پارلیمنٹ کی نئی عمارت کی ضرورت تھی یا نہیں تھی، ایسے دور میں جب کووڈ کی وجہ سے ہزاروں لوگ فوت ہورہے تھے
EPAPER
Updated: May 29, 2023, 12:38 PM IST | Mumbai
پارلیمنٹ کی نئی عمارت کی ضرورت تھی یا نہیں تھی، ایسے دور میں جب کووڈ کی وجہ سے ہزاروں لوگ فوت ہورہے تھے
پارلیمنٹ کی نئی عمارت کی ضرورت تھی یا نہیں تھی، ایسے دور میں جب کووڈ کی وجہ سے ہزاروں لوگ فوت ہورہے تھے، دیگر لاکھوں دانے دانے کو محتاج تھے اور یہ طے تھا کہ کووڈکے دفع ہونے کے بعد بھی اگر کئی برس نہیں تو کئی مہینے معیشت پٹری پر نہیں آئے گی، اتنا بڑا خَرچ کہاں تک جائز تھا اور حالات کے پیش نظر اس پروجیکٹ کو کچھ عرصہ کیلئے روکا جاسکتا تھا یا نہیں نیز اس عمارت کی تعمیر کیلئے عوامی نمائندوں یعنی اراکین پارلیمان کو اعتماد میں لینا ضروری تھا یا نہیں، یہ سارے سوالات اب بھی اہم ہیں اور سیاسی مباحث کے دوران آئندہ بھی پوچھے جائینگے۔ اس عمارت کا افتتاح بھی متنازع بن گیا جبکہ اسے تنازع سے پاک رکھا جاسکتا تھا۔
ان تمام اُمورکے باوجود صورت حال یہ ہے کہ نئی عمارت کا افتتاح ہوچکا ہے اور اب یہ قوم کا اثاثہ ہے۔ مسئلہ طریق کار کا ہے، قوم کے نام وقف ہونے والی عمارت کا نہیں ہے۔ یہ پُروقار عمارت ہمارے ملک کی پارلیمانی جمہوریت کی شان ہے جسے دیکھ کر یا محسوس کرکے ملک کے عوام او رآئندہ نسلیں تو فخر کریں گی ہی، بیرونی ملکوں سے آنے والے لیڈران، مہمانان، وفود اَور سیاح بھی خوش ہوں گے اور ناز کریں گے کہ دیکھنے جیسی عمارت دیکھی۔ حکومت کے طرز عمل سے ہزار اختلاف کے باوجود نئی عمارت کی ستائش نہ کرنا بخل سے کام لینے جیسا ہوگا۔ اِس قصر ِ جمہوریت کا شکوہ، طمطراق اور آن بان شان اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ عمارت خوبصورت ہے تو جمہوریت خوب سیرت ہو اور عمارت کو دیکھنے والے لوگ فن تعمیر ہی کو نہ سراہیں بلکہ ملک بھر میں اُنہیں جمہوریت سختی سے اور عملاً برتی جانے والی شے نیز ایک مستحکم رجحان کے طور پر دکھائی دے۔
کیا ایسا ہوتا ہے؟کیا ایسا ہوگا؟ اِس سوال کا جواب اہل اقتدار کے طرز فکر و عمل سے مشروط ہے۔ ہم ایک طرف شادماں ہیں تو دوسری طرف یہ سوچ کر فکرمند ہیں کہ نئی عمارت کا افتتاح صلاح مشورے اور اتفاق رائے سے کیوں نہیں ہو پایا؟ جمہوریت تو صلاح مشورہ اور اتفاق رائے ہی کا نام ہے! افسوس اس بات کا ہے کہ حکومت کو شاید اس کا ملال تک نہیں ہے۔ حق و انصاف پر یقین رکھنے والے ملک کے کروڑوں شہریوں کو یہ دیکھ کر دُکھ ہوا ہوگا کہ پارلیمنٹ کی عمارت میں پارلیمنٹ کا سربراہ نہیں ہے۔ یہ بالکل ایسا ہے جیسے خاندان کی کسی اہم تقریب میں خاندان کا سربراہ شریک نہ ہو۔ شاید ہم بھول گئے کہ خاندان کے سربراہ کو مدعو کرکے اور اُس کی سرپرستی کو عملاً قبول کرکے ہم اپنا ہی قد بڑھاتے ہیں، سربراہ کا نہیں، وہ تو سربراہ ہے، مدعو کیا جائے تب بھی سربراہ رہے گا، نہ کیا جائے تب بھی رہے گا۔ اپوزیشن نے اس کا پُر زور مطالبہ کیا تھا اور اسی لئے اس نے تقریب ِ افتتاح کا بائیکاٹ کیا۔ حکومت نے اس کی بھی پروا نہیں کی۔ اپوزیشن کے بغیر پارلیمنٹ کا تصور نہیں کیا جاسکتا مگر کل دُنیا نے دیکھا کہ عمارت نئی تھی، اس کا منظر بھی نیا تھا ۔
قصر ِ جمہوریت کے افتتاح کی خوشی کے ساتھ ہی ملک کے عوام نے جمہوریت کی آواز کو مقید ہوتا ہوا دیکھ کر تشویش بھی محسوس کی کیونکہ خاتون پہلوانوں اور دیگر مظاہرین کو روکنے کیلئے انتظامیہ نے طاقت کا استعمال کیا۔ یہاں بھی یہ حقیقت فراموش کردی گئی کہ جمہوریت طاقت کے استعمال سے فروغ نہیں پاتی، سننے، سمجھنے، منوانے اور ماننے، قائل کرنے اور قائل ہونے کے ذریعہ متشکل اور مستحکم ہوتی ہے۔ کل خاتون پہلوانوں اور دیگر کے ساتھ جو کچھ ہوا، افسوسناک تھا ۔