اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ ملک بھر میں ہونے والے جرائم کے ریکارڈز ہر سال شائع کرنے چاہئیں، جس کیلئے ایک محکمہ ’نیشنل کرائم ریکارڈ بیوریو‘ بھی قائم کیا گیا ہے لیکن گزشتہ دوبرسوں سے ہمارے ہاں بیوریو کی کوئی رپورٹ شائع نہیں ہوئی۔ ہفتہ بھر پہلے اخبارات میں جو رپورٹ شائع ہوئی ہے، وہ ۲۰۱۶ء کی ہے۔ آج کل ملک کا جو حال ہے اورجس تیزی سے ہمارے معاشرے میں جرائم کی شرح میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ، اس کی رپورٹ کب شائع ہوگی، اس تعلق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا؟
ہمارے یہاں خواتین کے خلاف جرائم کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ تصویر: پی ٹی آئی
کوئیشخص نہیں چاہتا کہ کسی اورکواس کے عیوب کا پتہ چلے مگر دیر سویر سبھی کو اس کا علم ہوجاتا ہے۔ کچھ یہی حال حکومتوں کا بھی ہے۔ کوئی حکومت نہیں چاہتی کہ اس کے دور اقتدار میں کسی بدعنوانی کی بھنک باہر جائے مگر یہاں بھی قدرت اپنا کام کرجاتی ہے اور عوام کو ہر خرابی کا علم ہوہی جاتا ہے ۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ سارے ریکارڈ عوام کے سامنے رکھے جائیں تاکہ ان پر بحث ہو، اس مسئلے پر سیرحاصل گفتگو ہو اور عوام کی تجاویز پر عمل کیاجائے لیکن عموماً اس روایت کی پاسداری ہمارے ہاں نہیں ہوتی۔ مثال کے طورپر ملک بھر میں ہونے والے جرائم کے ریکارڈز ہر سال شائع کرنے چاہئیں۔ اس کام کیلئے ایک محکمہ ’نیشنل کرائم ریکارڈ بیوریو‘ قائم کیا گیا ہے جو ہر ریاست سے رپورٹیں طلب کرکے وزارت داخلہ کے حوالے کرتا ہے لیکن گزشتہ دوبرسوں سے ہمارے ہاں بیوریو کی کوئی رپورٹ شائع نہیں ہوئی۔ ہفتہ بھر پہلے اخبارات میں جو رپورٹ شائع ہوئی ہے، وہ ۲۰۱۶ء کی ہے۔ آج کل ملک کا جو حال ہے اورجس تیزی سے ہمارے سماج میں جرائم میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ، اس کی رپورٹ کب شائع ہوگی، کوئی نہیں کہہ سکتا۔ عام مشاہدہ تویہی ہے کہ حکومتیں اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے میں بڑی طاق ہوتی ہیں۔ وہ نہیں چاہتیں کہ عوام کو اس کی کمزوریوں کا احساس ہواور وہ حکومت کو نااہل سمجھنے لگیں۔ یہ ڈراما بھی کب تک چلے گا، اس کے متعلق بھی کچھ کہا نہیں جاسکتا، لیکن ایک نہ ایک دن یہ ہنڈیا بھی ضرور پھوٹے گی۔
۲۰۱۶ء کی رپورٹ کے مطابق ملک میں خودکشی کی شرح کم ہوئی ہے ۔ ۱۹۶۴ء اور ۱۹۸۷ء کے درمیان ایک لاکھ کی آبادی میں کم وبیش ۸؍ افراد خودکشی کرتے تھے مگر اس کے بعد کے ۱۰؍ برسوں میں یہ تعداد بڑھ کر ۱۱؍ تک پہنچ گئی۔عالمی تنظیم صحت کے مطابق دنیاکی مجموعی آبادی کے تناظر میں دیکھاجائے تو دنیا بھر میں ایک لاکھ کی آبادی میں عموماً ۱۶؍ افراد خودکشی کرتے ہیں۔(اسے پڑھ کر خوش نہ ہویئے) ہوسکتا ہے اس باب میں ہم روس ، جاپان، فرانس، امریکہ اور جرمنی وغیرہ سے بہتر ہوں مگر چین ، برطانیہ ، اسپین، اٹلی اور برازیل سے بہت اوپر ہیں۔ حد تویہ ہے کہ ہم اس حقیقت کا اعتراف بھی نہیں کرتے بلکہ سینہ ٹھونک کر اعلان کرتے ہیں کہ ہمارے ہاں خودکشی کی شرح کم ہوئی ہے۔ یہ بات تو بیوریو بھی جانتا ہے اور ہر ہندوستانی بھی کہ ہم بدنامی کے خوف سے خودکشی کا اعلان ہی نہیں کرتے۔ اگر ہمارے آس پاس کوئی خودکشی کرلے تو ہم پولیس والوں کو رشوت دے کر اسے ایک عام سی موت ثابت کردیتے ہیں۔ ویسے بھی ہم اپنی زندگی میں چاہے کتنے بڑے بدمعاش ہوں لیکن جب جرائم رپورٹ کرنے کی بات آتی ہے تو ہمیں اچانک خاندان کی عزت اور نیک نامی کا خیال ستانے لگتا ہے۔ نتیجتاً پولیس اسٹیشن جانے سے حتی الامکان گریز کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں جتنے جرائم ہوتے ہیں، اس سے کہیں زیادہ جرائم ریکارڈ نہیں کئے جاتے۔ یہ بات وزارت داخلہ کو بھی معلوم ہے اور پولیس والے بھی جانتے ہیں۔
مذکورہ رپورٹ میں عورتوں کی خودکشی کی تین وجوہات بتائی گئی ہیں۔ اولاً ’محبت میں ناکامی‘ ثانیاً ’ ازدواجی زندگی کی بے سکونی‘اور ثا لثاً ’امتحان میں ناکامیابی‘۔ مردوں میں منشیات اور شراب نوشی کی کثرت، مالی معاملات کی پریشانیاں اور گھریلو زندگی کا انتشار انہیں خودکشی پر مائل کرتا ہے۔ کبھی کبھار لاعلاج امراض بھی خودکشی کے ذمہ دار ہوتے ہیں.... لیکن یہ سوال ہنوز برقرار ہے کہ یہ افراد حالات سے نبردآزما ہونے کے بجائے اپنی شکست اتنی آسانی سے کیوں تسلیم کرلیتے ہیں؟ کیا گلے میں پھندہ لگانے یا زہر کھانے سے حالات درست ہوجاتے ہیں؟ کیا ایک باعزت اور پرسکون زندگی گزارنے کی ان کی ساری کوششیں ناکام ہوچکی تھیں جو انہوںنے اپنی زندگی کا ساتھ چھوڑدیا؟ ذرا تصور کیجئے، اس ’کیفے کافی ڈے‘ کے ارب پتی مالک کی ذہنی کیفیت کیا ہوگی جب ا س نے رات کے اندھیرے میں دریا میں چھلانگ لگائی ہوگی؟ اس کا روبار ی کا سوچئے جو باندرہ سی لنک پر اپنی گاڑی روک کر سمندر کی لہروں کو دیکھ رہا ہوگا۔ اس ڈاکٹر تڑوی کا خیال کیجئے جو بند کمرے میں اپنی ذلت ورسوائی کا درد اٹھائے پوری طرح ناپیدہوچکی ہوگی۔ کیا خودکشی کے ان معاملات کیلئے حکومتیں ذمہ دار نہیں ہیں جس کے افسران ایک شریف اور ذمہ دار کاروباری کو اتنا تنگ کرتے ہیں کہ وہ خودکشی کا فیصلہ کرلیتا ہے؟ کیا یہ حکومت اس ذہنیت کی ذمہ دار نہیں ہے جو اس کی پیدا کردہ ہے اورجسے اپنا کر اونچی ذات کے افراد اپنے سے کمتر لوگوں کو ذلیل کرکے خوش ہوتے ہیں؟ کیا یہ حکومت ان غریبوں کی گنہگار نہیں ہے جو حکومت کی عطاکردہ غربت سے ہار کر موت کو گلے لگالیتے ہیں؟ لہٰذا ہرذی ہوش کو اس تلخ حقیقت کو ماننا ہوگا کہ جب تک معاشرے سے ناانصافیاں ختم نہیں ہوتیں، لوگوں کو جینے کی سہولتیں میسر نہیں آتیں اور ان کی خبر گیری اور خیرخواہی کیلئے ایک مضبوط سپورٹ سسٹم تیار نہیں ہوتا، یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہے گا۔
اس رپورٹ میں محبت کا بھی ذکر ہے ۔ وہی محبت ، جو لوک کتھاؤں اور افسانوں اور ناولوں میں نظر آتا ہے اور ٹیلی ویژن کے ڈراموں اور فلم کے پردے سے جھانک کر ہمیں مسحور کرتی ہے۔ یہی محبت حقیقی زندگی میں اکثر موت کا سبب بن جاتی ہے۔ مذکورہ رپورٹ کے مطابق ملک کی ۴؍ ریاستوں میں اسے قتل کی سب سے اہم وجہ بتایا گیاہے۔ آندھراپردیش میں ۳۸۴؍ اموات محبت کے سبب ہوئی ہیں۔ مہاراشٹر میں اس نے ۲۷۷؍ افراد کی جان لی ہے۔ گجرات میں ۱۵۶؍ افراد اس کے سبب ہلاک ہوئے ہیں اور پنجاب میں ۹۸؍ افراد اس کا شکار ہوئے ہیں۔ اترپردیش میں ۲۹۵؍، تامل ناڈو میں ۲۴۰؍، کرناٹک میں ۱۱۳؍ اور دہلی میں ۵۱؍ افراد کا قتل بھی اسی محبت نے کیا ہے۔ اکثر قتل کی وارداتیں زمین جائیداد کے جھگڑوں ، جہیز کے مسئلوں اور ذاتی مخاصمت کے سبب ہوا کرتی ہیں مگر آج کل عام ہندوستانی پیارمحبت کو اتنی اہمیت دینے لگا ہے کہ وہ اسے بنیاد بناکر کسی کی جان لینے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ ذات پات کا نظام بھی اکثر محبت کرنے والوں کے آڑے آتا ہے۔ کبھی اعلیٰ ذات کی لڑکی کسی چھوٹی ذات کے لڑکے کے عشق میں مبتلا ہوجائے تو لڑکی والے اس غریب لڑکے کا قتل کرکے دم لیتے ہیں۔ علاوہ ازیں ابھی تک ہمارے ہاں نوجوانوں کے آزادانہ فیصلوں کو اہمیت دینے کا تصور ہی نہیں پایاجاتا، اسلئے سارا گھرانہ ان فیصلوں کے خلاف متحد ہوجاتا ہے اور پھر ان کا مقاطعہ یاکسی ایک یا دونوں کا قتل کرکے خاندانوں کے ناموس کی حفاظت کی جاتی ہے۔ یعنی روایت پرستی اور جہالت اس قدر عام ہے کہ نوجوان گھر سے فرار ہونے ہی میں عافیت سمجھتے ہیں۔چونکہ معاشرے میں لڑکے اور لڑکیوں کا اختلاط کوئی نئی بات نہیں رہی اور فلم ٹیلی ویژن نے ہمارے شعور سے ساری پابندیاں ہٹا دی ہیں، اسلئے محبت کا موضوع مستقبل میں بھی قتل کی اہم وجہ بنارہے تو ہمیں تعجب نہیں کرنا چاہئے۔
لیکن اس رپورٹ کا سب سے الم ناک ان معصوموں سے متعلق ہے جنہیں ان کے والدین سڑک پر تنہا چھوڑ جاتے ہیں ۔ ان بے سہارا اور بے بس بچوں کو پولیس والے ایسے یتیم خانوں اور فلاحی ٹرسٹوں کے حوالے کردیتے ہیں جو ان کی دیکھ بھال اور پرورش کی ذمہ داری لینے پر راضی ہوں۔ اکثریت ان نوزائیدہ بچوں کی ہوتی ہے جن کی مائیں ٹرسٹ کے باہر رکھے نیگوڑے میں انہیں ڈال کر چل دیتی ہیں۔ ان بچوں میں بھی اکثریت لڑکیوں کی ہوتی ہے، چونکہ لڑکی کی پیدائش کو ہمارے ہاں آج بھی عذاب سمجھا جاتا ہے اسلئے اس کے پیدا ہوتے ہی والدین اسے اپنے سے دور کرکے اس عذاب کا آسان ترین حل نکال لیتے ہیں۔ یہی والدین اس جرم کا ارتکاب کرتے ہوئے اگر پولیس کے ہتھے چڑھ جائیں تو انہیں ایک سال کی قید اور بطور جرمانہ پچیس ہزار روپے ادا کرنا پڑتا ہے، لیکن پولیس شاذ ہی ان مجرموں کو پکڑ پاتی ہے۔ گاؤں اور قصبوں میں اس جرم کی ایک وجہ غربت اور لڑکیوں سے عدم توجہی ہوسکتی ہے تو بڑے شہروں میں یہ معصوم بچے مردوزن کے ناجائز تعلقات کا نتیجہ ہوتے ہیں اسلئے عیش پسند افراد اپنی ناجائز اولاد سے پیچھا چھڑانے ہی میں اپنی نجات سمجھتے ہیں۔
کچھ ریاستی حکومتوں نے ان ناجائز اولادوں پر روک لگانے کیلئے ’اسقاط حمل‘ کے قانون بنائےہیں اور سر کاری اسپتالوں میں اس کا انتظام بھی کیا ہے جہاں خاتون سے نہ ان کا نام پوچھا جاتا ہے نہ گھر کا پتہ دریافت کیاجاتا ہے اور آپریشن کے چندہی گھنٹوں بعد گھرجانے کی اجازت بھی دے دی جاتی ہے مگر جب یہ اولادیں دنیا میں وارد ہوہی جائیں تو اب سوائے اس کے اور کوئی راستہ نہیں رہتا کہ ان بچوں کو کسی پالنے میں رکھ کر یا ویرانے میں پھینک کر فرار ہوجائیں۔ مہاراشٹر میں ۲۰۱۱ء ا ور ۲۰۱۷ء کے درمیان ایسے ۱۴۵۱؍ بچے ملے تھے جن کے والدین کے متعلق پولیس کو کوئی اطلاع نہیں تھی۔ اس معاملے میں راجستھان (۱۰۷۲)) ، گجرات (۶۸۶؍) اور کرناٹک (۵۹۸؍) بھی کچھ کم بدنام نہیں۔ ہمارے ہاں عبادت گاہیں صرف عبادتوں کیلئے مخصوص ہیں۔ مساجد میں بھی ہر نماز کے بعد خادمین دروازے بند کردیتے ہیں۔ منادر اور گردواروں میں بھی ایسے بچوں کیلئے کوئی گنجائش نہیں ہے البتہ مغربی ممالک میں چرچ ایسے یتیم بچوں کی کفالت کرنے پر ہمیشہ راضی رہتے ہیں۔ کہیں کہیں حکومت ایسے بچوں کو ’گود‘ لے کر فوجی تربیت دیتی ہے اور کہیں غیرسرکاری تنظیمیں ان بچوں کی پرورش کا بوجھ اٹھاتی ہیں۔ عالمی جنگوں کے اختتام کے بعد ایسے بچوں کی تعداد میں ہوش ربا اضافہ ہوا تھا اور مغرب کی آزاد روی نے بھی ایسے لاکھوں بچے جنم دیئے تھے جنہیں اپنے ماں باپ کے نام تک کا پتہ نہیں تھا۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ آج وہاں کی حکومتیں ان بے گھروں کوچھت فراہم کرتی ہیں، ان کے کھانے پینے کا بندوبست کرتی ہیں اور ان کیلئے ایسی اسکیمیں واضح کرتی ہیں کہ یہ بے سہارا نہ رہ جائیں۔ وہاں ایسے شریف لوگ بھی مل جاتے ہیں جو ان بچوں کو سایہ ٔ عاطفت میں پناہ دے کر انہیں ایک باعزت زندگی فراہم کرتے ہیں۔
ہمارے ہاں بھی حکومت نے ان یتیم ویسیر بچوں کیلئے ایسے ’گھروں ‘کا نظم کیا ہے جنہیں غیر سرکاری تنظیمیں چلاتی ہیں اور ان کے اخراجات حکومت برداشت کرتی ہے۔ بدقسمتی سے یہاں کی بے سہارا بچیوں کے استحصال کی کئی کہانیاں منظر عام پر آچکی ہیں اوران اداروں کا کرپشن بھی اکثر سنائی دیتا ہے۔ حکومت نے اس باب میں صرف ایک وزارت بنانے کے بجائے اس مسئلہ پر سنجیدگی سے غور کیا ہوتا اورایسے مزید ادارے قائم کئے ہوتے (پورے ملک میں صرف ۲۲؍ ا دارے ہیں) تو شاید انسانیت ویران راستوں پر یوں نہ سسکتی ہوتی۔ یہ امرغور طلب ہے کہ ممبئی ایسے بڑے شہر کے ایک ادارے ’ واتسالیہ ٹرسٹ‘ اوراس کی تین شاخوں نے اب تک بارہ سو بچوںکو پناہ دی ہے جہاں بچوں کو صرف کھانا کپڑا ہی نہیں دیاجاتا بلکہ ان کی تعلیم کا نظم بھی کیاجاتا ہے۔
ہم جو ’ دریتیم ‘ کے اُمتی ہونے کا شرف رکھتے ہیں، ہم نے بھی اس مسئلے پر آج تک کوئی سنجیدہ پیش ر فت نہیں کی۔ شاید ہماری قوم کیلئے یہ کوئی اہم مسئلہ نہیں ہے۔ یا ہمیں اس بات کا یقین ہے کہ ہمارے ہاں ناجائز اولادیں ہوہی نہیں سکتیں۔ ہمارے ہاں برسوں سے قائم شدہ جو چند ایک یتیم خانے ہیں، ان کا حال بھی کسی کو نہیں معلوم۔ کچھ مخیر حضرات خاموشی سے ان کے اخراجات عطا کردیتے ہیں اور بس ۔ کیا ابھی بھی وقت نہیں آیا کہ ہم ان اداروں کی باقاعدہ تحقیق کریں اور ان کے تعاون کیلئے آگے آئیں؟