ملاڈمیں مقیم محمد علی روڈکے ۸۲؍سالہ ڈاکٹر محمدابراہیم گایا، اس عمرمیں بھی طبی پریکٹس کرتے ہیں ، اس کے ساتھ ہی متعدد سماجی اورملّی تنظیموں سے وابستہ ہیں، ایک مہم کے تحت انہوں نے کئی گھروں کو برباد ہونے سے بچایا تھا اور انہیں دوبارہ آباد کیا تھا۔
EPAPER
Updated: April 13, 2025, 1:25 PM IST | Saadat Khan | Mumbai
ملاڈمیں مقیم محمد علی روڈکے ۸۲؍سالہ ڈاکٹر محمدابراہیم گایا، اس عمرمیں بھی طبی پریکٹس کرتے ہیں ، اس کے ساتھ ہی متعدد سماجی اورملّی تنظیموں سے وابستہ ہیں، ایک مہم کے تحت انہوں نے کئی گھروں کو برباد ہونے سے بچایا تھا اور انہیں دوبارہ آباد کیا تھا۔
محمد علی روڈ، زکریامسجد اسٹریٹ کے ۸۲؍سالہ ڈاکٹر محمد ابراہیم گایا، حال ِمقیم میمن کالونی، ملاڈویسٹ کی پیدائش ۱۶؍ ستمبر ۱۹۴۲ءکو کرناٹک کے منگلور میں ہوئی تھی۔ ان کی والدہ کا تعلق کرناٹک کےمنگلور سے تھا۔ زکریامسجد اسٹریٹ پر واقع ہاشمیہ اُردوہائی اسکول سے میٹرک اور سینٹ زیوئرس کالج سے بی ایس سی کرکے بھوپال سے ڈپلومہ ان ہومیوپیتھک میڈیسین اینڈ سرجری کیا۔ ہومیوپیتھی کی پریکٹس کے بجائے گیلکسوفارمیسی ٹیکلز کمپنی ورلی میں ملازمت کی۔ ۱۹۷۰ءسے ۱۹۹۵ء تک اسی کمپنی کیلئےخدمات پیش کیں۔ رضاکارانہ طورپرسبکدوش ہونےکے بعدملاڈ میں اپنے گھر سےپریکٹس شروع کی، جو اَب بھی کامیابی سے جاری ہے۔ ہفتہ میں ۳؍دن مالونی بھی جاتےہیں۔ پیرانہ سالی میں طبی پریکٹس کے ساتھ متعدد سماجی اورملّی اداروں سےبھی وابستہ ہیں۔
ڈاکٹرمحمد ابراہیم گایا، اسکول کے دور سے سماجی، تعلیمی اور عوامی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہےہیں۔ اسی وجہ سے عملی زندگی میں بھی وہ ان سرگرمیوں سے مضبوطی کے ساتھ جڑے رہے۔ گیلکسوکمپنی کی ملازمت کے ساتھ، کچھی میمن جماعت کی ذمہ داریاں بھی نہایت خوبی سےنبھائیں۔ ۱۹۶۰ء کی دہائی کی بات ہے۔ ایک مہم کے تحت گھریلوتشدد کی شکار لڑکیوں کے گھروں کوبرباد ہونے سے بچانےکی ہرممکن کوشش کی۔ انہوں نے ۱۲؍ شادی شدہ لڑکیوں کے گھروں کو تباہ ہونے سے بچایا۔ ان کے طلاق کو منسوخ کروایا، جن میں ایک لڑکی کامعاملہ ان کیلئے خاص اہمیت کا حامل ہے۔ ا س کےخاوند نے ۲؍مرتبہ طلاق بول دیاتھا، ایک موقع باقی تھا۔ ڈاکٹر گایا، ڈیوٹی سے چھوٹنےکےبعد اس کی کائونسلنگ کیلئے اس کے گھر جاتے تھے۔ لڑکی اور اس کےوالدین کوسمجھاتے تھے۔ پہلے گھروالے ان کی خدمت میں چائے اور بسکٹ پیش کرتے تھے، کچھ دنوں بعد وہ پانی پر آگئےاور اس کےبعد انہیں پانی بھی پوچھنا بند کردیا۔ ان کے گھر پر متواتر آنے اور لڑکی کوسمجھانے کی کوشش سے نالاں ہوکر ایک دن لڑکی کے والد نے برہمی کے انداز میں ڈاکٹر گایاسے کہا کہ تم کیاکرتےہو؟ کیا میری بیٹی کو زبردستی اس کے سسرال بھیجناچاہتے ہو؟ اگر وہ سسرال جاتی بھی ہے تو ۱۵؍دنوں میں واپس آجائے گی۔ جس پر ڈاکٹر گایانے کہا کہ اگر ۱۵؍ دنوں میں آپ کی بیٹی واپس آجائے گی تو میں کھڑے ہوکر اپنی سرپرستی میں اس کادوسرا نکاح کرائوں گا، لیکن فی الحال اسے سسرال جانے دو، مسلسل کوششوں کےبعد وہ لڑکی کو سسرال روانہ کرنےمیں کامیاب ہوئے۔ آج وہ لڑکی اپنے بال بچوں کے ساتھ سسرال میں خوش حال زندگی بسر کررہی ہے۔ اس واقعہ کے ۳۔ ۴؍ سال بعد ایک تقریب میں لڑکی کے والدکی ڈاکٹر گایاسے ملاقات ہوئی۔ سلام دعا کےبعد لڑکی کےوالد نےکہا کہ میری بیٹی اپنے سسرال میں خوش حال ہے۔ اس کی زندگی کو دوبارہ آباد کرنےمیں آپ کا اہم کردار ہے لیکن میں نے آپ کے ساتھ جو رویہ اپنایاتھا، اس کا مجھےبے انتہا افسوس ہے۔ اس کارِ خیر کیلئے میں آپ کو کچھ دے نہیں سکتالیکن یقین جانئے ہر نماز میں، آپ کیلئے دعاضرورکرتاہوں ۔
اسکول کے دور میں ڈاکٹر گایا، غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیاکرتےتھے۔ ڈاکٹر گایاجب ۹؍ویں جماعت میں زیر تعلیم تھے، تقریری مقابلہ میں کامیابی حاصل کرنےپر انہیں معروف رائٹر ڈیل کارنیگی کی مقبول کتاب ’میٹھے بول کا جادو‘ بطور انعام دی گئی تھی۔ اس کتاب کا انہوں نے بڑی دلچسپی اور شوق سےمطالعہ کیاتھا۔ ۲۰؍سال قبل اس کتاب کے مطالعے کے اثرات آج بھی ان کی زندگی پر پائے جاتے ہیں۔ ایک واقعہ ہے۔ جمعہ کا دن تھا، نماز سے قبل ڈاکٹر گایا کو اپنی رہائش گاہ پہنچنا تھا۔ مالونی کے مڈچوکی سے ملاڈ اسٹیشن والی بس پکڑنی تھی۔ مڈچوکی سے بس پکڑکر جب وہ ماروے سگنل پر پہنچنے والے تھے عین اسی وقت یلوسگنل کی لائٹ جلنے پر انہوں نے سمجھاکہ اب ماروے سگنل پر یقینی طور پر ۵؍منٹ ضائع ہوں گے کیونکہ عموماً یہاں سگنل کے علاوہ ٹریفک ہوتی ہے۔ ایسے میں ۵؍منٹ کےخراب ہونے کاپوراامکان تھا لیکن ڈرائیور نے بڑی چابکدستی سے یلوسگنل کے دوران ہی ماروے سگنل پار کرکے اپنی ماہرنہ ڈرائیونگ کی مثال قائم کی تھی۔ چونکہ جمعہ کی نماز کاوقت قریب تھا، ایسےمیں ۵؍منٹ کابچ جانا، بہت اہم تھا۔ اسٹاپ قریب آنے پرڈاکٹر گایا نے بس سے اُترنے کیلئے ڈرائیور کے قریب آکر اس سے کہاکہ آپ نے جس مہارت سے ماروے جنکشن پر یلوسگنل کے دوران بس جنکشن سے پار کیا، وہ مثالی ہے، جس کی جتنی ستائش کی جائے کم ہے۔ یہ سن کر ڈرائیور نے کہا، ۲۳؍سال سے ڈرائیونگ کررہاہوں ، آپ پہلے مسافر ہیں جس نے میری ڈرائیونگ کی تعریف کی ہے۔ اسی دوران ڈاکٹر گایاکی باڈی لینگویج سے ڈرائیور کو احساس ہواکہ انہیں ان کے گھر کےقریب اُترنا ہے، اس نے ڈاکٹر گایا سے پوچھا کہ کیاآپ کو یہاں اُترنا ہے۔ ڈاکٹر گایاکی جانب سے اثبات میں جواب دینےپرڈرائیور نے اسی جگہ بس روک دیا اور جب تک ڈاکٹر گایا، بس کے آگے سے سڑک پار کرکے اپنی کالونی کی جانب نہیں گئے، بس روکے رکھا۔ اس وقت ڈاکٹر گایاکو ڈیل کارنیگی کی مذکورہ کتاب کے جادوکا شدت سے احساس ہواکہ ایک میٹھے بول سےکس طرح انسان کے دل میں جگہ بنائی جاسکتی ہے۔ اس کے بعد جب کبھی بھی اس ڈرائیور کی نگا ہ ڈاکٹرگایاپرپڑتی وہ ہارن بجاکر انہیں متوجہ کرتا، اشارہ سےپوچھتا کیاآپ کو بس سے سفرکرناہے؟
معروف کرکٹرمحمداظہرالدین کے نا نا، ڈاکٹر گایاکے استاد محترم تھے، جو آل انڈیا کارڈیولوجسٹ اسوسی ایشن کے صدربھی تھے۔ ایک مرتبہ کسی کام سے ڈاکٹر گایا، ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کیلئے گئے تھے۔ اسی دوران وہ بیرونِ ملک جانےکی تیاری کررہے تھے۔ گفتگو کے دوران علی سردار جعفری کا فون آگیا، انہوں نے انہیں خون کی جانچ کیلئے اپنی رہائش گاہ پر بلایاتھا۔ اظہرالدین کے نانا نے علی سردار جعفری سے بیرون ِ وطن جانےکی بات بتائی اور خون کی جانچ کیلئے ڈاکٹر گایاکو بھیجنے کی اجازت چاہی۔ استاد محترم کی ہدایت پر ڈاکٹر گایا، سردار جعفری کی رہائش گاہ پر گئے، خون کا نمونہ لیا۔ علی سردار جعفری نے بذریعہ پوسٹ رپورٹ بھیجنے کی درخواست کی لیکن خون جانچ کے پیسوں کے بارےمیں کچھ نہیں کہا، جس کی وجہ سے ڈاکٹر گایا کشمکش میں مبتلاہوگئے۔ علی سردار جعفری سے پیسوں کا تقاضہ کرنا، ان کیلئے ممکن نہیں تھا۔ وہ اسی کشمکش کے عالم میں گھر سے نکلنے کی تیاری کر ہی رہے تھے کہ علی سردار جعفری نے ڈاکٹرگایاسے کہاکہ اپنی فیس بھی لیتے جایئے۔ ۱۹۶۹ء میں انہوں نے خون کی جانچ کیلئے ایک ہزار ۳۰۰؍روپے دیئے تھے۔ علی سردار جعفری کےعلاوہ کیفی اعظمی کے خون وغیرہ کی جانچ بھی ڈاکٹر گایا نے کی تھی۔
جس روز مہاتماگاندھی کاقتل ہواتھا، اس دن اپنےوالد کے ہمراہ ڈاکٹر گایا، زکریامسجد اسٹریٹ سے گھوڑا گاڑی کے ذریعےگیٹ آف انڈیا تفریح کیلئے گئے تھے۔ اطلاع ملتے ہی وہ اپنے والد کے ساتھ اُلٹے پیر گھر لوٹ آئے تھے۔ گھر آنے کےبعد پتہ چلاکہ کسی نے مہاتماگاندھی کو گولی مار دی ہے۔ اس کےبعد پورے ملک میں فرقہ وارانہ فساد پھوٹ پڑا، ممبئی پر بھی اس واقعہ کا اثر دکھائی دیا تھا۔ دراصل پہلے تو یہ افواہ اُڑائی گئی تھی کہ کسی مسلمان نے گاندھی جی کا قتل کیاہے بعدازیں ناتھو رام گوڈسے کا نام سامنے آیا۔
۱۹۶۷ءمیں روس کے صدر اور وزیر اعظم ممبئی دورے پر آئے تھے۔ اس وقت ڈاکٹر گایا چھٹی جماعت میں زیر تعلیم تھے۔ ان عالمی لیڈران کے اعزاز میں چرچ گیٹ کے بریبورن اسٹیڈیم میں جلسہ کاانعقاد کیاگیاتھا، اسکول سے ڈاکٹر گایابھی دیگر طلبہ کےساتھ اسٹیڈیم گئے تھے۔ ان لیڈران کو قریب سے دیکھنےکیلئے ڈاکٹرگایااپنے ساتھیوں کے ساتھ اسٹیج سے کچھ دوری پر نصب جنگلے کی سلاخوں کو پکڑکرکھڑے تھے۔ دریں اثنا وہاں سے ایک سینئر پولیس آفیسر کا گزرہوا، پولیس آفیسر نے گایا سے پوچھا کہ کیا روسی لیڈران کو قریب سے دیکھنے کی خواہش ہے، اثبات میں جواب ملنے پر پولیس آفیسر انہیں اپنے ساتھ اسٹیج پر لے گیا اور روسی لیڈران کے بالکل قریب کھڑا کردیا۔ ڈاکٹر گایاکو وہ منظر آج بھی یاد ہے۔