• Tue, 03 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

ہریانہ اور جموں کشمیر انتخابی نتائج اور بہار کی سیاست!

Updated: October 24, 2024, 2:00 PM IST | Dr Mushtaq Ahmed | Mumbai

ہریانہ کی جیت نے انڈیا اتحاد کو مایوس کیا ہے اور اس کی وجہ سے این ڈی اے میں شامل دوسری سیاسی جماعتوں کو بھی از سرِ نو غوروفکر کرنے کی ضرورت ہو رہی ہے۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

ہندوستان کے شہری کو ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر ان تمام سیاسی مبصرین کی نگاہیں ہریانہ اور جموں کشمیر کے اسمبلی انتخابات پر لگی ہوئی تھیں اور اس کی واحد وجہ یہ تھی کہ پارلیمانی انتخابات کے بعد ان دونوں ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے نتائج قومی سیاست کے لئے غیر معمولی اہمیت رکھتے تھے۔ ہریانہ کے تعلق سے نہ صرف کانگریس کو امید تھی کہ اس نے بی جے پی کے خلاف جو حکمت عملی اپنائی ہے اس سے ہریانہ میں کانگریس کے لئے فضا سازگار ہوگئی ہے اور وہ حکومت سازی میں کامیاب ہوگی۔ بلکہ ملک کے تمام سیاسی مبصرین اور ایگزٹ پول کے ماہرین کو بھی یہ یقین تھا کہ ہریانہ میں کانگریس کی زبردست واپسی ہوگی۔ لیکن نتیجہ چونکانے والا آیا اور ریاست میں بی جے پی تیسری بار حکومت پر قابض ہوگئی۔ اب سوال اٹھتا ہے کہ آخر کانگریس کہاں پیچھے رہ گئی اور کیوں رہ گئی؟ دراصل کانگریس اور بھاجپا کا جہاں کہیں بھی سیدھا مقابلہ ہوتا ہے وہاں کانگریس کے مقامی لیڈران کے ساتھ ساتھ قومی لیڈران بھی ضرورت سے زیادہ خوش فہمی کے شکار ہو جاتے ہیں اور زمینی حقائق سے چشم پوشی کرتے ہیں ۔ کانگریس کا المیہ یہ ہے کہ اس کے مقامی لیڈران کے اندر جو آپسی رسّہ کشی ہے اس کو قومی لیڈران بھی سنجیدگی سے نہیں لیتے ہیں ۔ اس لئے عوام تو کانگریس کو کامیاب کرنے کے لئے اپنا سب کچھ نچھاور کردیتے ہیں لیکن اس کے لیڈران پارٹی کو کامیاب بنانے سے زیادہ اپنی انفرادی طاقت کو بڑھانے تک محدود رہتے ہیں اور ایک دوسرے کو شکست دینے میں مشغول رہتے ہیں جب کہ بی جے پی کے کارکن صرف اور صرف اپنی پارٹی کو کامیاب بنانے کی جد وجہد میں رہتے ہیں ۔ ہریانہ میں بھی یہی سب کچھ ہوا ہے وہاں کماری شیلجا اور بھوپندر ہُڈا کے درمیان کی سیاسی رسہ کشی جگ ظاہر ہے اس سے کانگریس اعلیٰ کمان بھی بے خبر نہیں تھے لیکن اس کےباوجود ایک تیسرے چہرے سوریہ والا کی ہریانہ کی سیاست میں مداخلت نے کانگریس کی گروپ بندی کو مزید مستحکم کیا۔ واضح ہو کہ کماری شیلجا دلت ہیں اور ہُڈا جاٹ برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ کانگریس نے ٹکٹ تقسیم میں نہ صرف ہُڈا کو اہمیت دی بلکہ شیلجا کو نظر انداز کرنے کی تاریخی بھول بھی کی جس کی وجہ سے کانگریس کو دہرا نقصان ہوا۔ اولاً جاٹ کو اہمیت دینے کی وجہ سے دیگر پسماندہ طبقے کے نظریے میں تبدیلی آئی اور وہ بی جے پی کی طرف واپس ہوئے۔ دوئم شیلجا کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے دلت طبقے کو یہ احساس ہوگیا کہ اگر کانگریس کامیاب بھی ہوتی ہے تو شیلجا حاشیے پر رہے گی اور جاٹ برادری کا سیاسی اثر ورسوخ پھر پروان چڑھے گا۔ لہٰذ ا دلت ووٹ کے اندر بھی انتشار ہوا ورنہ حالیہ پارلیمانی انتخاب میں دلت طبقے کی اکثریت نے کانگریس کا ساتھ دیا تھا۔ بی جے پی کو زمینی حقیقت معلوم تھی لہٰذا اس نے نہ صرف اپنی پارٹی کے کارکنو ں کو فعال رکھا بلکہ غیر بھاجپا ووٹوں کو کانگریس کی طرف جانے سے روکنے کی شطرنجی چال بھی چلی۔  بہر کیف! اب ہریانہ کے انتخابی نتائج پر سر پیٹنے سے کوئی فائدہ نہیں اور ای وی ایم پر مبینہ شک ظاہر کرنا بھی فضول ہے کہ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ لیکشن کمیشن کس کی مٹھی میں ہے اور اس کا نظریہ کیا ہے۔ 
جہاں تک جموں کشمیر کے نتائج کا سوال ہے تو وہاں کے عوام کو مبارکباد دیا جانا چاہئے کہ وہاں جمہوریت کی جڑوں کو مضبوط کرنے کے لئے سبھوں نے حتی المقدور کوشش کی اور یہ پیغام عام ہوا کہ وہاں ۳۷۰؍کو ہٹانے اورریاست کی مختاریت پر ضرب کاری کے خلاف ووٹ ہوا ہے۔ نیشنل کانفرنس کی بڑی کامیابی نے یہ ثابت کیا ہے کہ فاروق عبداللہ کی قیادت کو کشمیری عوام قبول کرتے ہیں اور محبوبہ مفتی ودیگر آزاد پارٹی جو گزشتہ ایک دہائی میں بی جے پی کے لئے کسی نہ کسی طرح معاون رہی ہے اس کی زمین تنگ کردی ہے۔ بالخصوص پی ڈی پی کو جو خسارہ ہوا ہے وہ کشمیری عوام کی سیاسی بصیرت کامظاہرہ ہے۔ انجینئر رشید اور دیگر آزاد امیدواروں کو بھی عوام نے یہ سبق دیا ہے کہ وہ جو کچھ رات کے اندھیرے میں کرتے ہیں اس سے کشمیری عوام ناواقف نہیں ہیں ۔ وادی کشمیر میں نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے امیدواروں کے خلاف بی جے پی نے نہ صرف اپنے امیدوار اتارے تھے بلکہ اپنی کامیابی کے لئے آزاد امیدواروں کو بھی کھڑا کیا تھا مگر وہ ناکام رہے اور جموں خطے میں بھی کانفرنس کو قبولیت ملی البتہ یہاں کانگریس کو خاطر خواہ فائدہ نہیں مل سکا۔ واضح رہے کہ یہاں نیشنل کانفرنس کو ۴۲؍ سیٹیں ملی ہیں اور کانگریس کو صرف ۶؍، کانفرنس کے ووٹوں میں ۲ء۴۳؍فیصد ووٹوں کا اضافہ ہوا ہے کہ اس بار اسے ۲۳ء۴۳؍ فیصد ووٹ ملے ہیں جب کہ کانگریس کو ۱۱ء۹۷؍فیصد ووٹ ملا ہے اور ا سے ۶ء۲۳؍کا نقصان ہوا ہے۔ بی جے پی کو وادی میں پائوں جمانے کا موقع نہیں ملا لیکن خطہ جموں میں ۲۹؍ سیٹ حاصل کر کے یہ ثابت کردیا ہے کہ اس کے ووٹوں میں اضافہ ہو رہاہے۔ بی جے پی کو ۲۵ء۶۴؍فیصد ووٹ حاصل ہوا ہے جو گزشتہ اسمبلی انتخاب ۲۰۱۴ء سے ۲ء۴۴؍ فیصد ووٹ زیادہ ہے۔ سب سے زیادہ نقصان پی ڈی پی کو ہوا ہے کہ اسے صرف تین سیٹ ملی ہے اور ۸ء۸۷؍ فیصد ووٹ ہی مل پایا ہے جبکہ۲۰۱۴ء میں ا سے ۲۸؍ سیٹیں ملی تھیں ۔ غرض کہ ۱۴ء۰۳؍فیصد ووٹ کا خسارہ ہوا ہے۔ دراصل جموں کشمیر کے عوام نے مرکز کو سیدھے طورپر خبر دار کیا ہےکہ ۳۷۰؍کے خاتمہ اور ریاست کی خود مختاریت کی بازیابی کی کشمیری عوام کے فکر ونظر کا محور ومرکز ہے اور اس فکر ونظر کی حامل نیشنل کانفرنس عوام کے ساتھ رہی ہے اسلئے اسے تاریخی جیت حاصل ہوئی ہے۔ 
 ہریانہ کی جیت نے انڈیا اتحاد کو مایوس کیا ہے اور اس کی وجہ سے این ڈی اے میں شامل دوسری سیاسی جماعتوں کو بھی از سرِ نو غوروفکر کرنے کی ضرورت ہو رہی ہے۔ بہار میں جنتا دل متحدہ بی جے پی کو قابو میں رکھنا چاہتی تھی لیکن ان دونوں ریاستوں کے انتخابی نتائج نے ان کے حوصلے بھی پست کر دئیے ہیں اور کانگریس و راشٹریہ جنتا دل کے اندر بھی جو خاموشی نظر آرہی ہے اس سے ایسا لگتا ہیکہ انڈیا اتحاد کی پالیسی بہار میں تبدیل ہونے کی قوی امید ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK