پائیدھونی کے ۸۹؍ سالہ عثمان غنی منصوری پیرانہ سالی میں بھی موسیقی کے مداح ہیں، موسیقی کے پروگراموں میں شرکت کرنےکےعلاوہ خود بھی میوزیکل شوز منعقد کرواتے ہیں، فلمی دنیا کی اہم اور مشہور شخصیات کے ساتھ ان کے مراسم رہے۔
EPAPER
Updated: March 23, 2025, 2:05 PM IST | Saadat Khan | Mumbai
پائیدھونی کے ۸۹؍ سالہ عثمان غنی منصوری پیرانہ سالی میں بھی موسیقی کے مداح ہیں، موسیقی کے پروگراموں میں شرکت کرنےکےعلاوہ خود بھی میوزیکل شوز منعقد کرواتے ہیں، فلمی دنیا کی اہم اور مشہور شخصیات کے ساتھ ان کے مراسم رہے۔
پائیدھونی کی قاضی اسٹریٹ میں مقیم عثمان غنی منصوری کی پیدائش ۱۸؍ مارچ ۱۹۳۶ء کو چمنابوچر اسٹریٹ، چور بازار میں ہوئی۔ گھوگھاری محلہ میونسپل اُردو اسکول سے ساتویں تک تعلیم حاصل کی، پھر والد کی میوزک سائونڈ ریکارڈنگ کی دکان، جوگرانٹ روڈ پر تھی، سے وابستہ ہوگئے۔ ۳۰؍سال تک یہی کاروبار کیا۔ بڑھتی عمر کے پیش نظر گھر کے دیگر افراد نے یہ ذمہ داری سنبھال لی۔ والد کے پاس موسیقی کی مشہور کمپنی ایچ ایم وی کی ایجنسی ہونے سے ان کے اداکاروں، فلمسازوں، ہدایتکاروں، موسیقاروں، اسکرپٹ رائٹرز اور گلوکاروں سے مراسم ہوگئے۔ ان کے پاس پرانی ہندی فلموں کے نغموں، مکالموں، فلم اداکاروں کی یادگار شوٹنگ کی تصاویر کاقیمتی ذخیرہ ہے۔
وہ پیرانہ سالی میں بھی پورا دن ان یادگار اور نایاب فلمی خزانوں سے گھرے رہتے ہیں۔ موسیقی کےمداح ہیں، اس لئے آج بھی موسیقی کے پروگراموں میں شرکت کرتے ہیں اور خود بھی شوز منعقد کرواتے ہیں۔ لکشمی کانت، نوشاد اور اُوشا کھنہ، اندیور، گلوکارہ مبارک بیگم اور لتا منگیشکر سے ان کے تعلقات رہے ہیں۔ لکشمی کانت، اُوشاکھنہ اور اندیور کے علاوہ قوال عزیز نازاں اور اسماعیل آزاد بھی ان کی دکان پر ریکارڈنگ کیلئے اکثر آتےتھے۔
فلم ڈائریکٹر عبدالرشید کاردار سے یادگار ملاقات
فلم ڈائریکٹر کاردار اپنی فلموں کے نغموں کو آڈیو کیسٹ میں محفوظ کروانے کیلئے کسی کی معرفت عثمان غنی کی دکان کاپتہ لے کر، اپنی رہائش گاہ رنگ محل، مرین ڈرائیو سے گرانٹ روڈ آئے تھے۔ انہوں نے اس دور میں عثمان غنی کو آڈیو کیسٹ کیلئے ۴۰۰؍ روپے پیشگی دیئے تھے۔ ان کے نغموں کی ریکارڈنگ کا کام جاری تھا۔ اسی دوران کاردار صاحب کے اچانک انتقال کی اطلاع ملی۔ وفات کے ۲؍ہفتہ بعد عثمان غنی ان کے دیئے ہوئے ۴۰۰؍روپے لوٹانے رنگ محل پہنچے۔ پہلے تو دربان نے انہیں اندر جانے کی اجازت نہیں دی، بہت اصرار پر کاردار صاحب کی بیٹی یاسمین کو اطلاع دی گئی۔ یاسمین نے دروازہ پر آکر عثمان غنی سے گفتگو کی۔ جب انہوں نے کاردار صاحب کے دیئے کام اور ۴۰۰؍ روپےکے متعلق بتایا تو یاسمین نے انہیں بڑے احترام سے بٹھایا، خاطر تواضع کی اور کاردار صاحب کا کمرہ دکھایا۔ دونوں کافی دیر تک کاردار صاحب کے متعلق گفتگو کرتے رہے، پھر عثمان غنی نے ۴۰۰؍ روپے یاسمین کو لوٹائے تو انہوں نے اسے لینے سے انکار کردیا۔ کافی اصرار پر روپے لئے تو کہا ’’آپ جیسے مخلص اور ایماندار لوگ دنیامیں کم ہیں۔ ‘‘
گھڑیال گودی کے انگلش جہاز کا دھماکہ
عثمان غنی نے ۱۹۴۴ءمیں گھڑیال گودی میں آئے انگلینڈ کے جہاز میں ہونےوالے دھماکہ کے بعد کی تباہ کاریوں کو دیکھا ہے۔ نمازِ جمعہ کے بعد لوگ گھروں کو لوٹ رہے تھے کہ زوردار دھماکہ کی آواز سے زمین دہل گئی، نعمت خانوں کے برتن گرگئے، کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔ لوگ اپنی بلڈنگوں کی چھتوں پر دیکھنے دوڑے کہ ماجرہ کیا ہے۔ آسمان پر گہرے سیاہ دھوئیں کے مرغولے تھے۔ تبھی ریڈیو پر نشر ہوا کہ چھتوں پر موجود لوگ نیچے آجائیں کیونکہ آسمان میں سیاہ دھوئیں کے ساتھ مختلف دھاتوں کے ذرات کاطوفا ن آیا ہواہے۔ جس جہاز میں دھماکہ ہواتھا اس میں سونے کی اینٹیں تھیں۔ ایک پارسی کے گھر میں سونے کی ایک اینٹ چھت توڑ کر گرگئی تھی۔ پارسی نے اسے انگریز حکومت کے حوالے کردیا جس کے عوض انہیں ایمانداری کا سرٹیفکیٹ دیا گیا۔ صرف سرٹیفکیٹ ملنے پر پارسی باپ بیٹے میں تکرار ہوگئی تھی۔
مہاتما گاندھی کے قتل کے بعد کا منظر نامہ
مکر سنکرانتی کادن تھا۔ آسمان رنگ برنگی پتنگوں سے بھرا ہوا تھا۔ عثمان غنی کو پتنگ لو‘ٹنے کا شوق تھا۔ اس دن بھی پتنگ لوٹنے کے چکر میں گھر سے نکلے ہی تھے کہ دیکھا لوگوں کاہجوم ایک جانب سے دوڑتا ہوا آرہا ہے۔ وہ گھبرا گئے اور ایک شخص سے بھاگ دوڑ کی وجہ پوچھی تو اس نے ہانپتے کانپتے جواب دیا کہ مہاتماگاندھی کو کسی نے گولی ماردی ہے۔ فساد پھوٹ پڑا ہے۔ بھاگ جا یہاں سے۔ پھر گولیوں کی آوازوں سے علاقہ میں سنسنی پھیل گئی۔ فوج کا فلیگ مارچ شروع ہوگیا۔ سڑکوں پر لاشیں گرنے لگیں۔ عثمان غنی بچتے بچاتے گھر پہنچے اور اطمینان کا سانس لیا۔ ایک ہفتہ تک کرفیو لگارہا۔ اسی دوران ایک روز ان کی دکان پر ایک سردار جی ہانپتے کانتپے آئے، کرپان نکال کر عثمان غنی کے والد کو دی اور دوڑ کر کہیں نکل گئے، ان کے ساتھ کیا ہوا، آج تک معلوم نہیں پڑا۔
قوالوں کا ٹیبل، ابن صفی کے مداحوں کا ٹیبل
