مدنپورہ کی ۸۴؍سالہ بانوبیگم کا تعلق حیدرآبادسے ہے، وہاں پولیس ایکشن کے نام پر ہونےوالی تباہی اوربربادی کی تصویریں اپنی آنکھوں سے دیکھی ہیں، عمر کے اس مرحلے پر بھی فعال ہیں اور وقتاً فوقتاً لذیذ پکوان تیار کرنے اور متعلقین کو کھلانے کا شوق رکھتی ہیں۔
بانو بیگم پیر محمد پہلوان انصاری۔ تصویر: آئی این این۔
مدنپورہ، مولانا آزاد روڈپر واقع مدینہ منزل میں رہنے والی بانو بیگم پیر محمد پہلوان انصاری کی پیدائش ۱۹۴۰ء میں حیدرآباد شہر کےقریب واقع اُڑگی گائوں میں ہوئی تھی۔ انہیں اپنے زمیندار خانوادہ کے واحد بیٹی ہونے کا شرف حاصل رہاہے۔ اسی وجہ سے والدین کے علاوہ خاندان کے دیگر قریبی عزیزوں کی پیاری اور چہیتی رہیں۔ مختلف وجوہات سے عصری تعلیم حاصل نہیں کرسکیں لیکن والدہ نے گھر میں ایک مولوی صاحب کے معرفت عربی کی تعلیم دلوائی تھی۔
انہوں نےحیدرآباد میں پولیس ایکشن کے نام پر ہونےوالی تباہی اوربربادی کی تصویریں اپنی آنکھوں سے دیکھی ہیں۔ حالات اتنے خراب تھے کہ ان کے گھر والے اپنا سارا مال ومتاع چھوڑ کر اور جان بچا کران کے ماموں کے گھر گلبرگہ چلے گئے۔ ۱۸؍سال کی عمر میں ممبئی کے پیرمحمد پہلوان سے ان عقدہوا تو پھر ممبئی چلی آئیں۔ ان کے ۸؍بچے پیدا ہوئے لیکن بدقسمتی سے ۶؍بچوں کاکم عمری میں ہی انتقال ہوگیا۔ پیرانہ سالی میں اپنے چھوٹے بیٹے اشفاق انصاری(۵۰) کے ساتھ زندگی کے بقیہ دن خوش اسلوبی سے بسرکررہی ہیں۔ اشفاق انصاری بہت فرمانبردار ہیں۔ ان کے والد کا۱۹۹۲ء میں انتقال ہوگیا تھا۔ اس کے بعد اپنی عمر رسیدہ ماں کی خدمت اورتیمارداری کیلئے انہوں نے ملازمت سے سبکدوشی اختیار کرلی۔ بانو بیگم عمر کے اس مرحلے پر اور پیرمیں شدیدتکلیف ہونے کےباوجود لذیذپکوان بنانےاور متعلقین کو کھلانے کاشوق رکھتی ہیں۔ نماز اور تلاوت وغیر ہ کی پابند ہیں۔
والدہ نےپڑھانےکی کوشش کی لیکن بانو بیگم کو پڑھائی کا شوق نہیں تھا۔ جاری کلاس روم میں وہ پڑھائی کے بجائے سویٹر وغیرہ کی بنائی میں مصروف رہتی تھیں۔ کلاس ٹیچر کی تنبیہ کے باوجود وہ پڑھائی میں دلچسپی نہیں لیتی تھیں۔ گھر سے بیگ لے کر اسکول کیلئے روانہ ہوتیں، راستے میں قریبی سہیلی مُنّی اور شریفہ کے ہمراہ اسکول کے قریب واقع احاطے میں جاکر گولیاں (گوٹیاں ) کھیلنےمیں مصروف ہوجاتیں۔ بعد میں جب ایک عمر کو پہنچیں تو انہیں تعلیم کی اہمیت کا اندازہ ہوا لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ اس بات کاا فسوس انہیں آج بھی ہے۔
انگریزی حکومت کے دوران حیدرآباد میں پولیس اہلکاروں کی آمد سے علاقے میں سراسیمگی پھیل جاتی تھی۔ والدہ انگریز پولیس کی آمد سے پہلے بانوبیگم اوران کے بھائی بہنوں کو خصوصی طرز کی ٹوپیاں جوکانوں تک کو ڈھانپ لیتی تھیں، پہنادیتی تھیں تاکہ پولیس کی آمد سے پھیلنے والے شور شرابے سے وہ محفوظ رہیں۔ بچوں کو انگریزی پولیس کا خوف دلاکر گھر سے باہر نہیں نکلنے دیتی تھیں۔ اُس وقت پورے علاقے میں خوف کا ماحول ہوا کرتا تھا۔ حیدر آبادمیں ہونےوالے پولیس ایکشن کے وقت بھی کچھ اسی طرح کے حالات تھے۔ بانوبیگم کی عمر اُس وقت ۸؍ سال تھی۔ چونکہ ان کا تعلق زمیندار خانوادے سےتھا، اسلئے ان کے گھر کےافراد بھی پولیس کی زد پر تھے۔ بانوبیگم کے۲؍ چاچا بھی پولیس ایکشن کا شکار ہوئے تھے۔ وہ تو اچھا ہوا تھاکہ اُس وقت بانوبیگم کے والد روپوش ہوگئے تھے، ورنہ وہ بھی پولیس کے ہتھے چڑھ جاتے۔ بانو بیگم نے تباہی و غارت گری کا ایساخوفناک ماحول اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
