• Wed, 20 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

کرلا قصائی واڑہ میں ایک آدمی تھا جو تین چار دنوں تک مسلسل سائیکل چلاتا تھا

Updated: May 13, 2024, 11:27 AM IST | Saadat Khan | Mumbai

قریش نگر کرلا کے ۷۸؍سالہ محمد طارق شرار جو اِن دنوں ممبرا کوسہ میں مقیم ہیں، نے عملی زندگی کاآغازکمرشیل آرٹسٹ کے طورپر کیا۔ ۸؍ سال تک اسی شعبے میں ملازمت کے بعد’کریٹیوہیڈس‘ کےنام سے اپنی کمپنی شروع کی۔عمر کے اس مرحلے پر بھی پوری طرح فعال ہیں۔

Muhammad Tariq Sharar. Photo: INN
محمد طارق شرار۔ تصویر : آئی این این

مدنپورہ کی عرب مسجد کے ٹرسٹی رفیق انصاری نے ایک دن فون کرکے خیر وخیریت معلوم کرنےکےبعد کہا کہ گوشہ ٔ بزرگاں کالم کیلئے ایک ایسے مثالی عمررسیدہ شخص کی سفارش کرناچاہتاہوں جس کی علمی، ادبی، ثقافتی، صحافتی اور فنی صلاحیتوں سے لوگ استفادہ کریں گے۔ یہ کہہ کرانہوں نے ممبراکےایم ایم ویلی میں قیام پزیر کرلاقریش نگر کے محمد طارق ابراہیم شرار کانام پیش کیااورکہاکہ اگر کہیں تو ان سےاس ضمن میں بات کرلوں۔ کالم نگار سے اثبات میں جواب ملنے پر انہوں نے ان کا موبائل نمبر بھیج دیا۔ 
 اتوار۵؍مئی کومقررہ وقت پر اپنی رہائش گاہ پر طار ق شرار اور ان کے چھوٹے بھائی اظہر شرار نے نہایت گرمجوشی سے کالم نویس کاخیرمقدم کیا۔ دونوں باریش بھائیوں نے سفید کرتا، پائجامہ، ٹوپی اور سفیدجرابیں پہن رکھی تھیں۔ سرسے پیر تک سفیدکپڑوں میں ملبوس ہونے سے ان کی شخصیت اُجلی اُجلی دکھائی دے رہی تھی۔ ایک اور خاص بات محسوس ہوئی جس سے اس خانوادہ کاسفید رنگ سے گہراتعلق ہونےکا خیال گزرا۔ جس ہال میں ہم بیٹھے تھے، اس کی ۳؍دیواریں سفید رنگ سےرنگی ہوئی تھیں۔ کرسیاں اورصوفے پرچڑھےغلاف کےرنگ بھی سفید تھے۔ کھڑکیوں پر سفید رنگ کےکپڑے کے پردےجھول رہے تھے۔ غرضیکہ پورا ہال سفید ی کی ترجمانی کررہاتھا جس سے خوشگوار احساس ہو رہا تھا۔ خوش کن ماحول میں طارق شرار سے تقریباً ایک گھنٹہ۱۰؍منٹ تک ہونے والی بات چیت انتہائی کارآمد رہی۔ 
 اچل پورکےجاگیردار، انعامداراورزمیندار خانوادہ سےتعلق رکھنے والی معروف علمی، ادبی، ملّی اور صحافتی شخصیت محمد ابراہیم شرار جو دینی رسالہ ماہنامہ محشر کےمدیرتھے، کےفرزند محمد طارق شرار ضلع امرائوتی، قصبہ اچل پورمیں یکم اگست۱۹۴۴ءکو پیداہوئے۔ ان کے بڑے اباً یہاں کے جاگیردار تھے۔ اچل پور کے اسکول میں ان کانام لکھایاگیا۔ پہلے ہی دن آدھے گھنٹہ میں اسکول سے لوٹ آنے پر گھروالوں نے وجہ دریافت کی، معلوم ہواکہ اسکول میں چند بچے آپس میں گالم گلوچ کررہےتھے۔ یہ سن کر محمد طارق گھر لوٹ آئے۔ بعدازیں گھر والوں نے انہیں اسکول نہیں بھیجا۔ اسکول کے بجائے گھر ہی پر پڑھائی کیلئے انہیں کچھ کتابیں دی گئیں۔ ان کتابوں کو پڑھنے کےبجائے ان کے اسباق کو لکھنے میں زیادہ دلچسپی ہونے سے طارق شرار کی خوش خطی میں نکھار آتاگیا۔ بچپن ہی سے پڑھنے سے زیادہ لکھنے کی مشق نے بڑے ہوکر ایک کامیاب کمرشیل آرٹسٹ بننےمیں بڑی مدد کی۔ بعدازیں والدین کے ساتھ آکولہ منتقل ہونےپر عمرکی مناسبت سے پانچویں جماعت میں باقاعدہ ان کا داخلہ ہوا۔ یہاں آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ اس کےبعد والد محترم محمد ابراہیم شرار نے طارق کو ممبئی میں مقیم اپنے معتمد خاص اچل پور کی معروف علمی شخصیت قاسم رضا سرعرف حافظ جی کے سپرد کردیا۔ کرلا قصائی واڑہ میں قیام پزیر قاسم رضا سرکی ایما پر ان کاداخلہ انجمن اسلام اسکول کرلا میں کرایا گیا۔ یہاں سے ایس ایس سی پاس کرنےکےبعد طارق شرار نے باندرہ اسکول آف کمرشیل آرٹ میں داخلہ لیا۔