بھنڈی بازار پر واقع وزیر ہوٹل تاریخی اہمیت کاحامل رہا ہے۔ ہوٹل میں داخل ہونے کے ۴؍ دروازے اور گاہکوں سے پیسہ لینے کیلئے ۲؍ کائونٹر تھے۔ یہ قوالوں کا مرکز تھا۔ ایک طرف قوالوں کا، دوسری جانب ابن صفی کی ناول پڑھنےوالوں کا ٹیبل ہوتاتھا۔ چائے کادور چلتا۔ عثمان غنی نےوزیر ہوٹل میں پہلی مرتبہ عزیز نازاں کو دیکھا تھا۔ جو بعدمیں اپنی قوالی کی ریکارڈنگ کیلئے دکان بھی آئے۔ چونکہ اس دور میں شہر میں اسماعیل اور یوسف آزادقوال کی اجارہ داری تھی، والد صاحب نے عزیزنازاں کو کولکاتاجاکر ایچ ایم وی ایجنسی سے ریکارڈنگ کی صلاح دی تھی اور ایجنسی کے نام ایک خط بھی دیاتھا جس کی وجہ سے عزیز نازاں کا کام ہوا۔ اس دورمیں سڑکوں اور گلیوں میں منڈپ لگا کر قوالیوں کا پروگرام رات بھر جاری رہتا تھا۔ فجرکی اذان سے قبل سلام پڑھ کر قوالی ختم ہوتی تھی۔
ہوٹلوں میں چائے کے گلاس کیلئے لوہے کے تار والی جالی
اس دور میں جنوبی ممبئی کے متعدد علاقوں مثلاً پلے ہائوس، نل بازار، بھنڈی بازار، جے جے جنکشن اور دیگر علاقوں کی ہوٹلوں میں چائے پینےکے ساتھ گاہکوں کی تفریح کیلئے گانے سننے کیلئے جوک باکس مشین ہوتی تھی۔ محمد رفیع نے کسی فلم کیلئے ایک نعت بھی گائی تھی۔ اسے بھی ہوٹلوں میں چلایا جاتا تھا لیکن کچھ لوگوں کے اعتراض پر بند کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ نعت کی بے حرمتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہوٹلوں کے بیرے چائے اورپانی کے گلاس یوں پکڑتے تھے کہ ان کی اُنگلیاں ان میں ڈوبی ہوتی تھی۔ اس کی وجہ سے ایک ہوٹل کے بیرے کی لوگوں نے خوب پٹائی کی تھی۔ اس کےبعد ہوٹلوں میں لوہے کے تار والی جالی متعارف کرائی گئی جس میں ۶؍گلاس رکھنے کی گنجائش ہوتی ہے۔
موسیقار لکشمی کانت پیارے لال سے مراسم
۶۰ء کی دہائی میں لکشمی کانت کی عمر تقریباً ۱۸؍ سال رہی ہوگی، جنہوں نے عثمان غنی کی دکان پر آکر کہا، میں آرکسٹرا میں مینڈولین بجاتاہوں، نام لکشمی کانت ہے۔ عثمان غنی نے ان کی جانب توجہ نہیں دی۔ وہ منڈولین لائے تھے، دھن بھی سنائی مگر عثمان غنی نے کوئی توجہ نہیں دی۔ عثمان غنی کی عدم توجہی کے باوجود وہ دکان پر متواتر آتے رہے۔ بعدازیں، ان کے مراسم اچھے ہوگئے، آج وہ لکشمی کانت پیارے لال کےنام سے شہرت کی بلندیوں کو چھوچکے ہیں۔
اداکارہ اور گلوکارہ ثریا سے دلچسپ فلمی گفتگو
نریمن پوائنٹ کے این سی پی اے ہال میں ایک کلچرل پروگرام میں ثریااور نوشادعلی کے علاوہ دیگر اہم فلمی شخصیات موجود تھیں۔ پروگرام کے بعد ثریا کوان کی رہائش گاہ، ’’کرشنا محل‘‘ پہنچانا تھا۔ جس کار سےانہیں گھر لے جانے کا انتظام کیاگیاتھا، وہ عثمان غنی کے شناسا کی تھی۔ کار والے سے بات چیت کرکے عثمان غنی بھی کار میں سوار ہوگئے۔ اس دوران ثریا سے ہونے والی دلچسپ گفتگو بھی عثمان غنی کیلئے یادگارہے۔