’’یہ بجھتے چراغوں میں روشنی کی نئی روح پھونکنے والا کالم ہے!‘‘

Updated: September 17, 2023, 4:40 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

’’گوشۂ بزرگاں ‘‘ کی ۱۰۰؍ قسطیں مکمل ہونے پر ایک تاثراتی تحریر جس میں اس کالم کے سلسلے میں ہونے والے تجربات اور مشاہدات بیان کئے گئے ہیں۔

Gosha-E-Buzurgaan. Photo. INN
گوشۂ بزرگاں،۔ تصویر:آئی این این

 انقلاب کے ہر اتوار کو شائع ہونے والے کالم ’’گوشۂ بزرگاں ‘‘ کی ۱۰۰؍ قسطوں کا سنگ میل تقریباً دو سال کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ ۱۷؍اکتوبر ۲۰۲۱ء سے شروع ہونےوالی اس سیریز میں سب سے پہلےگوریگائوں کے دائود خان کی یادوں کاتذکرہ کیا گیا تھا۔ قارئین انقلاب نے سیریز کی پہلی قسط اور اس سلسلہ کو خوب سراہا جس سے کالم جاری رکھنےکاحوصلہ ملا۔ ۱۰۰؍قسطوں کا قیمتی سفر جہاں عام قاری کیلئے اہم اور دلچسپ معلومات پر مبنی رہا، وہیں جن ۱۰۰؍ عمر رسیدہ افراد سے گفتگو کی گئی، اُن پر بھی اس انوکھی پیشکش کا بہت خوشگوار اثر ہوا۔ 
 ۱۰۰؍ قسطوں کے اس طویل سفر میں ممبئی و مضافات کے علاوہ تھانے (رابوڑی)، بھیونڈی، کلیان، پنویل، مالیگائوں ، جالنہ اور دیگر اضلاع کی بزرگ شخصیات سےگفت وشنید اور ان کی زندگی کے مختلف ادوار کی یادوں سے آشنائی راقم کیلئے کسی قیمتی خزانے سے کم نہیں ہے۔ کالم کے ذریعے بزرگوں نے اپنے دور کی سماجی، سیاسی، معاشی، ادبی، علمی، تہذیبی اور ثقافتی باتیں ، روایتیں ، رہن سہن ، تعلیم وتربیت، قوت خرید اور دیگر اُمور پر روشنی ڈال کر موجودہ نسل کو بتایا کہ اُنہوں نے اپنی زندگی جینے کیلئے کیا کچھ کیا۔ بیشتر قسطوں میں اِن بزرگوں نے اپنے دوستوں اور خیرخواہوں کا ذکر ضرور کیا جو اس بات کا ثبوت تھا کہ انسان کی زندگی میں ساتھیوں کی بڑی اہمیت ہوتی ہے، جو ساتھیوں اور دوستوں سے محروم ہے وہ بہت سی چیزوں سے محروم ہے۔ سابقہ دور کی باہمی محبت، ہمدردی، خلوص، ملنساری، اپنائیت، سادگی اور انکساری تمام ۱۰۰؍ قسطوں میں اپنی جھلک دکھلاتی رہی۔ کئی لوگوں کی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ اُنہیں اپنے ساتھیوں سے دوری کا احساس یا اُن کے بچھڑنے کا غم ہے۔ اِس کالم میں شمولیت پر ملنے والی پزیرائی سے متعدد ضعیفوں میں زندگی کی نئی روح اوراُمنگ جاگ اُٹھی۔ متعدد بزرگوں نے یہ تک کہا کہ اس کالم میں شمولیت سے عزیز واقارب میں ہمیں دوبارہ زندگی مل گئی۔ چندایسے بزرگ بھی ملے جنہیں زندگی میں پہلی مرتبہ اخبار میں اس طرح اپنی بات رکھنےکاموقع ملا۔ عمررسیدہ ہونےپر ان کے احساسات، تجربات اور معلومات کی ترجمانی سے انہیں بڑی طمانیت و مسرت حاصل ہوئی۔