یہ بھی پڑھئے: مدنپورہ میں بچوں کیلئےمنعقدہ تقریب میں خواجہ احمدعباس اور بلراج ساہنی تشریف لائے تھے

یہاں سے ۵؍سالہ کورس مکمل کیا۔ عملی زندگی کاآغازکمرشیل آرٹسٹ کے طورپر کیا۔ سب سے پہلے نرما واشنگ پائوڈر کی تشہیر کیلئے اپنی فنی صلاحیتوں کا استعمال کیا۔ اسی دوران چرچ گیٹ پر واقع ہیروز پبلسٹی سروسیز میں خدمت کا موقع ملا۔ یہاں ۸؍سال ملازمت کی۔ بعدازیں کریٹیوہیڈس کےنام سے اپنی کمپنی شروع کی لیکن کمپیوٹر کے متعارف ہونےسے فنی صلاحیتوں کی قدردانی کم ہوتی گئی۔ فی الحالگھر سے سوشل میڈیا کیلئے اپنی خدمات پیش کرتے ہیں۔ 
 ممبئی کی آخری ٹرام سروس سے محمد طارق شرار کا تعلق رہاہے۔ ۳۱؍ مارچ ۱۹۶۴ء کو ٹرام کی اس آخری سروس میں طارق شرار نے اپنے ۲؍ دوستوں (شوکت اور ابراہیم )کے ساتھ بوری بندر ( سی ایس ایم ٹی) سے خداداد ٹرام ٹرمینس ( دادر) کا سفر کیاتھا۔ خداداد ٹرام ٹرمینس پر اُترنے والے آخری ۳؍مسافروں میں طارق شرار اور ان کے ۲؍دوست شامل تھے۔ ان کے اُترنے پر ٹرام ٹرمینس کے ذمہ داران نے ان کا خیرمقدم کیا تھا اور ان کے نام رجسٹر میں درج کئے تھے۔ 
 معروف فلمساز ایف سی مہرہ نے ۱۹۶۴ءمیں امرپالی کے نام سے ایک فلم بنائی تھی۔ طارق شرار نےفلم کے اسکیچ وغیرہ کا کام بڑی محنت اور جدوجہد سےمکمل کیاتھا۔ ۳؍ہفتوں کی محنت کے عوض کم ازکم ایک ہزار روپےملنے کی اُمید تھی لیکن ایف سی مہرہ نے انہیں صرف ۵۰؍روپے دیئے۔ اتنی حقیر اُجرت ملنے پر بڑے مایوس تھے۔ انہوں نے ۵۰؍ روپے ایف سی مہرہ کی میزپر پھینک کرکہاتھا کہ آپ یہ ۵۰؍روپے آفس کےباہر گیٹ پر جوبھکاری بیٹھا ہے، اسے دیں گے تو وہ آپ کو دعائیں دےگا، اگر میں یہ ۵۰؍روپے لے جائوں گاتو مجھے گالی نہیں دینی آتی ہے، اس کےباوجود سیکھ کر آپ کوگالی ہی دوں گا۔ یہ سن کر ایف سی مہرہ مسکرائے تھے۔ طارق شرار کے آفس سے چلےجانےکےبعد ایف سی مہرہ نے وہ ۵۰؍روپے منی آرڈر کےذریعے طارق شرار کو روانہ کردیا تھا۔ 
 معروف شاعر، ادیب اور نغمہ نگار ندافاضلی کے قریبی دوست رحمانی صاحب سے طارق شرار کے تعلقات ہونے سےندافاضلی سے بھی ان کی دوستی ہوگئی تھی۔ یہ ۶۰ء کی با ت ہے۔ ایک روز کرلا اسٹیشن روڈ پر واقع ایک ہوٹل میں یہ تینوں صاحبان چائے پینے بیٹھ گئے۔ ایک چائے ۴؍ آنےکی تھی۔ ایک چائے کو ۳؍حصوں میں تقسیم کرکے ان صاحبان نے چائے کالطف لیا لیکن کسی کی جیب میں چائے کے ۴؍آنے نہیں تھے۔ طارق شرار نے اپنی جیب ٹٹولی، جس میں ایک پیسہ تھا۔ یہ تواچھا ہواکہ ہوٹل سے قریب گھر ہونے سے طارق شرار نےگھر جاکر ۴؍آنے لاکر چائے کی قیمت ادا کی تھی، ایسا بھی دور گزراتھا۔ 
