مدنپورہ کے ۷۶؍ سالہ شکیل احمد کامل نے’فوڈ کارپوریشن آف انڈیا‘ میں بحیثیت فوڈ انسپکٹر ۳۰؍ سال تک اپنی خدمات انجام دی ہیں، اس دوران وہ سماجی سرگرمیوں میں بھی مصروف رہے، عمر کے اس مرحلے پر بھی ادبی اور سماجی سرگرمیو ں سے وابستہ ہیں۔
EPAPER
Updated: April 14, 2024, 4:26 PM IST | Saadat Khan | Mumbai
مدنپورہ کے ۷۶؍ سالہ شکیل احمد کامل نے’فوڈ کارپوریشن آف انڈیا‘ میں بحیثیت فوڈ انسپکٹر ۳۰؍ سال تک اپنی خدمات انجام دی ہیں، اس دوران وہ سماجی سرگرمیوں میں بھی مصروف رہے، عمر کے اس مرحلے پر بھی ادبی اور سماجی سرگرمیو ں سے وابستہ ہیں۔
آگری پاڑہ کے ایک قریبی شناسا نےایک دن مجھ سے کہاکہ میں اپنے چند ساتھیوں سے آپ کی ملاقات کروانا چاہتا ہوں۔ اگر آپ کہیں تو میں انہیں آپ کی جگہ پر لے آئوں۔ تب تک مجھے اندازہ نہیں تھا کہ وہ کن لوگوں سے ملاقات کروانا چاہتے ہیں۔ ایک روز وہ ایک عمررسیدہ شخص کے ساتھ آگئے تو انہیں دیکھ کر اچھا نہیں لگا کیونکہ ان کی عمر اور صحت ایسی تھی کہ انہیں اپنی جگہ پر بلانے کے بجائے ان سے ان کی جگہ پرجاکر ملاقات کرنا مناسب تھا۔ سلام دعا کےبعد انہوں نے بتایاکہ وہ ’گوشہ ٔ بزرگاں ‘ کالم بڑی پابندی سے پڑھتےہیں اور اس کالم میں اپنے تجربات اور احساسات کی ترجمانی کے بھی مشتاق ہیں۔ تعارفی ملاقات کے بعد کالم کیلئے تفصیلی گفتگو کا وقت اتوار ۲۴؍مارچ مقرر پایا۔ مقررہ وقت پر ہماری ایک بار پھرملاقات ہوئی۔ تقریباً ایک گھنٹہ تک ان سے ہونےوالی گفتگو انتہائی دلچسپ اور معلوماتی رہی۔
یہ بھی پڑھئے:’’جب ڈاکو نےکہاکہ آپ ممبئی میں مرنا زیادہ پسند کریں گے تو میرے اوسان خطا ہوگئے‘‘
ان جناب کا تعلق مدنپورہ کے معروف کامل خانوادہ سے ہے۔ شکیل احمد ابن عبدالرحمٰن کامل ابن منشی محمد کامل کی پیدائش ۱۴؍جون ۱۹۴۸ءکو گوشت بازار کے خوجہ چال میں ہوئی تھی۔ پرائمری تعلیم مدنپورہ سُنّی بڑی مسجد میں واقع آدم صدیق میونسپل اُردو اسکول سے، ہائی اسکول کاامتحان احمد سیلراسکول (ناگپاڑہ) ، سدھارتھ کالج سے ایچ ایس سی اور بی اےکا امتحان مہاراشٹر کالج سے ۱۹۶۹ءمیں پاس کیا۔ بعدازیں ممبئی یونیورسٹی میں ایم اے کرنے کیلئے داخلہ لیالیکن ایم اے مکمل نہیں کرسکے۔ اس دوران ملازمت کی تلاش جاری رہی۔ ۴؍سال کی تگ ودو کےبعد ۱۹۷۳ءمیں فوڈ کارپوریشن آف انڈیا( ایف سی آئی ) میں بحیثیت فوڈ انسپکٹرمامو ر ہوئے۔ پی ڈی میلوروڈ کے ڈاک پر لگنےوالی ڈیوٹی سے عملی زندگی کا آغاز کیا۔ ۲۰۰۴ء تک ایف سی آئی سے وابستہ رہے۔ اس دوران ایف سی آئی کی ایک اسکیم آئی تھی جس کےمطابق ۴؍سا ل قبل رضاکارانہ طورپر سبکدوش ہونے پر معاوضہ کی رقم کچھ زیادہ مل رہی تھی۔ انہیں حج پر جانے کا بڑاارمان تھا۔ انہوں نے ۴؍سال قبل رضاکارانہ سبکدوشی اختیار کرلی اور اسکیم کے تحت ملنےوالی اضافی رقم سے ۲۰۰۵ءمیں حج کرنے فریضہ انجام دیا۔ بعدازیں سماجی اور ادبی مصروفیات ان کااہم مشغلہ رہا۔ عمر کے اس مرحلے پر بھی گھریلو ذمہ داریاں نبھانے کے ساتھ ہی دوستوں سے ملنا جلنا اور ضرورتمندوں کی اپنے طور پر مدد کرنے میں بھی پیش پیش رہتےہیں۔
شکیل احمدنے ایف سی آئی میں تقریباً ۳۰؍سال تک ملازمت کی۔ اس دوران ایک وقت ایسا بھی آیا جب ملک میں اناج کی قلت پیدا ہوگئی تھی جس کی وجہ سے لوگ بھوکے رہنے پرمجبور تھے۔ یہ۱۹۷۳ء تا ۱۹۷۵ء کی بات ہے۔ اناج کی قلت سے پریشان لوگوں کی مدد کیلئے امریکہ اور کینیڈا نے مفت لال جوار بھیجاتھا۔ یہ لال جوار دھول مٹی سے اٹا ہوتا تھا۔ ایسا محسوس ہوتاکہ جوار نہیں بلکہ دھول مٹی ہے۔ وہ انسان کے استعمال کے لائق نہیں تھا، اس کےباوجود ضرورت کودیکھتے ہوئے اسے استعمال کے لائق قرار دیاگیاتھا۔ شکیل احمد لال جوار کوپانی کے جہاز سے ایف سی آئی کے گودام میں منتقل کرانےکی ذمہ داری پر مامور تھے۔ جوار کی بوریاں جہاز سے گودام تک پہنچانےکے درمیان بوریوں سے اُڑنے والی دھول مٹی سے وہ گرد آلودہ ہو جاتے تھے۔ ایسا اناج اس وقت حکومت کی جانب سے عوام کو سپلائی کیاگیاتھا۔
شکیل احمد اوران کے کالج کے چند دوستوں کا ایک گروپ تھا، جن میں ۲؍ ادبی شخصیات پرنس قمر اور محمد علی شبنم کارواری بھی شامل تھے۔ محمد علی ہزل لکھنے میں ماہر تھے۔ ۱۹۶۹ءمیں ہندستان نے اپولو ۱۱؍نامی راکٹ چاندپر بھیجا تھا۔ اس پر محمد علی نے ’راکٹ بنانے والے کیا تیرے من میں سمائی، چاندپر کر دی چڑھائی تُونے چاند پر کردی چڑھائی ‘ ہزل لکھی تھی۔ اس کے علاوہ متعدد فلمی گیتوں پر بھی انہوں نے ہزل لکھی تھی۔ جسے بعد میں کتابی شکل میں شائع کیاگیا تھا۔ ہراتوار کی صبح تقریباً ۱۰؍بجے بلاناغہ یہ گروپ مدنپورہ سے ہینگنگ گارڈن پیدل جاتا تھا۔ دوپہر تک یہاں تخلیقی سرگرمیاں انجام دی جاتی تھیں۔ دوپہر بعد یہاں سے ۱۰۲؍ نمبرکی بس پکڑکر سب گرانٹ روڈ پر اُتر جاتے اور یہاں سے اپنے اپنے گھروں کیلئے روانہ ہوجاتے تھے۔ یہ سلسلہ تقریباً ۹۔ ۱۰؍ سال جاری رہا۔
شکیل احمدکے بچپن کی بات ہے۔ مدنپورہ اور اطراف کے علاقوں کی چالیوں اور بلڈنگوں میں شادی بیاہ، منگنی، بچے کی پیدائش اور عقیقہ وغیرہ کے موقع پر خاص تقریبات کاانعقاد کیاجاتاتھا جس میں مقامی قوال مدعو کئے جاتے تھے۔ دیر رات تک قوالی کا پروگرام ہوتا۔ چالی اور بلڈنگوں میں ٹاٹ بچھا دیاجاتا تھا، قوال بھی اپنے سازندوں کے ساتھ زمین پر بیٹھتے اوراپنی قوالی سے سامعین کو محظوظ کرتے تھے۔ یوسف آزاد، جانی بابو اور منیر قوال کے علاوہ فانوس والا بلڈنگ میں پیٹر نامی ایک کرسچن قوال بھی رہتا تھا، جوقوالی کا مداح ہونے کےساتھ ہی خود بھی ایک اچھا قوال تھا۔ وہاں رات بھر قوالی کی محفلیں سجائی جاتیں۔ اس کے بعد نذرانہ کے علاوہ لوگ قوالوں کو بخشش دے کران کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔
شکیل احمد کی عمر ۱۶؍ سال کی رہی ہوگی کہ ایک مرتبہ رمضان المبارک میں سحری کے وقت زلزلہ آیاتھا۔ پوری بلڈنگ لرز اُٹھی تھی۔ گڑگڑاہٹ کی آواز سے بلڈنگ کےمکینوں میں افراتفری مچ گئی تھی۔ لوگ ایک طرح سے بدحواس ہوگئےتھے۔ ایک شخص تو صرف ’اللہ محمد‘ کہتے ہوئے بلڈنگ میں ادھرسے اُدھر دوڑ رہا تھا۔ اسی بلڈنگ میں ادریس نامی ایک بسی والا رہتاتھا، جو اکثر مسالہ پیستاتھا۔ لوگوں نے سمجھا کہ ادریس زور زور سے مسالہ پیس رہاہے، اسلئے بلڈنگ ہل رہی ہے۔ کچھ لوگوں نے اس سے جاکر کہا بھی کہ مسالہ دھیرے پیسو، پوری بلڈنگ ہل رہی ہے۔ بعد میں ادریس ہی نے انہیں بتایاکہ مسالہ پیسنے سے نہیں بلکہ زلزلہ آیاہے جس کی وجہ سے بلڈنگ ہل رہی ہے۔ وہ بڑا خوفناک منظر تھا۔ زلزلے کی وجہ سے لوگوں میں خوف ودہشت بیٹھ گئی تھی۔
کالج کے دورمیں ایک مرتبہ شکیل احمد دوستوں کے ہمراہ ایلی فینٹا پکنک پر گئےتھے۔ دن بھر کی سیر تفریح کے بعد شام کو لوٹتے وقت سب لوگ جیٹی ( سمندر میں بنایاگیا چھوٹا پلیٹ فارم جس کےذریعے لوگ جہاز میں سوار ہوتےہیں ) پر جہاز کےمنتظر تھے۔ جہاز کے آنے میں تاخیر ہونے سے جیٹی پر لوگوں کی بھیڑ بڑھنے سے لوگ ایک دوسرے کو دھکیل رہےتھے۔ شکیل احمد دوستوں کےساتھ جیٹی کے اگلے حصہ میں کھڑے تھے۔ پیچھے سے لوگوں کے آنے والوں کے دبائو سے خود کو سنبھالنا مشکل ہو رہاتھا۔ وہ چلاچلا کرلوگوں سے کہہ رہےتھے دھکا مت دو لیکن کوئی سننے کو تیار نہیں تھا۔ ایسےمیں متعدد مرتبہ سمند ر میں گرنے کی نوبت آئی لیکن خود کو کسی طرح سنبھالا، اسی دوران جہازکے آتے ہی بڑی بے ترتیبی سے لوگوں نے جہاز میں جگہ پانے کی کوشش میں چھلانگ لگائی جس کی وجہ سے کئی لوگ زخمی ہوگئے تھے۔ شکیل احمد کےبھی پیر میں چوٹ آئی تھی۔ اس خطرناک واقعہ کو وہ آج بھی بھول نہیں پارہےہیں۔
بابری مسجد کی شہادت کےبعد پھوٹ پڑنے والے فرقہ وارانہ فساد سے شکیل احمد کا خانوادہ کافی متاثر ہواتھا۔ اس وقت شکیل احمد اپنی فیملی کےساتھ ماہم کے فشر مین کالونی میں رہتےتھے۔ وہاں مسلمانوں کے ساتھ ہونےوالے ظلم وزیادتی سے پریشان وہ کسی طرح پناہ لینے اپنے والد کے سات راستہ سرکل والے گھر پہنچے تھے لیکن یہاں بھی شرپسندوں نے ان کے اہل خانہ کو کافی پریشان کیا تھا۔ اس کے بعد ان کا پورا خاندان یہاں سے ٹرانز ٹ کیمپ بائیکلہ منتقل ہوگیا تھا۔ سات راستہ کے پورے گھر کو فسادیوں نے لوٹ لیاتھا۔ اس دوران ڈیوٹی پر رہتے ہوئے ڈاک پر ۲؍ دن گزارنا بھی یاد ہے۔ اسی فساد میں ایک دن ان کے بہنوئی سید محفوظ پیارے بھائی کے کھار واقع گھر میں ایک شرپسند رات کے وقت ہاتھ میں لمبی چھری لے کرگھس گیا تھا۔ اس واقعے میں وہ زخمی بھی ہوگئے تھے۔ اس دوران ایسے کئی واقعات ہوئے تھے جو بھلائے نہیں بھولتا۔