Inquilab Logo

حیدر بیابانی: بحیثیت طنز و مزاح نگار

Updated: April 04, 2022, 12:42 PM IST | Mohammad Asad Ullah | Nagpur

حیدر بیابانی جو اَب ہمارے درمیان نہیں رہے، بچوں کے ادیب کی حیثیت سے انہوں نے اپنی شناخت بنائی تھی۔  ادبِ اطفال میں ان کی نظموںکو  قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ۔ ان کے متنوع موضوعات، شگفتگی ، مزاج کا بانکپن اور زندہ دلی نے ان کی تخلیقات کو قبول ِ عام عطا کیا ۔

BO.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

حیدر بیابانی جو اَب ہمارے درمیان نہیں رہے، بچوں کے ادیب کی حیثیت سے انہوں نے اپنی شناخت بنائی تھی۔  ادبِ اطفال میں ان کی نظموںکو  قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ۔ ان کے متنوع موضوعات، شگفتگی ، مزاج کا بانکپن اور زندہ دلی نے ان کی تخلیقات کو قبول ِ عام عطا کیا ۔ حیدر بیابانی کا تعلق خطہ ودربھ کے تاریخی شہر اچل پور سے تھا جہاں کی مٹی میں تہذیب و ثقافت کی مہک آ ج بھی ہے ۔انسانی ارتقاء کی یہی وہ شاہراہ ہے جس پر علم و دانش اور حکمت و ظرافت کی درمیانی منزلیں پائی جاتی ہیں ۔ اس دیار کے باشندوں میں عموماً فطری طور پر حسِ مزاح موجود ہے ۔ اسی زمین سے ابھرے معروف ادیب و شاعرڈاکٹر صفدر (مرحوم)   اور بابو آ رکے نے بھی مزاح نگاری میں اپنی شناخت قائم کی ۔ حیدر بیابانی کے قلم میں پنہاں یہی شوخیاں تھیں جو وہ نثر میں شگوفے کھلانے پر آ مادہ ہوئے چنانچہ انھوں نے طنزیہ مزاحیہ مضامین بھی سپردِ قلم کئے ۔ ان کے مزاحیہ مضامین کا مجموعہ ’چشم دید ‘ ۱۹۹۰ ءمیں اچل پور سے شائع ہوا ۔    ہر وہ فنکار جو ادب کے کسی شعبے میں اپنی شناخت مستحکم کروانے میں کامیاب ہو جائے اور اس کی طبع رواں اسے کسی دوسری صنف میں بھی اظہار خیال پر آ مادہ کرے ؛ پھر وہ کوئی قابلِ ذکر کارنامہ انجام دے دے تب بھی اس کی پہچان کا اولین نقش پھر نقشِ ثانی کے قدم جمنے نہیں دیتا۔  یہی حیدر بیابانی کے ساتھ ہوا۔  ان کی  طنزیہ و مزاحیہ نگارشات ادب ِ اطفال کے پہاڑ کی اوٹ میں چھپ کر رہ گئیں ۔ان کی کتاب چشم دید کے مضامین کے عنوانات درج ذیل ہیں۔ ہم صاحبِ کتاب ہوئے ،اوہام پرستی ،فرصت کے رات دن ،ٹر کی اہمیت ،آ ہ چائے واہ چائے ،داستانِ بیوی ،چند حسینوں کے خطوط ،ایک خط ،فنِ دروغ گوئی ، مسائل ِ آ مد و رفت ،تیل کے کھیل ،بجلی کا آ نا بجلی کا جانا ،پانی پانی ،نمک کی چمک، رونا دھونا ، اوضائے جسمانی ،غلبہ ،قصہ ہندسوں کا، مثالی شوہر اور دیگر۔آ ئیے ان کے مندرجات پر نظر ڈالتے چلیں۔کتاب کی ابتد ا ہی میں ’دوستوں کے نام ‘کے تحت حیدر بیابانی نے شکریہ اداکر نے کا مختلف انداز اختیار کیا اور یہ بتا دیا کہ وہ مزاح نگار بھی ہیں اور لکیر پیٹنے کی روایت سے متنفر بھی ۔ اسی میں وہ اپنے ہی شہر کے معروف مزاح نگار بابو آ ر کے کے بارے میں لکھتے ہیں :  ہم ممنونِ کرم ہیں برادرم بابو آ رکے کے جنہوں نے ہمیں گھر کی مرغی نہ گر دان کر اپنے مضامین کے ذریعے آ سمان پر بٹھا دیااور اب کھجور میں اٹک جانے کا ڈر لاحق کر دیا۔  