• Thu, 19 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

’’میری گڑیا اور میری سہیلی کے گڈے کی شادی میں محلے والوں نے شرکت کی تھی‘‘

Updated: March 10, 2024, 3:42 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

بھنڈی بازارکی ۷۵؍سالہ بدرالنساء عبدالقدیر شیخ کا دن فجرکی نمازکےساتھ شروع ہوتا ہے اور تہجدکی نماز کی ادائیگی پر ختم ہوتاہے۔ بقیہ وقت گھریلوذمہ داریوں اور بچوں کی خیر وخیریت لینےمیں گزرتا ہے، انہیں مصروفیت اچھی لگتی ہے،اسلئے خالی نہیں بیٹھتیں۔

Badr al-Nisaa Abd al-Qadeer Sheikh. Photo: INN
بدرالنساءعبدالقدیر شیخ۔ تصویر : آئی این این

مدنپورہ کی ایک عزیزہ نےگزشتہ دنوں فون پر خیرخیریت معلوم کرنے کےبعد کہا کہ میری ۷۵؍سالہ انتہائی قریبی رشتے دار بدر النساء عبدالقدیر شیخ عرف بدری، گوشہ ٔ بزرگاں کالم میں اپنی زندگی کے تجربات گوش گزار کرناچاہتی ہیں۔ کیاان سے بات چیت کی جاسکتی ہے؟ کالم نویس کے جواب پر انہوں نے موصوفہ کاموبائل نمبر ارسال کیا۔ اس طرح ان سے ملاقات کی سبیل پیدا ہوئی۔ طے شدہ پروگرام کے مطابق راقم جب ممبرا، شیل پھاٹا علاقہ میں واقع عالیشان دوستی پلانیٹ سوسائٹی کے ۳۰؍منزلہ روبی ٹاورکے اے ونگ کی ۲۸؍ویں منزل پرپہنچاتو بدرالنساء اور ان کے چھوٹےفرزند خالد شیخ کواپنا منتظر پایا۔ فلیٹ کی وسیع وعریض کھڑکی سے شیل پھاٹاکی خوش نماسرسبزوادیوں کےساتھ ممبرانیشنل ہائی وے اور مین روڈ کےپُرکیف نظارےکےساتھ ہی ان سڑکوں پر دوڑتی موٹر گاڑیاں، ٹرک اوربس بچوں کے کھلونوں کے مانند دکھائی دے رہے تھے۔ رسمی گفت وشنید کے بعد موصوفہ سے ہونےوالی ایک گھنٹہ ۲۰؍ منٹ کی گفتگو بہت دلچسپ اور کارآمد رہی۔ 
 بدرالنساء شیخ کا آبائی گھر بھنڈی بازار جنکشن پر واقع پاٹکامنزل میں تھا۔ شادی کے بعدڈیڑھ سال وسئی، ۲۰؍ سال حیدرآباد، بعدازیں مور لینڈ روڈ، اسلام پورہ، امام باڑہ، بی آئی ٹی چال(بھنڈی بازار) اور اب ممبرا میں مستقل طورپر قیام پزیر ہیں۔ بھنڈی بازار کی پارسی گلی کےاسلام پورہ میونسپل اُردو اسکول سے ۷؍ویں اور انجمن اسلام سیف طیب جی اسکول (بیلاسس روڈ) سےدسویں جماعت کی تعلیم حاصل کی۔ اسی دوران ایک ہی ماہ میں والدین کےاچانک انتقال سےبھائیوں نے آگے کی پڑھائی روک کر ۱۹۶۷ءمیں ان کی شادی کردی۔ ان کاتعلق متمول گھرانے سے رہا ہے۔ اسی وجہ سےہمیشہ اعلیٰ اورمعیاری زندگی گزاری۔ ان کے ۳؍ بیٹے اور ۳؍بیٹیاں ہیں جن کی پرورش انہوں نے بڑے نازونام سے کی ہے۔ بچوں کوسونے کانوالہ کھلایالیکن تربیت شیر والی نگاہوں سے کی ہے۔ یہی وجہ ہے سبھی بچے کامیاب زندگی بسرکرنےکےساتھ ہی بڑوں کی عزت و احترام کرنا بھی خوب جانتےہیں۔ 
 بدرالنساء پیرانہ سالی میں بھی انتہائی فعال جسم وذہن کی مالک ہیں۔ فجرکی نمازکےساتھ ہی ان کی صبح ہوتی ہے اور تہجدکی نماز کی ادائیگی پر ان کا دن ختم ہوتاہے۔ اس دوران نماز کے علاوہ پابند ی سےقرآن کی تلاوت بھی کرتی ہیں۔ باقی وقت میں کچھ گھریلوذمہ داریوں کونبھانےکےساتھ ہی موبائل فون سے سبھی بچوں کی خیر وخیریت لیناان کاشغل ہے۔ انہیں مصروف رہنا اچھا لگتا ہے، اسلئے خالی نہیں بیٹھتیں۔ دوران گفتگو خالد نے کہاکہ ممی کو خریداری کا بھی بڑا شوق ہے۔ گھرکی ضروری اشیا کےعلاوہ پورے خانوادے کیلئے شاپنگ کرنا ان کامحبوب مشغلہ ہے۔ ہم سب بھائی بہنوں کی ہرممکن کوشش ہوتی ہےکہ ممی کے اس شوق میں حائل نہ ہوں۔

یہ بھی پڑھئے:اُن دنوں قریش نگر میں مشاعرے ’دانش کدہ‘ اور نثری محفلیں ’آئینہ دار اَدب‘ کےزیر اہتمام منعقد ہوتےتھے

ممی نے ہم بھائی بہنوں کو بہترین تعلیم و تربیت کی ہے۔ جھوٹ نہ بولنا، یوں ہی کسی کی دی ہوئی چیزکو قبول نہ کرنا، زمین پر گری ہوئی چیز کو نہ اُٹھانا اورپتنگ لوٹنے کی غلطی نہ کرنےوالی تربیتہمہ وقت ذہن میں رہتی ہیں۔ میری والدہ ایک مثالی ماں ہیں جن کی سرپرستی اورتربیت ہماری کامیابی کی ضامن ہے۔ 
 والدین کی اکلوتی بیٹی ہونےسےبدرالنساء کی پرورش بہت لاڈ پیار سےہوئی تھی۔ ان کے والدحکیم غلام قادری خان شہر کے حکیموں کی تنظیم کے صدرتھے۔ پیسوں کی فراوانی ہونے سے بدرالنساءکابچپن بھی عیش و عشرت میں گزرا ہے۔ اسکولی دور میں خریداری کاایسا شوق پیداہواکہ جب بھی دل میں آتا، اس دور میں والدین سے ۱۰۰؍روپےلےکر اپنی سہیلیوں کےساتھ زویری بازار سےوقتاً فوقتاً سونےکی گنّی خرید لاتی تھیں۔ اس دور میں ۱۲؍گرام سونے کا ایک تولہ تھا۔ ۱۲؍گرام سونےکی قیمت ۱۰۰؍روپے تھی جبکہ ایک تولہ چاندی کی قیمت ایک روپے تھی۔ ان دنوں ہی چاندی کےایک روپے کے سکے کو حکومت نے اکٹھاکرنےکیلئے مخصوص اسکیم شروع کی تھی۔ چاندی کاایک سکہ دینے پر حکومت سواروپے واپس دے رہی تھی۔ چار آنے زیادہ ملنےکی لالچ میں بدرالنساء نےبھی متعدد چاندی کےسکے لوٹائے تھے۔ یہ سکےمحلے کی پان بیڑی، پرچون اورعام دکانوں پر لوٹائے جارہےتھے۔ چاندی کے سکوں کےعوض چار آنے زیادہ تو ضرور ملے لیکن چاندی کےبدلے عام دھات کے سکے دیئے جانے کاکسی کو احساس نہیں ہوا۔ اس طرح حکومت نے عوام سے چاندی کے تمام سکے جمع کر لئے۔ بعدمیں لوگوں کو اس بات کا افسوس ہواکہ چارآنے کےچکرمیں چاندی سے ہاتھ دھونا پڑا۔ 
 بدرالنساء کی یوں توکئی سہیلیاں تھیں لیکن ان کی ایک ایسی سہیلی بھی تھیں جن کےبغیر وہ اپنے وجودکوادھوراسمجھتی تھیں۔ اسلام پورہ کی ناہید سلطانہ جنہیں وہ پیار سے بے بی کہتی تھیں۔ ان دونوں کی زبردست دوستی تھی۔ دونوں ایک دوسرےکےبغیر نہیں رہ پاتی تھیں۔ ۶۰؍سال پرمشتمل یہ دوستی بے بی کی امریکہ میں ہونےوالی موت پر ختم ضرور ہوئی لیکن بے بی کی موت سےبدرالنساء کی زندگی ویران ہوگئی۔ ان کی گہری دوستی سے ایک بڑی دلچسپ یاد وابستہ ہے۔ ۱۹۶۲ءمیں ان دونوں نےگڑیا اور گڈےکی بڑی دھوم سے شادی کی تھی۔ اسلام پورہ اوربھنڈی بازار کےباحیات بزر گ آج بھی اس کےشاہدہیں۔ بےبی کاگڈا اور بدری کی گڑیاتھی۔ بدری نے گڑیاکی شادی کیلئے جہاں محلے کی انیسہ نامی لیڈس ٹیلر سے ۵۱؍ جوڑے کپڑےسلوائےتھے وہیں پارسی گلی میں ایک چپل ساز سےاس کی جوتی بنوائی تھی۔ جہیزکے سارے سامان ( کھلونےکی شکل والا)کابندوبست تھا۔ بارات میں محلے کے مرد وخواتین کےعلاوہ بزرگوں اوربچوں نےبڑی تعدادمیں شرکت کی تھی۔ متعدد نوجوان بارات میں باجابجارہےتھے۔ نکاح فاطمہ آپانے پڑھایاتھاجس کیلئے انہیں سواروپےدیئےگئے تھے۔ نکاح کےبعد مہمانوں میں اس دورکامعروف گلبرگ شربت جو ایک بڑے پتیلے میں بنا یا گیاتھا، تقسیم کیاگیا تھا۔ اطراف واکناف میں گڈااور گڑیا کی ایسی شادی کبھی نہیں ہوئی تھی۔ 
 بدرالنساءنےہندوپاک جنگ اور اس کےمناظر بڑے قریب سے دیکھے ہیں۔ جنگ کےدوران کی جانے والی احتیاطی تدابیرمثلاً لوگوں کو سرکے بال منڈوانے، سائرن بجتے ہی جہاں کہیں ہوں وہاں لیٹ یا سو جانے، کھڑکیوں سے دوررہنے اور گھروں میں اندھیرا رکھنےکی ہدایتیں دی گئی تھیں۔ سرکے بال منڈوانےکی ہدایت سے ممبئی کی سڑکوں پر گنجوں کی اکثریت دکھائی دے رہی تھی۔ اسی دوران ایک دن اچانک دوپہر میں ساڑھے ۱۲؍بجے سائرن بجنے سے بھنڈی بازارمیں افراتفری کا ماحول پیدا ہو گیا تھا۔ لوگ گرتے پڑتے گھروں کی طرف بھاگ رہےتھے۔ بدرالنساء کا ڈروخوف سے برا حال تھا۔ گھروالوں نے ایک صوفے کے نیچے انہیں سلادیاتھا۔ ۷۔ ۵؍ منٹ کایہ وقفہ انتہائی خوف وہراس میں گزرا۔ ان لمحات کو یادکرکے وہ اب بھی خوفزدہ ہوجاتی ہیں۔ 
 بدرالنساءکےخاوند عبدالقدیرشیخ کاگیرج بائیکلہ چڑیاگھر کے قریب تھا۔ و ہ اپنی ایمانداری، محنت اور دیانتداری کیلئےمعروف تھے۔ ان کی گیرج میں شہر کےمتمول گھرانوں کی موٹرگاڑیاں مرمت کیلئے آتی تھیں۔ یہ ۹۳۔ ۱۹۹۲ءکی بات ہے۔ بابری مسجدکی شہادت کےبعدپھوٹ پڑنے والے فرقہ وارانہ فساد کےدوران ان کی بند گیرج کو شرپسندوں نے نہایت بےدردی سےلوٹ لیاتھا۔ گیرج کےسازوسامان کےعلاوہ یہاں کھڑی قیمتی موٹرگاڑیوں کوتباہ کردیاتھا، جس کی وجہ سے انہیں کافی مالی نقصان برداشت کرنا پڑالیکن جن لوگوں کی موٹرگاڑیاں تھیں، وہ عبدالقدیر کواچھی طرح جانتے تھے، اسلئے انہوں نے کسی طرح کے معاوضے کامطالبہ نہیں کیا۔ ان دنوں بدرالنساء بھنڈی بازار میں رہائش پزیر تھیں۔ فساد کے دوران ہونےوالی لوٹ مار، خون خرابے اور آگ زنی کو بہت قریب سے دیکھنے کامنظریاد آنےپر وہ اب بھی پریشان ہوجاتی ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK