گزشتہ روز اُناؤ کی ایک اور متاثرہ کو اُس وقت زندہ جلانے کی کوشش ہوئی جب وہ اپنے مقدمہ کی سماعت میں شرکت کیلئے اُناؤ ضلع میں واقع اپنے قصبہ سے رائے بریلی جارہی تھی
EPAPER
Updated: December 11, 2019, 9:50 PM IST
|
Editorial
گزشتہ روز اُناؤ کی ایک اور متاثرہ کو اُس وقت زندہ جلانے کی کوشش ہوئی جب وہ اپنے مقدمہ کی سماعت میں شرکت کیلئے اُناؤ ضلع میں واقع اپنے قصبہ سے رائے بریلی جارہی تھی کل جو سرخیاں منظر عام پر تھیں اُن میں سے ایک، اُناؤ کی عصمت دری کی متاثرہ سے متعلق تھی مگر یہ اُسی ضلع کے ایک، دوسرے گاؤں کی متاثرہ ہے جبکہ پہلی نظر میں ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے یہ وہی متاثرہ ہے جس کو جولائی میں سڑک حادثے میں مارنے کی کوشش کی گئی تھی۔
اُناؤ عصمت دری کا وہ واقعہ جو کافی دنوں تک زیر بحث رہا اور جس پر عوام میں بڑا غم و غصہ تھا، اُس میں جتنی اذیت ناک اجتماعی آبروریزی کی واردات تھی اُتنا ہی تکلیف دہ سڑک حادثہ تھا جس سے شبہ پیدا ہوا تھا کہ یہ اچانک نہیں بلکہ منصوبہ بند طریقے سے ہوا ہے۔ حادثہ عام حالات میں ہوتا تب بھی اس پر سوال اُٹھتے مگر جو ہوا وہ عام حالات میں نہیں ہوا تھا۔ متاثرہ کا سیکوریٹی گارڈ اُس کے ساتھ نہیں تھا اور جس ٹرک نے اُسے اور اُس کے قریبی رشتے داروں کی کار کو ٹکر ماری اُس کے نمبر پلیٹ کو سیاہی لگا کر چھپایا گیا تھا۔ پولیس اس کی دوسری وجہ بیان کررہی تھی جو قرض سے متعلق تھی اور قابل قبول نہیں تھی۔
گزشتہ روز اُناؤ کی ایک اور متاثرہ کو اُس وقت زندہ جلانے کی کوشش ہوئی جب وہ اپنے مقدمہ کی سماعت میں شرکت کیلئے اُناؤ ضلع میں واقع اپنے قصبہ سے رائے بریلی جارہی تھی۔ راستے میں پانچ افراد نے اُسے زندہ جلانے کی کوشش کی۔ ان پانچ میں مبینہ طور پر دو افراد وہ ہیں جو اجتماعی عصمت دری کے اصل ملزمین میں شامل ہیں اور ضمانت پر ہیں۔
متاثرہ کافی جل چکی ہے اور ڈاکٹروں نے بتایا ہے کہ اس کی حالت نازک ہے، مگر جس کو خدا رکھے اُسے کون چکھے کے مصداق اُمید کی جاسکتی ہے کہ وہ صحتیاب ہوکر گھر لوٹ آئے تاکہ مقدمہ میں جان باقی رہے ، مجرم چھوٹنے نہ پائیں اور اُسے وہ دن دیکھنا نصیب ہو جب قانون کے ہاتھ مجرموں کی گردن دبوچیں گے۔ مگر یہ اسی وقت ہوگا جب ریاستی حکومت لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال کو اس قابل رکھے گی کہ جس میں ظلم و جبر کا نشانہ بننے والوں کو حصول انصاف تک پہنچنے کا حوصلہ رہے اور اُن تمام لوگوں کے خلاف کڑی کارروائی ہو جو اُنہیں راستے سے ہٹا دینا چاہتے ہیں۔
ستم ظریفی دیکھئے کہ محولہ بالا دونوں واقعات کا تعلق اُناؤ ہی سے ہے جو گزشتہ کم و بیش دو سال سے خبروں میں ہے۔ دونوں ہی واقعات عصمت دری سے متعلق ہیں اور دونوں میں متاثرہ کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر دو واقعات کے ملزمین کسی بھی حد تک جانے کا ’’حوصلہ‘‘ رکھنے والے لوگ ہیں جو اپنے خلاف سنگین الزامات اور ان پر مبنی مقدمہ کو کمزور کرنے کے مقصد سے متاثرین کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔ یوپی کی یوگی سرکار ایسے کیسیز کی وجہ سے پہلے بھی کافی تنقیدوں کا نشانہ بنی اس کے باوجود نظم و نسق کے حالات ہیں کہ اس حکومت کے قابو سے باہر ہیں۔ یہ وہی حکومت ہے جس کی سرپرستی میں انکاؤنٹروں کا ایسا سلسلہ شروع ہوا تھا کہ جس کی نظیر نہیں ملتی۔ مقصد یہ بتایا گیا تھا کہ غنڈہ او رجرائم پیشہ عناصر کا قلع قمع کرنا ہے مگر سنگین سے سنگین تر جرائم جس تواتر کے ساتھ اس ریاست میں رونما ہورہے ہیں اُن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ حکومت نظم و نسق کی اپنی بنیادی ذمہ داری کی انجام دہی میں بُری طرح ناکام ہے اور اسے مستعفی ہوجانا چاہئے۔ کیونکہ یہ قبول نہیں کیا جاسکتا کہ خواتین کی عصمت دری ہو اور اُس کے ملزم پہلے تو پکڑے ہی نہ جائیں اور جب پکڑے جائیں تو شواہد مٹانے کے نام پر مظلوم خواتین ہی کو راستے سے ہٹانے کی کوشش ہو۔ یہ کوئی بہادری نہیں، انتہائی درجے کی بزدلی ہے۔ علاج معالجہ کی سہولت یا معاوضہ کا اعلان کوئی کارنامہ نہیں ہے۔ مجرم کیفر کردار تک پہنچیں اس کیلئے موافق ماحول پیدا کرنا کارنامہ ہوگا جو یوگی سرکار کے بس کا معلوم نہیں ہوتا۔