حیدر بیابانی کے نزدیک ،صاحب ِ اولاد ہونا اور صاحبِ کتاب ہونا ایک ہی افتاد کے دو نام ہیں۔جب کتابوں کی اشاعت کی سہولتیں اس علاقے میں موجود نہیں تھیں وہ ناگپور میں اس سلسلے میں جن دقتوں سے دوچار ہوئے ان کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :  سارادن ناگپور شہر کی گلی اور پیر کی نلی ایک کرتے رہے لیکن منزلِ مقصود نہیں ملی ۔سنتروں کے علاوہ ناگپور اوردو چیزوں کے لیے مشہور ہے اردو طباعت و کتابت اور پاگل خانہ ۔  ہم صاحبِ کتاب ہوئے   
 ’فرصت کے رات دن ‘میں وہ اپنی مصروفیات کے ساتھ ساتھ ا س حالت میں دیگر لوگوں کے کاموں کو بھی بیان کرتے ہیں۔ عاشق و معشوق کے علاوہ ہوٹلوں اور دفتروں میں بیٹھنے والوں کی مصروفیات کا گہرا مشاہدہ ان کے بیان کی بنیاد ہے اور وہ وقت کاٹنے کے لئے چند مشورے بھی دیتے ہیں :  فرصت میں کئی کام کئے جا سکتے ہیں ۔اپنے چہیتے کتے کی دم سیدھی کی جا سکتی ہے، فراقِ یار میں تارے گنے جا سکتے ہیں ۔ اس کوٹھی کا مال اس کوٹھی میں اور اس کوٹھی کا مال اس کوٹھی میں بھرا جا سکتا ہے ۔ شعر کہے جا سکتے ہیں اور عرض کئے جا سکتے ہیں...دنیا کا سب سے فرصتی کام مچھلیوںکا شکار ہے جسے عرف عام میں جھک مارنا بھی کہتے ہیں  ۔
 ’ٹر کی اہمیت ‘اس عجیب و غریب عنوان کے تحت  انہوں  نے ان تمام چیزوں اور عہدوں کو سمیٹ لیا ہے جن میں لفظ ’ٹر ‘ موجودہے ۔’’اسکولی زمانے میں ہمیں ماسٹر صاحب والا ٹر بہت پسند تھا۔ ماسٹر کا ڈکٹیٹرپن دیکھ کر ہم سوچتے کاش ہم ابھی اسی وقت ڈکٹیٹر بن جائیں ۔ ماسٹر صاحب نے ہمیں کلاس مانیٹر بنا دیا یعنی ایک ٹر جسے پانے کی تمنا تھی وہ تو نہ ملا اور ان چاہے’ ٹر‘ نتھی کر دئے گئے ... کر کٹ اور کرکٹر ہمیں پسند ہیں لیکن دوران ِ کامنٹری کھر کھر کر تا ترانسسٹر اور رُکتا اٹکتا کامنٹیٹر ایک آ نکھ نہیں بھاتا۔ ( ٹر کی اہمیت )  ’ آ ہ چائے واہ چائے ‘میں ان لوگوں کا تذکرہ ہے جو چائے کے شوقین ہیں مگر ان کے نخرے بھی بہت ہیں ۔ان میں سے ایک کے متعلق لکھتے ہیں :  شاید بڑے میاں کی جان سید صاحب کی ہوٹل میں اٹکی ہوئی ہے ۔اس لئے فوراً اس ہوٹل کی ایک کپ چائے چائے بلواکر بذریعہ چمچ بوند بوند حلق میں اتاری گئی اور واقعی معجزہ ہوگیا ۔ادھر چائے حلق سے اتری اور ادھر قزاق ِ اجل نے نقارہ بجا دیا ۔ بعد میں یہ بھی سنا کہ مرحوم کے چہلم پر بھی اسی ہوٹل کی چائے بلوا کر رکھی گئی تھی ۔ 
 ’ داستان ِ بیوی ‘ واقعی عجیب و غریب بیویوں کی حیرت انگیز مگر مزیدار د استان ہے جسے سن کر رونگٹے کھڑے ہوجائیں : بہت سی بیویاں ایسی ہوتی ہیں جن سے شیطان نما شوہر بھی پناہ مانگتے ہیں۔ خدا اس کام کاجی بیوی سے بچائے جو سوئے ہوئے شوہر کو نیند کی گولی کھلانے کے لیے گہری نیند سے جگاتی ہے یا پھر اس جاہل بیوی سے ہر خاص و عام کو محفوظ رکھے جس نے اپنے لیڈر شوہر کی زبانی کسی بھاشن میں یہ سن لیاتھاکہ ’ ہمیں امیر اور غریب کے بیچ کھائی کو بھرنا ہے اور وہ میکہ نواز بضد ہوگئی کہ کھائی بھرنے کا ٹھیکہ اس کے بھائی کو ہی ملنا چاہئے ۔ ’ چند حسینوں کے خطوط ‘  کو اگر کوئی حسینوں کے بارے میں کچھ جاننے کی غرض سے پڑھے تو اسے سخت مایوسی ہوگی کہ اس میں نشانے پر محکمہ ٔ ڈاک ہے جس کی مقبولیت اور کارکردگی دن بہ دن رو بہ زوال ہے۔اسی طرح ایک خط میں اس شخص کے بارے میں بھڑاس نکالی گئی ہے جس نے مصنف کو بیرنگ خط لکھا تھا، ممکن ہے یہ خط بھی انتقاماً بیرنگ ہی پوسٹ کیا گیا ہوگا۔ خط اس طرح شروع ہوتا ہے ۔
 مکرمی جناب ! بعد ہاتھاپائی انگشت و پیشانی کے معلوم ہوکہ ہم سب لوگ یہاں خیریت سے ہیں ۔بچی شدید سردی وزکام میں مبتلا ہے ، منّے کے پیر میں موچ آ گئی ہے ،بیگم کا پیر پھر سے بھاری ہے ،اور ان سب کی ناز برداریوں میں ہمارے حال کے بے حال ہیں ۔اتنا سب ہونے کے باوجود اآ پ لوگوں کی خیریت خدا وندِ کریم سے شب و روز نیک چاہتے ہیں ۔  ’ فن ِ دروغ گوئی ‘میں حیدر بیابانی سماج میں جھوٹ کی جڑیں کھودنے پر پوری طاقت سے بھڑ گئے ہیں اور انواع و اقسام کے جھوٹ کو منظر عام پر لے آ ئے جن سے عوامی ذہن مانوس ہوچکا ہے اور اسے عیب بھی نہیں سمجھا جاتا ۔   ’ مسائلِ آ مد ورفت ‘ در اصل دورِ جدید کی وہ سواریاں ہیں جن کے سبب پرانے ذرائع نقل و حمل کو ہٹا دیا گیا ہے اور ان نوارد سواریوں کی زحمتیں مصنف کو کبھی مسکرانے پر مجبور کرتی ہیں اور کبھی طنز پر ۔ ’’اب تو اس تیز رفتار دور میں گھنٹیوں کی مدھر آ وازیں ، گھوڑوں کی ٹپ ٹپ اور سائیکلوں کی ٹن ٹن غائب ہو چکی ہے ۔اب تو موٹروں کی کھر کھر ،جہازوں کی بھر بھر اور ریلوں کی دھڑ دھڑ کے ساتھ دل دھڑک دھڑک کے سینے سے باہر آنے لگتا ہے ۔‘‘ ’ تیل کے کھیل ‘میں حیدر بیابانی نے عام استعمال کی اس چیز کے سماج پر پڑنے والے اثرات کو اپنے مخصوص اسلوب میں بیان کیا ہے ۔’’تیل کئی قسم کے ہوتے ہیں اور تقریباً تمام چیزوں سے نکالے جاتے ہیں ۔ہر جاندار اور بے جان چیز سے تیل نکالاجاسکتا ہے ۔مٹی سے لے کر آ دمی تک سب میں تیل ہوتا ہے اور بوقتِ ضرورت نکالا جاتا ہے۔‘‘ 
    اس کتاب میں شامل دیگر مضامین بھی اسی طرح ہمارے ارد گرد پائی جانے والی چیزوں اور لوگوں سے پیدا ہونے والی مضحکہ خیز صورتِ حال کو سامنے لاتے ہیں ۔ کتاب کانام ’ چشم دید ‘  اور اس میںشامل مضامین گواہ ہیں اس بات کے کہ مصنف نے سنی سنائی بیان نہیں کی ہے بلکہ اپنے آ س پاس جو دیکھا اس نے اسے یا تو ہنسنے مسکرانے پر مجبور کیا یا بے اعتدالیوں نے اس کے قلم کو طنز پر آ مادہ کیا ۔ کتاب میں بیان کئے گئے مناظراور مظاہر مصنف کی بے چینی کو بھی ظاہر کرتے ہیں ۔  مصنف کی زندہ دلی کبھی تو ان سے لطف اندوز ہونے کی کو شش کرتی ہے کبھی اس پر طنز کے تیر بر ساتی ہے ۔ حیدر بیابانی نے ان متنوع موضوعات کے مضحک گو شوں کو نمایاں کر نے لئے اپنے شگفتہ اسلوب کو بخوبی استعمال کیا اور کبھی لطائف اور دلچسپ واقعات کو برو ئے کار لائے ہیں ۔ ان مزیدار واقعات سے ان کے ارد گرد پھیلا ماحول اور سماجی زندگی کی ہنستی مسکراتی تصویریں بھی اس کتاب میں در آئی ہیں جو چشم دید کوقابلِ مطالعہ بناتی ہیں ۔  

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK