محمدعلی روڈ کے ۷۶؍سالہ عبدالستار سلیمان عثمان مٹھائی والا گزشتہ ۶؍ دہائیوں سے مٹھائی کے کاروبار سے وابستہ ہیں ، یہ دکان ان کے والد نے ایک بیکری کے طورپر شروع کی تھی جو آج صرف ممبئی ہی نہیں بلکہ ملک اور بیرون ملک بھی اپنی ایک خاص پہچان رکھتی ہے۔
EPAPER
Updated: February 16, 2025, 1:50 PM IST | Saadat Khan | Mumbai
محمدعلی روڈ کے ۷۶؍سالہ عبدالستار سلیمان عثمان مٹھائی والا گزشتہ ۶؍ دہائیوں سے مٹھائی کے کاروبار سے وابستہ ہیں ، یہ دکان ان کے والد نے ایک بیکری کے طورپر شروع کی تھی جو آج صرف ممبئی ہی نہیں بلکہ ملک اور بیرون ملک بھی اپنی ایک خاص پہچان رکھتی ہے۔
جنوبیممبئی کے محمدعلی روڈ سےتعلق رکھنےوالے۷۶؍سالہ عبدالستار سلیمان مٹھائی والا کی پیدائش اسی علاقے کےمیمن واڑہ محلہ میں ۲۲؍ جنوری ۱۹۵۰ءکو ہوئی تھی۔ بیگ محمد اُردواسکول سے۷؍ ویں تک پڑھائی کرنے کے بعد صابوصدیق ٹیکنیکل ہائی اسکول میں داخلہ لیا، آٹوموبائل انجینئرنگ کا شوق ہونے کی وجہ سے داخلہ تولے لیاتھالیکن والد سلیمان مٹھائی والاکی اچانک رحلت کی وجہ سے تعلیمی سلسلہ رک گیا۔
اس کے باوجود آٹوموبائل انجینئربننے کاجنون برقرار رہا۔ اسلئے آٹوموبائل انجینئرنگ کی کتابیں خرید کر اُس شعبے کے ماہرین کی مدد سے پڑھتا اور سیکھتا رہا۔ بعد میں حیدرآباد سے اس کا فاصلاتی کورس بھی کیا لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر امتحان نہیں دے سکا۔ اس کےساتھ ہی حکمت کا کورس بھی کیامگر والد کے انتقال کے بعد گھر والوں نے انہیں مٹھائی کے آبائی کاروبار سے وابستہ ہونے کی صلاح دی جس پر انہوں نے عمل بھی کیا۔ آج بھی مٹھائی کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ ان کی دکان ’ سلیمان عثمان مٹھائی والا‘ محمد علی روڈ کااہم لینڈمارک ہے۔ سلیمان عثمان مٹھائی والا دکان کی بنیاد ان کےوالد سلیمان نےدادا عثمان کی رحلت کےبعد ایک بیکری کے طور پر ڈالی تھی۔
جن دنوں عبدالستارصابوصدیق اسکول میں پڑھائی کر رہے تھے، انہیں دنوں معروف فلم اداکار اور مکالمہ نگار قادر خان’مشین ڈرائنگ‘ مضمون پڑھانےکیلئے مقررکئے گئے تھے۔ قادر خان کا پہلا لیکچر تھا، وہ کلاس میں لیکچر دینے پہنچے ہی تھے کہ عبدالستار اور ان کے چند ساتھیوں نے ان کی ہوٹنگ شروع کردی۔ اس طرح پہلے دن انہیں پڑھانے کاموقع نہیں دیا۔ قادر خان بھی جہاندیدہ تھے۔ انہوں نے کلاس نہیں لی اور واپس چلے گئے، لیکن ہوٹنگ کرنےوالے چہروں کو اپنی آنکھوں میں محفوظ کرلیا تھا۔ اسکول ختم ہونے پر انہوں نے عبدالستار اور ان کے ساتھیوں کو اسٹاف روم میں بلاکر ان سے دوستانہ ماحول میں بات چیت کی۔ انہیں چائے اور بسکٹ پیش کی۔ ان سب کو پڑھائی کرنےکی تلقین کی۔ اس کےبعد ان کےمراسم دوستانہ ہوگئے۔ اس گروپ کا خیال تھاکہ قادرخان مشین ڈرائنگ جیسے مضمون کو اس خوبی سے پڑھاتےتھے کہ اگر طالب علم اسے غور سے سن اورسمجھ لے تو پھر اس کے بارےمیں نوٹس لکھنےکی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔
عبدالستار کےوالد سلیمان مٹھائی والاکا انتقال ۱۹۶۸ءمیں ہواتھا۔ عبدالستار اُس وقت بہت چھوٹے تھے لیکن کاروباری سرگرمیوں میں والد اور بھائی کے ساتھ حصہ لیتے تھے۔ اس دور میں ان کے والد نے کاروبار کو فروغ دینےکیلئے رمضان المبارک میں ایک پریس کانفرنس مینارہ مسجد روڈ پر منعقد کی تھی جس میں انقلاب کے بانی عبدالحمید انصاری، اُردو ٹائمز کے مالک نذیر احمد صاحب اور روزنامہ ہندوستان کے بانی غلام خان آرزو جیسے بڑے صحافیوں نے شرکت کی تھی۔ ان سبھی سینئر صحافیوں کو مینارہ مسجد کے پاس سڑک پر یکجاکرنا ایک اچھی کوششثابت ہوئی تھی۔ مذکورہ سبھی اخباروں میں رمضان المبارک میں یہاں کے پکوان، مٹھائیوں، فیرنی، مالپوہ اوردیگر خوردو نوش کی اشیاء کی تشہیر سے کاروبارمیں زبردست اضافہ ہوا تھا۔ اس کےبعد سے سلیمان عثمان مٹھائی والاکی مقبولیت آسمانی چھونے لگی تھی۔
بابری مسجد کی شہادت کےبعد پھوٹ پڑنےوالے فرقہ وارانہ فساد کے دوران عبدالستار کی سلیمان عثمان بیکری میں رہنےوالے عملے پر پولیس نے اندھادھندفائرنگ کرکے ۵؍ افرادکو جاں بحق کردیاتھا۔ ان میں شمشاد نامی ایک نوجوان بھی شامل تھا، جسے عملے کی نگرانی، دیکھ بھال اور ان کے کھانے پینےکا انتظام کرنے پرمامور کیاگیاتھا۔ اس نے دم توڑنے سے قبل یہاں موجود دیگر ساتھیوں سے کہاتھاکہ عبدالستار سیٹھ نے مجھے تمہاری حفاظت اور دیکھ بھال پر مامور کیا تھالیکن افسوس کہ میں اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرسکا، سیٹھ سے میرا سلام کہہ دینا، یہ کہنے کے بعد اس نے آخری سانس لی تھی۔ عبدالستارسیٹھ کی سماعتوں میں شمشاد کا آخری جملہ آج بھی گشت کرتا ہے۔
سلیمان عثمانی مٹھائی والا کی مقبولیت اپنی مثال آپ ہے۔ بالخصوص رمضان المبار ک میں فرنی اور مالپوہ کے شوقین افراد کی یہاں قطار لگتی ہے۔ یہ روایت کئی دہائیوں سے بنی ہوئی ہے۔ کھانےپینےکے شوقین عام افراد کے علاوہ فلمی شخصیات بھی یہاں بڑی تعداد میں آچکی ہیں، جن میں نرگس دت کا دورہ عبدالستار مٹھائی والاکیلئے خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اُن دنوں فرنی کی قیمت صرف ۲۵؍پیسے تھی۔ اس موقع پر نرگس دت کو عبدالستار ہی نے فرنی پیشکی تھی۔ فرنی کھانے کے بعد انہوں نےاس کی بڑی تعریف کی تھی۔ وہ فرنی انہیں اتنی پسند آئی کہ اس کے بعد وہ وقتاً فوقتاً وہاں آنے لگی تھیں۔ اور جب انہوں نے اپنی فلم کمپنی اجنتا آرٹس کی بنیاد ڈالی تو اس کے افتتاحی تقریب کے موقع پرایک ہزار فرنی کاآرڈر دیا تھا۔ اس وقت فرنی کی قیمت ایک روپے ہوگئی تھی۔ فلم مدر انڈیاکے ڈائریکٹر محبوب خان کابھی عبدالستار کی بیکری سےگہرا رشتہ رہاہے۔ وہ مرین لائنس پر واقع پیترو شاہ بابا کے معتقد تھے۔ ہر جمعرات کی شام کو پیترو شاہ باباکی درگاہ پرعبدالستار سیٹھ کی بیکری سے تقریباً ۱۰۰؍ نان غریبوں اور مسکینوں میں ان کی جانب سے تقسیم کی جاتی تھی۔ مہینہ پورا ہونے پر محبوب خان کا نمائندہ آکر نان کی رقم اداکرجاتا تھا۔ فلم اداکار دلیپ کمار سے بھی عبدالستار صاحب کے قریبی مراسم تھے۔ عبدالستار کےمطابق دلیپ کمارکی شخصیت باغ وبہار جیسی تھی۔ انہیں دیکھ کر محسو س ہوتاتھاکہ ان کی ہر ادا میں اداکاری ہے۔ جب کہیں ملتے تو بس یہی کہتے کہ ’ آپ کے یہاں ایک مٹھائی سفید والی....‘ دلیپ صاحب کا جملہ پوراہونےسے قبل عبدالستارکہتے، قلاقند، جس پر دلیپ کمار کہا کرتے تھے، ہاں ہاں، جواب میں عبدالستار کہتے تھےکہ گھر پر بھیجواتاہوں۔ وہ پابندی سے دلیپ کمار کے گھر قلاقند بھیجواتے تھے۔
عبدالستار نے ۱۸؍سال کی عمر میں پہلی مرتبہ حج پر جانےکافارم بھراتھا جو پاس نہیں ہواتھا۔ دوسری مرتبہ بھی فارم پاس نہیں ہوا، تیسری بار ۱۹۷۰ءمیں فارم منظور ہوالیکن بدقسمتی سے اسی سال ایک حادثے میں ان کا ایک پیر بری طرح فریکچر ہوگیا تھا، جس کی وجہ سے پیر پر پلاسٹر اور ہاتھوں میں بیساکھی آگئی تھی۔ ایک مہینہ حج پر روانگی کیلئے باقی تھا، ایسی صورت میں حج پرجانااور تمام ارکان کی ادائیگی مشکل دکھائی دے رہی تھی۔ انہوں نے بڑے بھائی سے کہاکہ میں امسال کے بجائے اگلے سال حج پر جائوں گا، جس پر بھائی نے کہاکہ دیوانہ ہوگیا ہے کیا؟ ۲؍سال تو تیرا فارم منسوخ ہوا، اب فارم منظورہوگیاہے تو، تیرا ارادہ بدل رہا، اگلے سال کچھ اور ہوگیاتو کیا کرے گا؟ تجھے ہر حال میں حج پر جاناچاہئے۔ بھائی کے حوصلے اور ترغیب سے پلاسٹر والا پیر اوربیساکھی کے سہارے عبدالستار پانی کے جہاز سے حج پرروانہ ہوئے۔ وہاں پہنچنے پر بیساکھیوں کے سہارے طواف وغیرہ کرنے سے ہاتھوں میں گھٹے پڑ گئے تھے۔ اس کی وجہ سے ان میں ایک بار پھر مایوسی پیدا ہوگئی تھی۔ ایسےمیں انہوں نے اپنے والد کے ایک دوست جانی بھائی زویری جو مکہ میں مقیم تھے، سے کہاتھاکہ آپ میرا یہاں سے واپس جانےکا انتظام کر دیں میں اگلے سال آکر حج کروں گا، جس پر جانی بھائی زویری نے بھی ان سے یہی کہا تھاکہ پاگل ہوگئے ہوکیا؟ ہندوستان میں پچاسوں بادشاہ ایسے گزرے ہیں جنہیں بادشاہت تو ملی، انہوں نے وہاں حکومت کی لیکن ان میں سے ایک بھی حاجی نہیں بن سکااور تُو یہاں مکہ میں آکرکہہ رہاہےمیں بغیر حج کئے واپس جائوں گا، میں اپنے شانےپر بٹھا کرتجھے حج کرائوں گاچل۔ ان کے اس حوصلہ افزا باتوں سےعبدالستار نے بیساکھیوں کے سہارے حج بھی کرلیا۔ وہیں ایک پہلوان سے ان کی ملاقات ہوئی تھی جس نے اس دوران ان کے زخمی کا پیر کا علاج کیاتھا۔ عبدالستار کاکہنا ہےکہ وہ ایک پیر کے سہارے حج کیلئے گئے تھے اور مکہ مدینہ سے دونوں پیروں کے سہارے ممبئی لوٹے تھے۔