 طارق شرار کے والدابراہیم شرار کو قاسم رضا سر حضرت کہہ کر مخاطب کرتےتھے۔ قاسم رضا ممبئی سے جب کبھی اچل پور جاتے اپنے ساتھ وہاں کے کچھ بچوں کو ممبئی لاتے، ان کی پڑھائی لکھائی، قیام وطعام کا انتظام کرتے۔ جب وہ خودکفیل ہوجاتے تو دوسرےگروپ کو لاتے، ان کی یہ مہم برسوں جاری رہی۔ طارق شرار بھی اسی مہم کی ایک کڑی ہیں۔ ۱۹۵۸ءمیں جب وہ ممبئی آئے تھے، اس وقت قاسم رضاسر کرلا قصائی واڑہ کے ایک چھوٹے سے کمرے میں مقیم تھے جہاں اچل پور کے تقریباً ۸؍ بچے رہائش پزیر تھے۔ ان بچوں کو قاسم سر کمرے میں سلاتے تھے اور خود کمرے کے باہر اوٹے پر سوتےتھے۔ طارق شرار کی رہائش کابھی یہیں انتظام کیاتھا۔ قریب کے ایک ہوٹل میں ان کے کھانے کانظم کر دیا تھالیکن ہوٹل کا کھانا کھانے سے ایک روز ان کی طبیعت خراب ہوگئی۔ جس کی وجہ سے انہوں نے ہوٹل میں کھانا بند کردیا۔ ایک روز قاسم سر جب کھانےکابل اداکرنےہوٹل پہنچے تو معلوم ہواکہ طارق شرار ہوٹل میں کھانا نہیں کھارہےہیں۔ استفسار کرنےپر طبیعت کے خراب ہونے کا علم ہوا۔ اس دن سے قاسم رضاسر طارق شرار کیلئے خود کھچڑی پکاتےتھےتاکہ طارق شرار کو ہوٹل کاکھانانہ کھاناپڑے۔ طارق شرار قاسم سرکی اس محبت اور قربانی کو کبھی فراموش نہیں کرتےہیں۔ 
 طارق شرارجس دور میں قصائی واڑہ میں رہائش پزیر تھے۔ اس وقت یہاں گلوسیٹھ کی چال کے قریب واقع ایک میدان میں مرتضیٰ حسین نامی ایک شخص ۳۔ ۴؍ دنوں تک متواتر سائیکل چلایاکرتاتھا۔ سائیکل پر ہی ساری ضروریات پوری کرتاتھا۔ اسے دیکھنے کیلئے لوگ دور دور سے آیاکرتےتھے۔ انہوں نے ایک مرتبہ عالمی شہرت یافتہ فنکار ایم ایف حسین سے ہونےوالی ملاقات کے دوران کمرشیل اور فائن آرٹ کی فنکاری سے متعلق سوال کیا ؟ جس کے جواب میں ایم ایف حسین نے کہا تھاکہ آپ کمرشیل آرٹسٹ ہیں، جس کا انحصار تجارت سے جڑے کاموں پر ہوتاہے۔ آپ تاجروں کو ان کی ضرورت کے مطابق کام کرکے دیتے ہیں جس کی وہ اُجرت اداکرتےہیں لیکن ہماری محنت یافن کی قیمت لوگ اپنی حیثیت اور اپنے مرتبہ کے مطابق لگاتے ہیں۔ ہمیں اپنی محنت کی قیمت نہیں ملتی بلکہ ہماری پینٹنگز کا خریدار اس کی قیمت اپنے شعور اور اپنی اہمیت و حیثیت کے مطابق لگاتاہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK