۲۱؍ ماہ سے جاری تشدد پر قابو پانے میں ناکام منی پور کے وزیر اعلیٰ بیرین سنگھ نے مجوزہ عدم اعتماد کی تحریک سے بچنے اور سپریم کورٹ کی مداخلت کے قوی امکان کو محسوس کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا۔
EPAPER
Updated: February 16, 2025, 1:55 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai
۲۱؍ ماہ سے جاری تشدد پر قابو پانے میں ناکام منی پور کے وزیر اعلیٰ بیرین سنگھ نے مجوزہ عدم اعتماد کی تحریک سے بچنے اور سپریم کورٹ کی مداخلت کے قوی امکان کو محسوس کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا۔
۲۱؍ ماہ سے جاری تشدد پر قابو پانے میں ناکام منی پور کے وزیر اعلیٰ بیرین سنگھ نے مجوزہ عدم اعتماد کی تحریک سے بچنے اور سپریم کورٹ کی مداخلت کے قوی امکان کو محسوس کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا۔ منی پور میں ہنگامہ شروع ہونے کے بعد امن وامان کی بحالی کی ذمہ داری پوری طرح بیرین سنگھ پر عائد تھی لیکن وہ ریاست میں امن قائم کرنے میں بری طرح ناکام رہے بلکہ ان کے جانبدار رویے نے صورتحال کو مزید ابترکردیا۔ مرکز نے بھی منی پور کے بحران کو انسانی المیہ کے بجائے سیاسی عینک سے دیکھا جس کے نتیجے میں پچھلے دو سال سے تشدد کا سلسلہ جاری ہے۔ آیئے دیکھتے ہیں بیرین سنگھ کے استعفیٰ پر غیر اردو اخبارات نے کیا کچھ لکھا ہے؟
شرمندگی سے بچنے کیلئے بیرین سنگھ نے استعفیٰ دیا
مراٹھی اخبار’ سکال‘نے اداریہ لکھا ہے کہ’’ اگر کوئی درد حد سے بڑھ جائے تو فوراً سرجری کرنا بہتر ہوتا ہے تاکہ مزید تکلیف سے بچا جائے۔ منی پور کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ صوبے کے وزیر اعلیٰ بیرین سنگھ نے اچانک اتوار کو اپنا استعفیٰ دے دیا لیکن یہ قدم پہلے ہی اُٹھ جانا چاہئے تھا۔ تشدد کی چنگاری پھیلتے ہی وزیر اعلیٰ سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا جارہا تھا لیکن وہ اقتدار سے چمٹے رہے۔ ان پر ایک مخصوص سماج کی طرفداری اور جانبداری کا الزام عائد ہوا، اس کے باوجود وہ ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ پچھلے ۶۴۸؍ دنوں سے، یعنی ۳ ؍مئی ۲۰۲۳ء سے منی پور میں میتئی اور کوکی برادریوں کے درمیان مذہبی اور نسلی تصادم شروع ہے۔ اس کے نتیجہ میں دونوں برادریوں کے درمیان عدم اعتماد بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ وزیر اعلیٰ بیرین سنگھ پر یہ بھی الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے تشدد کو روکنے کے بجائے انتشار کی آگ میں گھی ڈالا۔ ریاست کے بجٹ اجلاس سے قبل اپوزیشن تحریک عدم اعتماد پر کمر بستہ تھی۔ بیرین سنگھ کی حکومت کے کچھ وزیر اور اراکین اسمبلی ہاؤس میں اپوزیشن کا ساتھ دینے کی قیاس آرائیاں لگائی جارہی تھیں۔ اس شرمندگی سے بچنے کیلئے انہوں نے اپنا استعفیٰ دینا ہی بہتر سمجھا۔ دریں اثناسپریم کورٹ نے سینٹرل فارینسک لیباریٹری کی مہر بند وہ رپورٹ بھی طلب کرلی ہے جس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ بیرین سنگھ فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دے رہے ہیں۔ ان کی آواز کے کچھ نمونوں کی بھی جانچ کی جارہی ہے۔ ایک لحاظ سے وہ ملزمین کی فہرست میں شامل ہیں۔ ‘‘
فوری طور پر مفاہمت کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا
ہندی اخبار ’نوبھارت ٹائمز‘ ۱۱؍ فروری کے اداریہ میں لکھتا ہے کہ ’’بالآخر منی پور کے وزیر اعلیٰ بیرن سنگھ نے استعفیٰ دے دیا۔ یہی کام اگر وہ پہلے کرتے تو انہیں ذمہ داری سمجھنے اور قبول کرنے کا کچھ کریڈٹ مل سکتا تھالیکن اب ایسی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔ بہرحال سوال یہ ہے کہ کیا ریاست میں امن قائم ہوگا؟یہ استعفیٰ مستقبل کیلئے امید پیدا کرتا ہےلیکن ریاست کی میتئی اور کوکی آبادی کے درمیان شکوک و شبہات اور بد اعتمادی کی خلیج جتنی وسیع ہوچکی ہے اس پر غور کرتے ہوئے فوری طور پر مفاہمت کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا ہے۔ جہاں کوکی برداری اپنے لئے الگ ریاست کا مطالبہ کررہی ہے وہیں میتئی برادری ریاست کی کسی بھی تقسیم کے سخت خلاف ہے۔ درمیانی کب اور کیسے نکلے گا، یہ الگ بات ہے لیکن اس وقت تک امن وامان برقرار رکھنا چیلنج ہے۔ کوکی اور میتئی دونوں برادریوں نے سیکوریٹی فورسیز کا اسلحہ لوٹا ہے۔ جب تک یہ ہتھیار واپس نہیں لئے جاتے، تب تک امن وامان کا امکان دور ہی ہے۔ دونوں ہی پولیس اور سیکوریٹی فورسیز پر جانبداری کا الزام عائد کررہی ہیں۔ ‘‘
عدم اعتماد کی تحریک نے استعفیٰ پر مجبور کیا
مراٹھی اخبار’لوک ستہ‘ نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ’’ٹھنڈا کر کے کھاؤ، یہ کانگریس کے کام کرنے کا انداز ہے۔ بی جے پی اسے اپنانے میں کتنی کامیاب رہی۔ اس کی ایک عمدہ مثال منی پور کے واقعات ہیں۔ یہ ریاست دور اندیش وزیر اعلیٰ بیرین سنگھ کی وجہ سے پچھلے دو سال سے جل رہی ہے، اسلئے نہ صرف اپوزیشن بلکہ بی جے پی کی حلیف جماعتیں اور بذات خود بی جے پی کے اراکین اسمبلی بھی بیرین سنگھ کو ہٹانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود بی جے پی اعلیٰ کمان نے بیرین سنگھ کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا۔ اس سے ریاست میں حالات اس قدر نازک ہوگئے کہ ہجوم نے وزیر اعلیٰ سمیت دیگر وزراء کی سرکاری رہائش گاہوں پر حملہ کردیا۔ فوج پر حملہ اور اسلحہ تک لوٹا گیا۔ اب تک پرتشدد وارداتوں میں تقریباً ۲۰۰؍ افراد اپنی جان گنوا چکے ہیں۔ ان سب کے باوجودبی جے پی کی مرکزی قیادت نے بیرین سنگھ کی معمولی سرزنش بھی نہیں کی، لیکن جب حالات بے قابو ہوگئے تو بی جے پی کو مجبوراً اپنے وزیر اعلیٰ سے استعفیٰ لینا پڑا۔ اس کے پیچھے سب سے اہم وجہ ہے کہ منی پور ودھان سبھا میں پیش کی جانے والی عدم اعتماد کی تحریک ہے۔ بی جے پی اعلیٰ قیادت نے اس بارے میں اسپیکر سے سوال کیا تو انہوں نے واضح کردیا کہ اس قرار داد کو روکا نہیں جاسکتا۔ یاد رہے کہ بی جے پی کے اسپیکر بھی بیرین سنگھ کی مخالفت کررہے تھے۔ یعنی اگر عدم اعتماد کی تحریک ہاؤس میں پیش کی جاتی تو اسپیکر بھی اسے نہیں روکتے اور بی جے پی کے چند اراکین اسمبلی بھی تحریک کی حمایت میں اپنا ووٹ دیتے۔ ایسی صورت میں پارٹی کی کافی فضیحت ہوجاتی۔ اس سے بچنے کیلئے اعلیٰ کمان نے بیرین کے ہاتھ میں ناریل دے کر رخصت کردیا، لیکن یہ کام۲۲؍ مہینے قبل ہی ہوجانا چاہئے تھا۔ ‘‘
کیا اب منی پور میں امن قائم ہوسکے گا؟
انگریزی اخبار’دی فری پریس جنرل‘ نے لکھا ہے کہ’’ ۲۱؍ مہینوں کی ہنگامی آرائی اور بدامنی کے بعد اور بار بار استعفیٰ کے مطالبہ کے درمیان منی پور کےوزیر اعلیٰ بیرین سنگھ نے بالآخر اپنا استعفیٰ دے دیا۔ تاہم بڑا سوال یہ ہے کہ کیا اب تشدد زدہ ریاست میں امن وامان قائم ہوسکے گا؟
کانگریس نے اسمبلی میں وزیر اعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کی دھمکی دی تھی۔ بی جے پی کو خدشہ تھا کہ اس کی پارٹی کے کچھ ایم ایل ایز بھی وہپ کی خلاف ورزی کریں گے۔ منی پور میں بی جے پی کے اندرونی اختلافات بہت دنوں سے جاری ہیں۔ کوکی اور میتی قبیلے کے اراکین اسمبلی اس کیلئے بیرین سنگھ کو ذمہ دارٹھہرا رہے تھے۔ اسپیکر بھی وزیر اعلیٰ کی مخالفت کررہے تھے۔ ایسے میں بیرین سنگھ کے سامنے استعفیٰ دینےکے سوا کوئی دوسرا چارہ نہیں بچا تھا۔ میتی برادری ریاست کی تقسیم نہیں چاہتی جبکہ کوکی برادری خود مختاری کا مطالبہ کررہی ہے۔ مرکز اور ریاست نے منی پور کے واقعات کو قابو پانے کیلئے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی بلکہ وزیر اعلیٰ بیرین سنگھ نے علی اعلان میتی برادری کا ساتھ دیا جس کا خمیازہ پوری ریاست کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ‘‘