امسال ادب کے نوبیل انعام کے حقدار کا اعلان جمعرات کو نوبیل کمیٹی نے کیا۔ اسے تاریخی اہمیت کا حامل فیصلہ سمجھا جارہا ہے کیونکہ اس انعام کی تقسیم کی تاریخ میں پہلی بار اسے کسی ایشیائی خاتون اور جنوبی کوریا کی پہلی مصنفہ کو دینے کا اعلان کیا گیا۔
EPAPER
Updated: October 13, 2024, 4:07 PM IST | Literature Desk | Mumbai
امسال ادب کے نوبیل انعام کے حقدار کا اعلان جمعرات کو نوبیل کمیٹی نے کیا۔ اسے تاریخی اہمیت کا حامل فیصلہ سمجھا جارہا ہے کیونکہ اس انعام کی تقسیم کی تاریخ میں پہلی بار اسے کسی ایشیائی خاتون اور جنوبی کوریا کی پہلی مصنفہ کو دینے کا اعلان کیا گیا۔
امسال ادب کے نوبیل انعام کے حقدار کا اعلان جمعرات کو نوبیل کمیٹی نے کیا۔ اسے تاریخی اہمیت کا حامل فیصلہ سمجھا جارہا ہے کیونکہ اس انعام کی تقسیم کی تاریخ میں پہلی بار اسے کسی ایشیائی خاتون اور جنوبی کوریا کی پہلی مصنفہ کو دینے کا اعلان کیا گیا۔ ان سے قبل ۲۰۰۰ء میں جنوبی کوریا کے آنجہانی سابق صدر کم ڈائی جنگ نے امن کا نوبیل انعام حاصل کیا تھا۔ انہیں جنوبی کوریا میں جمہوریت کی بحالی، فوجی حکمرانی اور شمالی کوریا کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے اور امن کی کوششوں کے لئے اس اعزاز سے نوازا گیاتھا۔
نوبیل ادبی کمیٹی کی رکن اینا کیرن پام نے جنوبی کوریا کی مصنفہ ہان کانگ کی تصنیفات کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ’’ان کی نثری تحریر موسیقیت سے بھرپور، نازک اور کبھی درشت بھی ہوتی ہیں۔ اکثر ان کی تحریریں حقیقت پسندی سے نزدیک نظر آتی ہیں۔ ‘‘
نوبیل انعام ہان کانگ کے نام کئے جانے کو جنوبی کوریا کی ثقافت کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کے تناظر میں بھی دیکھا جا رہا ہے۔ خاص طور سے حالیہ برسوں میں چند پائے کی جنوبی کوریائی فلموں اور ڈرامہ کی عالمگیر شہرت اور انہیں ملنے والے آسکر ایوارڈ کے پس منظر میں۔
۵۳؍ سالہ ہان کانگ نے The Vegetarian کے عنوان سے ۲۰۱۶ء میں ایک `غیر معین یا مضطرب‘ ناول تحریر کیا تھا جس میں عورت کے گوشت خوری ترک کرنے کے بعد کی صورت حال کو نہایت فنکاری کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اس کتاب کو ۲۰۱۶ء کا ’’انٹرنیشنل بُکرز ایوارڈ‘‘ ملا تھا۔ تب یہ انعام وصول کرتے ہوئے ہان نے کہا تھا’’ ناول لکھنا میرے لئے سوال کرنے کا ایک طریقہ ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا تھا، ’’میں صرف اپنے سوالات کو اپنے عمل کے ذریعے مکمل کرنے کی کوشش کرتی ہوں، انہیں لکھتی ہوں اور سوالات کے دائرے میں رہنے کی کوشش کرتی ہوں۔ کبھی کبھی تکلیف دہ، کبھی اچھی طرح اور کبھی مطالبے سے بھرپور۔ ‘‘
یاد رہے کہ ان کا ایک اور ناول ’’ہیومن ایکٹ‘‘ ۲۰۱۸ء کے ُبکرز پرائز کے فائنلسٹ میں بھی شامل تھا۔
ہان کانگ کی تحریروں میں زندگی کی ناپائیداری کو انتہائی گہرائی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
ملاحظہ کیجئے ان کی دو نظمیں :
(۱)
تمہارے مرنے کے بعد میں جنازہ نہ اٹھا سکی
تو میری اپنی زندگی جنازہ بن گئی
تمہارے مرنے کے بعد میں جنازہ نہ اٹھا سکی ،
تو یہ آنکھیں جو کبھی تمہارا دیدار کرتی تھیں مزار بن گئیں
یہ گوش جو کبھی تمہاری خاطر بر آواز رہتے تھے مزار بن گئے
میرا عمل تنفس جو کبھی تمہاری سانسیں بحال رکھتا تھا مزار بن گیا!
ترجمہ : رومانیہ نور
(۲)
شیشے کے اندر سرما انتظار کر رہا ہے
یہ ایک ٹھنڈی جگہ ہے / مکمل سرد
چیزیں سردی سے کانپ نہیں سکتیں
شیشے میں جما چہرہ کپکپا نہیں رہا
ہم دونوں کے ہاتھ
ایک دوسرے تک پہنچ نہیں سکتے
ایک سرد جگہ
جہاں آنکھیں گھمائی نہیں جا سکتیں
پلکیں اٹھائی نہیں جا سکتیں
نہیں علم کہ انہیں کیسے اکٹھا کیا جائے
شیشے کے اندر سرما انتظار میں ہے
شیشے کے اندر
میں تمہاری نظروں سے بچ نہیں سکتی
تم اپنے ہاتھ میری طرف بڑھا نہیں سکتے!
ترجمہ: طاہر راجپوت
ہان کانگ نے نوبیل ایوارڈ ملنے پر پریس کانفرنس اور جشن منانے سے انکار کردیا ہے اور اس کی وجہ یوکرین۔ روس جنگ اور اسرائیل فلسطین تنازع ہے۔ ان کے ۸۵؍سالہ والد ہان سیونگ وون، جو خود بھی ایک ناول نگار ہیں، نے ایک پریس کانفرنس میں یہ بتایا کہ جمعرات کی شام کو ادب میں نوبیل انعام کے اعلان کے بعد، میں نے اپنی بیٹی سے بات کی اور ایک پبلشنگ ہاؤس منتخب کرنے کا مشورہ دیا تاکہ پریس کانفرنس کا انعقاد کیا جا سکے اور لوگوں کے ساتھ اس خوشی کو بانٹا جا سکے۔ شروع میں، اُس نے اتفاق کیا اور کہا کہ وہ ’’کوشش کرے گی‘‘ لیکن راتوں رات اس کا ارادہ بدل گیا اور اس نے جشن منانے سے انکار کردیا۔ ہان کانگ نے مجھ سے کہا ’’ جنگ کی وجہ سے روزانہ لوگوں کی لاشیں اُٹھائی جا رہی ہیں، ایسے میں ہم جشن یا پریس کانفرنس کیسے کر سکتے ہیں ؟ براہ کرم ان المناک واقعات (دو جنگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) کے دوران ہم کسی بھی قسم کا جشن نہ منائیں۔ سویڈش اکیڈمی نے مجھے یہ انعام اس لیے نہیں دیا کہ ہم لطف اٹھائیں، بلکہ اس لئے دیا ہے کہ میں پہلے سے بہتر دنیا کو دیکھ سکوں۔ یہ میرے کام اور حساس فطرت کے خلاف بات ہوگی اِس لئے میں کچھ بھی (جشن)نہیں کرنا چاہتی۔ ‘‘
انہوں نے بتایا کہ ’’اب اس کا نقطہ نظر کوریا میں رہنے والی ایک مصنفہ سے ایک عالمی شعور کی طرف تبدیل ہو چکا ہے، لیکن میں انعام یافتہ بیٹی کا والد ہونے کے احساس سے باہر نہیں آ سکا، اس لئے میں نے اس پریس کانفرنس کا اہتمام کیا ہے تاکہ سب کو اپنی بیٹی کی سوچ سے آگاہ کر سکوں۔ بےشک اس کے لیے فخر اور عزت کی بات ہے لیکن وہ کسی بھی قسم کی کوئی بھی تقریب نہیں چاہتی کیونکہ اس کا شعور اسے اس کی اجازت نہیں دیتا۔