اُڑگی گائوں جہاں بانوبیگم کا بچپن گزرا، وہاں سانپ کثرت سے پائے جاتے تھے۔ زہریلے اور خطرناک قسم کے بڑے بڑے سانپ ہوا کرتے تھے۔ دن میں توخیر زیادہ مسئلہ نہیں ہوتا تھا لیکن راتوں کے وقت ان سانپوں سے لوگ خوفزدہ رہتے تھے۔ اس دور میں بجلی نہ ہونے سے لوگ گھروں میں چراغ جلاتے اور اس کی روشنی میں گھر کے کام کیا کرتے تھے۔ ایک رات ان کے والدکہیں سے آئے، اندھیرےمیں گھر کی دہلیز پرپھن پھیلائے ایک سانپ بیٹھا تھا جو اندھیرے کی وجہ سے انہیں دکھائی نہیں دیا، ان کا پیر جیسے ہی سانپ پر پڑا، اس نے انہیں بری طرح ڈس لیا جس کی وجہ سے وہیں موقع پر ہی ان کی موت واقع ہوگئی۔ گھر کے لوگ یہ دلخراش منظر دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ والدکی درد ناک موت کو یاد کرکے بانو بیگم آج بھی رنجیدہ ہو جاتی ہیں۔
بانوبیگم کاخانوادہ کم وبیش ۵۰؍افراد پرمشتمل تھاجن کےکھانے پینےکا مشترکہ انتظام ہوتا تھا۔ ان کی والدہ اور چاچی سب کا کھانا پکاتی تھیں۔ اس دور میں بجلی نہ ہونے سے چکی کی مشین وغیرہ کی سہولت نہیں تھی۔ یہ دونوں خواتین روزانہ صبح جلدی اُٹھ کر پہلے ۵؍کلو باجرہ پیستی تھیں اور اس کے بعد ۵۰؍ افراد کا کھانا تیار کرتی تھیں۔ گھر میں ایک بڑی اور وزنی چکی تھی۔ دونوں خواتین اپنے ہاتھوں سے چکی چلاکر باجرہ پیسا کر تی تھیں۔ امورِ خانہ داری کے علاوہ گھر میں پالے جانے والے بیل، بھینس اور گھوڑوں کو چارہ دینےکی ذمہ داری بھی ان کی والدہ پر تھی۔ اس دور میں مردوں کے ساتھ ہی گھروں میں خواتین بھی خوب محنت کرتی تھیں، تمام لوگوں کو ساتھ لے کرچلتی تھیں اور سب کا خیال رکھتی تھیں۔
اس دور میں اُڑگی گائوں میں آمدورفت کی زیادہ سہولیات نہیں تھیں۔ لوگ بیل گاڑی سے ایک سے دوسری جگہ کا سفر طے کرتےتھے۔ چونکہ بانو بیگم کاتعلق متمول خاندان سےتھا، اسلئے ان کے گھر میں آمدورفت کیلئے ۲؍ تندرست گھوڑے ہوا کرتے تھے۔ مرد حضرات کے علاوہ خواتین بھی ان گھوڑوں سے دور دراز کا سفر کرتی تھیں۔ بانو بیگم کے والد، ان کی والدہ کو چادر اُڑھا کر گھوڑے سے ان کے گھر(مائیکہ ) لے جایاکرتےتھے۔
ایک مرتبہ خاوند کی ضد پرو ہ رانی باغ (بائیکلہ )گئی تھیں۔ وہاں تالاب میں کشتی سے تفریح کاانتظام تھا۔ خاوند نے انہیں کشتی میں بیٹھنے کیلئے اصرار کیا لیکن وہ خوف کی وجہ سے بیٹھنے کی ہمت نہیں کرپارہی تھیں۔ ان کے خاوند نے زیادہ اصرار کیا تو انہوں نےکشتی میں بیٹھنے کی کوشش تو کی لیکن توازن برقرار نہیں رکھ پائیں جس کی وجہ سے ان کا پیر ہلکا سا مڑ گیا۔ گھبراہٹ پہلے سے تھی، اوپر سے یہ حادثہ، اسلئے ان پر ایک طرح کی غشی طاری ہوگئی۔ اس کے بعد انہیں فوراًکشتی سے اُتارا گیا اور گھر لایا گیا۔ اُس واقعے کے بعد گھر والوں نے ان کے شوہر کو بہت ڈانٹا تھا جس کی وجہ سے بہت دنوں تک شرمندہ شرمندہ سے رہے۔ بانوبیگم حیدرآبادی اور اُترپردیش کے طرز کاپکوان بنانےمیں بہت ماہرہیں۔ انواع واقسام کا لذیذ پکوان بنانےکےساتھ ہی انہیں دوست واحباب کوکھلانے کابھی بڑا شوق ہے۔ اس عمر میں بھی خاص پکوان بناکر اپنےہمسایوں میں تقسیم کرتی ہیں۔ مدینہ منزل میں وہ ’مامی‘ سےمقبول ہیں۔ جب کوئی خاص پکوان بناتی ہیں تو متعدد ہمسایوں میں تقسیم کرتی ہیں، لیکن ان کی پریشانی اُس وقت بڑھ جاتی تھی جب لوگ اس پکوان کا دوبارہ مطالبہ کرتےہیں۔ وہ کہتی رہ جاتی ہیں کہ اب نہیں ہےلیکن ہمسایوں سے اتنی قربت ہے اور ان میں سے بیشتر اتنے ’منہ لگے‘ ہیں کہ پکوان کی پتیلی دیکھے بغیر نہیں مانتے۔ دراصل یہی ان کے باہمی رشتے اورپیار و محبت کی علامت ہے۔ آج کے حالات دیکھ کر وہ بہت افسردہ رہتی ہیں کہ پڑوسی تو بہت دور کی بات ہے، اب تو لوگ خاندان کے افراد اور رشتہ داروں کو بھی یاد نہیں کرتے۔