۱۰۰؍ قسطوں کی سو الگ الگ داستانیں ہیں لیکن ان میں کچھ قصے ایسے ہیں جن کے نقش مہینوں گزر جانے کے باوجود ذہن میں محفوظ ہیں۔ راقم نے کسی سے بالمشافہ ملاقات کی تو کسی سے فون پر سوال جواب کئے۔ بعض افراد کی تفصیل کسی توسط سے حاصل کی گئی۔ ان میں سے کچھ ملاقاتیں ایسی ہیں جن میں زندگی کےنشیب وفراز کو قریب سے دیکھنے اور محسوس کرنے کا موقع ملا۔ اس کی دو مثالیں ہیں ؛ ایک خوشحالی اور دوسری بدحالی کی۔ پہلی مثال ایک ضعیف خاتون کی ہے جن کے گھر کاہر فرد(مردو خواتین) اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بڑاکاروباری ہے، اس کے باوجود اُن ضعیفہ کی دیکھ بھال اور ضروریات کی تکمیل کا پورا خیال رکھاجاتاہے۔ ایک عالیشان عمارت کے ۲۵؍ ویں منزلہ پر انتہائی کشادہ اور خوبصورت فلیٹ میں رہائش پزیر موصوفہ کی جہاں ہر ضرورت پلک جھپکتے پوری کی جاتی ہے وہیں گھر اور کمپلیکس میں تفریح کیلئے ان کی پوتی نے انہیں ایک ایسی کرسی والی گاڑی مہیاکرائی ہے جسے وہ خود چلاتی ہیں۔ ساری آرائشیں میسر ہونے سے وہ عمر کے اس پڑاؤ میں بھی فعال اور صحتمند دکھائی دیتی ہیں۔ یہ ہے خوشحالی کی مثال۔ 
  دوسری مثال بدحالی کی ہے۔ جنوبی ممبئی کی ایک گنجان جھوپڑپٹی میں جب مَیں ان بزرگ سے ملاقات کیلئے پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک قفس نما جھوپڑی میں وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ رہائش پزیر ہیں۔ ان سے ملاقات کا قصہ عجیب ہے۔ اس ہفتہ کے کالم کیلئےکسی ایک اور صاحب نے وقت دیاتھا مگر اچانک معذرت کرلی۔ ایسےمیں ایک دوست نے ان دوسرے صاحب کی بابت بتایا اور کہا کہ ان کی اہلیہ شدید بیمار ہیں اس لئے مجھ میں ہمت نہیں ہے کہ ان سے انٹرویو کیلئے کہوں ، اسلئے آپ اپنے طورپر کوشش کرلیں ۔ مَیں نے اسی محلے کے ایک بااثر شخص سے رابطہ کیا اور انٹرویو کی سبیل نکل آئی۔ جب مَیں اُن کے گھر پہنچا ہوں تو دکھائی دینےوالا منظر لرزہ خیز تھا۔ ۳۰۔۲۵؍ مربع فٹ پر محیط گھر کسی عجائب خانہ سے کم نہ تھا۔ ضروریات زندگی کاکچھ سامان کسی طرح درودیوار میں جڑدیاگیاتھا۔ ایک گوشہ میں ٹرین کی برتھ سے بھی کم چوڑے اور لمبےپلاٹ نما بستر پر ایک معمرخاتون نیم بے ہوشی کےعالم میں کراہ رہی تھیں۔ ان کےقریب ایک چھوٹے سے اِسٹول پر بیٹھ کر یہ صاحب جن سے مجھے اُن کی زندگی کے بارے میں جاننا تھا، انہیں پنکھاجھل رہےتھے۔ کسی تیسرے شخص کے بیٹھنے کی جگہ نہیں تھی۔گھرکےچھوٹے سے دروازے کےباہرپلاسٹک کے اِسٹول پر راقم کو بٹھایا گیا۔ انٹرویو شروع ہوا تو اُن صاحب نے بتایا کہ فالج کے حملہ کے سبب اہلیہ کئی مہینوں سے بیڈ پر ہیں ۔ ۲؍ بیٹے ہیں جو معمولی مزدوری کرتے ہیں ۔ ضروریات پوری کرنےکیلئے اس ضعیفی میں بھی اُنہیں مزدور ی کیلئے نکلنا پڑتا ہے مگر اَب اہلیہ کی بیماری کے سبب گھر ہی پر ہیں ۔ کسی طرح گزربسر ہورہاہے۔ دورانِ گفتگو یہ نمائندہ یہی سوچتا رہاکہ کچھ لوگوں پر زندگی کتنا جبر کرتی ہے! فالج زدہ خاتون کو ایک تنگ پلاٹ پرلیٹا ہوا دیکھ کر محسوس ہورہاتھاکہ اس سے زیادہ کشادہ تو قبر ہوتی ہے۔ 
  ۹۰۔ ۸۵؍ سال کے بزرگوں میں سے متعدد کا حافظہ متاثردکھائی دیا جس کی وجہ سے انہیں اپنے دور کی باتیں یاد کرنےمیں پریشانی ہورہی تھی۔ اُن کے اہل خانہ اور متعلقین نے جو باتیں سنی تھیں ، وہ یاد دِلائیں تب وہ بزرگ کچھ کہنے کے قابل ہوئے۔ کچھ ایسے بزرگ تھے جنہوں نے کافی کوشش کی لیکن حافظہ نے وفا نہ کی۔ 
  کچھ لوگوں تک راقم نہیں پہنچ سکا لیکن وہ کالم کا حصہ بننا چاہتے تھے چونکہ جانتے نہیں تھے کہ اخبار سے یا اس نمائندہ سے کس طرح رابطہ قائم کیا جائے اس لئے اپنے طور پر کوشش کرتے رہے، بالآخر گوشہ ٔ بزرگاں میں جگہ پانےمیں کامیاب ہوئے۔ ایسے ہی ایک بزرگ سے ہونے والی ملاقات خاص اہمیت کی حامل ہے۔ مقررہ وقت پر میرا روڈ پہنچنے پر محسوس ہواکہ وہ نہیں بلکہ گھر کا ہر فرد بے صبری سےمنتظر ہے۔ کالم نگار کا گرمجوشی سے استقبال کیاگیا۔ انٹرویو کےبعد موصوف کا آخری جملہ متاثر کن تھا۔ اُنہوں نے یہ کہتے ہوئے راقم کو رخصت کیا کہ ’’یہ بجھتے چراغوں میں روشنی کی نئی روح پھونکنے والا کالم ہے، اس لئے میری خواہش تھی کہ مجھے بھی اس میں جگہ ملے تاکہ میں اپنی زندگی کےاہم لمحات کو دستاویزی شکل دے سکوں ۔ بہت شکریہ جناب!‘‘ 
 گوشہ ٔ بزرگاں کیلئے ایک اور بزرگ کی ملاقات کو شاید مَیں کبھی نہ بھول پاؤں ۔ وڈالاکی مسجد میں ان سے ہونےوالی بات چیت اپنی جگہ، لیکن دوران گفتگو اُن کے گھریلوحالات اور معاشی بے چارگی کا تذکرہ سن کر بہت رنج ہوا۔ ان کی عمر ۸۵؍سال سےزیادہ ہے۔ ایک بیٹا ہے جو محنت مزدوری کرتاہے۔ ایک بیٹی گزشتہ ۴۰؍ سال سے بستر پر ہے۔ اس کا علاج، کفالت اور دیکھ بھال کی ذمہ داری ان کے ناتواں کندھوں پر ہے۔ انٹرویو کے بعدمسجد کے صحن ہی میں اُنہوں نے اپنا درد بیان کیا تو ایسا لگا جیسے مَیں بھی رو پڑوں گا۔
