اپنی سوسائٹی ہی میں نہیں بلکہ اطراف کے علاقوںمیں بھی کافی معروف ہے۔ ۸۴؍ سال قبل بھی تقریباً ۵۰؍فلیٹ پر مشتمل اس سوسائٹی میں یہ واحدمسلم فیملی تھی۔ شکری خاندان کے اپنے ہمسائے برادران وطن سےبڑے قریبی اور دیرینہ مراسم ہیں۔ اسی وجہ سے یہ فیملی خودکو یہاں بہت محفوظ سمجھتی ہے۔
ناگپاڑہ پر واقع احمد سیلر اسکول کے پرنسپل محمد عارف خان کے توسط سے۸۴؍ سالہ حبیب الرحمان عبدالقادر شکری( عرف حبیب شکری) سے ملاقات کی سبیل پیداہوئی۔ ان کافلیٹ تلاش کرنے کےدوران ایک نوجوان نے دریافت کیاکہ آپ کوکس سےملاقات کرنی ہے۔ حبیب شکری کا نام سنتے ہی اس نےکالم نویس کی رہنمائی کی۔پہلی منزل پر ۲؍ فلیٹ کے درمیان ایک ساتھ لگی ۲؍گھنٹیوں میں سے ایک گھنٹی بجانےپر ایک معمر غیر مسلم خاتون نے دروازہ کھولا، شکری صاحب کو دریافت کرنے پر انہوںنے کہاکہ دوسری گھنٹی بجائیں۔راقم کےمعذرت طلب کرنے پر خاتون نے کہا کہ کوئی بات نہیں ہم سب ایک ہی ہیں۔ خاتون کے اس جواب سے شکری فیملی کی ہمسایوں سے محبت اور قربت کا اندازہ ہوتا ہے۔ دوسری گھنٹی بجانےپر ایک معمر خاتون نے فلیٹ کادروازہ کھول کر گھر میں آنے کی دعوت دی۔ قدیم طرز کے فلیٹ کے ہال میں ایک طرف ڈائننگ ٹیبل ، کرسیاں اور دوسری جانب صوفے پربیٹھے حبیب شکری نے پُرجوش استقبال کیا۔تھوڑی سی رسمی گفتگو کے بعد ہماری بات چیت کاسلسلہ شروع ہوا۔
حبیب شکری۳؍فروری ۱۹۴۰ء کوپیدا ہوئے۔ بدرباغ(بالاروم اسٹریٹ ،گرانٹ روڈ)اور فارس روڈپر واقع کلیان بلڈنگ کے میونسپل اُردو اسکول کے علاوہ احمد سیلراسکول سے ۸؍ویں جماعت تک تعلیم حاصل کرنےکےبعد پونے کے اینگلواُردو ہائی اسکول سے ایس ایس سی اورواڈیاکالج پونے سے میکانیکل انجینئرنگ پاس کیا۔ عملی زندگی کاآغاز ایئر کنڈیشن اینڈ ریفریجریشن کےکاروبار سے کیا۔وہ کاروبار اب بھی جاری ہے۔ انجمن اسلام اور دیگر تعلیمی اورسماجی اداروںسے وابستہ ہیں۔
اپنی طالب علمی کے زمانےمیں ،جب وہ پونے کے واڈیاکالج میں زیرتعلیم تھے،پونےکےقریب واقع کھڑک واسلا ڈیم کی دیوار ٹوٹ گئی تھی، جس کی وجہ سےزبردست سیلاب آیاتھا۔ یہ ۱۹۶۲ءکی بات ہے۔ اس کی وجہ سے پونے کے بیشتر علاقوں میں پانی ایک منزل تک پہنچ گیا تھا۔ اس دور میں حبیب شکری اپنی بڑی ہمشیرہ کے ساتھ گھوڑ پڑی پیٹھ میں رہائش پزیر تھے۔ان کی عمارت کی پہلی منزل تک پانی آگیاتھا۔ اطراف کے علاقوںمیں پانی کی وجہ سے بڑی تباہی مچی تھی۔ سیلاب کی وجہ سے لوگ اپنا گھر بار چھوڑکر محفوظ مقامات پر منتقل ہوگئے تھے۔ کھانے پینےکی بڑی دقت تھی۔ایسےمیں واڈیاکالج کی طرف سے طلبہ کو ریلیف اکٹھا کرنے کیلئے الگ الگ علاقوںمیں بھیجاگیاتھا۔ حبیب شکری اپنی ہمشیر ہ کے ساتھ ریلیف جمع کرنے ممبئی آئے تھے۔ اپنی سوسائٹی اور اطراف کے علاقوں سے اس دورمیں انہوںنے تقریباً ۱۵؍ہزار روپے نقد اورکچھ سامان اکٹھاکرکے کالج انتظامیہ کے حوالے کیاتھا جس کے عوض حبیب شکری اور ان کی بہن کی انتظامیہ نے کافی ستائش کی تھی۔
حبیب شکری نے ایک مرتبہ موت کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ یہ ۶۰ء کے دہائی کی بات ہے۔اپنےچند دوستوں کےہمراہ وہ تیراکی سیکھنے کیلئے سوارگیٹ (پونے)کی ندی پر گئے تھے۔ ان کےساتھ جانے والےدوستوںکو تیرنا آتاتھا۔ان میں ایک مقبول نامی دوست تھا جو تیراکی میں ماہرتھا۔ حبیب شکری ٹائر کی مدد سے ندی میں تیرنا سیکھ رہےتھے۔ اچانک کسی وجہ سے ان کا ٹائر ندی کے بہاو کے ساتھ بہہ گیا۔ ٹائر کے بہتے ہی ان کے ہاتھ پیر پھولنے لگے۔ ہاتھ پیر چلانےکےباوجود وہ ڈوبنے لگے۔ ایسے میں ندی کےکنارے کھڑے مقبول کی نظر حبیب پرپڑی ۔ انہوں نے فوراً ہی ندی میں چھلانگ لگادی ۔کسی طرح حبیب کےپاس پہنچ کر ان کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایااور انہیں اپنے ہاتھوں کےسہارے کنارے پر لانےمیں کامیابی حاصل کی۔ اس دن موت کو قریب سے دیکھنے کاتجربہ انہیں اب بھی یاد ہے۔ اس واقعہ کےبعد ان کی والدہ نے انہیں کبھی تیراکی کیلئے نہیں بھیجا۔
ان کے والد ڈاکٹرعبدالقادر شکری کی طبی ،سماجی اورسیاسی خدمات کی ایک طویل فہرست ہے۔ اسی وجہ سے وہ لیمنگٹن روڈ اور اطراف کے علاقوںمیں کافی معروف تھے۔ ۴۰ءاور ۵۰ءکی دہائی میں اس علاقے میں واحد ان کی مسلم فیملی یہاں رہائش پزیر تھی۔ برادران وطن اپنی تقریبات میں نہ صرف انہیں مدعو کرتےتھےبلکہ اس سوسائٹی میں ان کی اہمیت کچھ زیادہ ہی تھی۔ بلامقابلہ ۲۵۔۲۰؍ برسوںتک وہ سوسائٹی کے چیئرمین منتخب کئے گئے۔ ۱۵؍اگست اور ۲۶؍جنوری کے موقع پر ہونے والے پروگراموں میں انہیں مہمان خصوصی کی حیثیت سے مدعو کیا جاتا تھا۔
بات چیت کے دوران ان کی اہلیہ نجمہ ،جو سبکدوش معلمہ ہیں ، نے پورا تعاون پیش کیا۔ جو باتیں یا واقعات حبیب شکری کو یاد نہیں آ رہے تھے،انہیں یاد دلانےمیں ان کی مدد شامل رہی۔
انجمن اسلام اسکول سی ایس ایم ٹی میں ۸۰ءکی دہائی میں عالمی شہرت یافتہ باکسر محمدعلی کلے آئے تھے۔ ولبھ بھائی پٹیل اسٹیڈیم میں باکسنگ کا ایک مقابلہ رکھاگیاتھا۔ وہ اسی مقابلے میں حصہ لینے کیلئے ممبئی آئے تھے۔ اس موقع پر انہیں انجمن اسلام میں تہنیت دی گئی تھی۔ انجمن اسلام کا ممبر ہونےکےناطے اس تہنیتی پروگرام کی ذمہ داری حبیب شکری کوسونپی گئی تھی۔ محمد علی کلے نے اس موقع پر جو تقریر کی تھی اس میں کہا تھا کہ’’ مجھے یہ اسکول ، یہاں کی تعلیم کا طریقہ اور انفراسٹرکچر بہت پسند آیا ہے۔ اس اسکول میں آکر بڑی خوشی ہوئی ہے۔ اس اسکول کا دورہ کرنے پر ایسامحسوس ہورہاہےکہ یہاں داخلہ لے کرمیں ایک بار پھر طالب علم بن جائوں۔‘‘
حبیب شکری کےوالد صاحب کے یہاںعلاج کیلئے آنےوالوں میں بیشتربرادران وطن ہوتے تھے۔ ڈاکٹرہونےکی وجہ سےپورے علاقے میں اس خاندان کی بڑی عزت تھی۔ انہوں نے ایک واقعہ بتایا کہ آزادی کی تحریک کے دوران اکثراچانک کرفیو لگا دیاجاتاتھا۔ ایک روز حبیب شکری اپنی عمارت کے باہر سڑک پر کھیل رہے تھے۔ اسی وقت اچانک کرفیو لگنے سے علاقے میں بھگدڑمچ گئی۔ مذکورہ عمارت سے متصل آرام ہندوہوٹل کے مالک کی نظرحبیب پر پڑی ،انہوں نے فوراً انہیں گود میں اُٹھا کرہوٹل میں لاکر بٹھا دیا۔ پورے علاقے میں سناٹا چھایا ہوا تھا۔ ایسےمیںحبیب کواس وقت ان کےگھر پہنچانا ممکن نہیں تھا۔ دوسری جانب گھر والےاور بلڈنگ کےدیگر مکین حبیب کیلئے پریشان تھے۔ وہ انہیں بلڈنگ میں تلاش کررہےتھے۔ ان کے نہ ملنے سے طرح طرح کے خیالات سے گھر والوں کا براحال تھا۔ تقریباً ۴؍گھنٹے بعد کرفیو میں ڈھیل ہونے پر ہوٹل مالک نے حبیب کو جب ان کےگھر پہنچایا اورپوری کیفیت بیان کی تو گھر والوں کی جان میں جان آئی اور انہوںنے ہوٹل مالک کا شکریہ ادا کیا۔
حبیب شکری کےوالد ڈاکٹر عبدالقادر شکری کے مراسم اس دور کی اہم سیاسی اورسماجی شخصیات سےبھی تھے۔ کانگریس سے وابستہ ہونے سے ان کے اس کے دور کے اہم کانگریسی لیڈروں سے بہت قریبی مراسم تھے۔ اسی وجہ سے ایک مرتبہ انہیں اپنے ایک سینئر لیڈر کو پولیس سے بچانےکی کوشش میں کوڑوں سے ماراگیاتھا۔ دراصل ان کے بہنوئی ڈاکٹر مظہر الحق گورجو کانگریس پارٹی کے اہم عہدے پر فائز تھے، ان کی رہائش گاہ موٹلی بائی اسٹریٹ آگری پاڑہ پر تھی۔اس دور میں ایک سینئر کانگریسی لیڈر ڈاکٹر مظہر الحق کی رہائش گاہ پر آئے ہوئے تھے۔ اس کی اطلاع انگریزی پولیس کو ہوگئی تھی۔ چونکہ تحریک آزادی کی مہم پورےمیں ملک میں شباب پر تھی،اسلئے پولیس انہیںحراست میںلیناچاہتی تھی۔ اس بات کی بھنک ڈاکٹر عبدالقادرکو پڑگئی تھی۔ وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مظہر الحق کی رہائش گاہ پر پہنچ گئےتاکہ مہمان لیڈرکو تحفظ فراہم کیاجاسکے۔جیسے ہی پولیس ان کے گھر میں داخل ہونے لگی ، ڈاکٹر عبدالقادر پولیس کے سامنے دیوار بن کر کھڑے ہوگئے۔ انہوں نے پولیس کو گھر میں داخل نہیں ہونےدیا۔ نتیجتاً پولیس نے ڈاکٹر عبدالقادر پر کوڑوں کی برسات کردی۔ اس کی وجہ سے ان کے جسم پر نیلے نشان اُبھر آئے تھے۔