 بھیونڈی، کلیان، مالیگائوں، جالنہ اور چند دیگر شہروں کے عمررسیدہ لوگوں سے ٹیلی فون پر ایک ڈیڑھ گھنٹہ گفتگو کا تجربہ بھی خوب رہا، ٹیلی فون پر کئےگئے انٹرویو دقت طلب رہے۔ ضعیفی میں قوت سماعت متاثر ہونے سے ایک بات کو بار بار دہرانا، بلند آواز میں ایک ڈیڑھ گھنٹہ گفتگو کرنااور بار بارکسی خاص موضوع کی طرف توجہ دِلانا دشوار گزار تو تھا مگر اس جدوجہد کے بعد اپنے گوہر مقصود کو پالینا زیادہ خوشگوار تھا۔
 کالم کیلئے عمرکی مناسبت سےبزرگ مردوخواتین کی تلاش بھی مسئلہ تھا۔ مرد حضرات تو ملاقات کیلئے وقت دے دیتے تھے مگرخواتین انٹرویو کیلئے آمادہ نہیں ہوتی تھیں ۔ اِس کی ایک مثال مومن پورہ کی ایک خاتون ہیں جو ایک معلمہ کی معرفت رابطہ میں آئی تھیں ۔تفصیلی انٹرویو ہوا مگر اس سے قبل کہ مَیں اسے قلمبند کرتا، انہوں نے کہلوا دیا کہ انٹرویو شائع نہ کریں ۔ یہ سن کر بڑی مایوسی ہوئی۔ جس معلمہ کے ذریعہ اُن سے رابطہ ہوا تھا اُنہوں نے بڑی معذرت کی مگر کچھ کیا نہیں جاسکتا تھا، نجانے کیا بات رہی ہو! 
۱۰۰؍ قسطوں کے اس طویل سفر میں تھانےکی ایک معروف سماجی و تعلیمی شخصیت نے پہلی قسط سے لے کر ۱۰۰؍ ویں قسط تک، ہر قسط پڑھی۔ ہر اتوار کو فجرکی نماز کے بعد کالم سےمتعلق اپنے تاثرات وہاٹس ایپ پر ارسال کردیتے تھے۔ کئی دیگر قارئین بھی اس کالم نگار کا حوصلہ بڑھاتے رہے۔ ۱۰۰؍ قسطوں میں جگہ پانے والے ۱۰۰؍ بزرگوں میں آٹھ تا دس اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے جن کے بارے میں سوچتا ہوں تو ایسا لگتا ہےکہ ابھی کل ہی کی بات ہے جب ان سےملاقات ہوئی تھی، کافی دیر بات چیت ہوئی تھی اور اب وہ دنیامیں نہیں ہیں ۔ بھیونڈی کےایک صاحب کےانٹرویو کی پوری تیاری کرلی تھی، اچانک انہوں نے فون کرکے۱۵؍دن کی مہلت طلب کی، اس دوران وہ راہی ٔ ملک عدم ہوگئے۔ ایسابھی ہوگا، اس کا گمان تک نہیں تھا۔ 
ایسی بہت سی یادیں انقلاب کے اس خصوصی کالم ’’گوشہ ٔ بزرگاں‘‘ سے وابستہ ہیں جن کیلئے ایک دفتر درکار ہے، یہاں محض چند باتیں نذر قارئین کی گئی ہیں ۔اِس کالم کا مقصد، جیسا کہ ابتداء میں مدیر انقلاب نے راقم الحروف کو ذمہ داری دیتے وقت کہا تھا، جہاں بزرگوں کی خدمات کا اعتراف اور اُن کی یادوں کو نئے دور کے قارئین تک پہنچانا ہے وہیں معاشرہ میں بزرگوں کے تئیں حساسیت پیدا کرنا ہے۔ اس مقصد کی مزید تکمیل کیلئے آئندہ ہفتے سے یہ سلسلہ نئی آب و تاب کے ساتھ دوبارہ جاری ہوگا، ان شاءاللہ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK